پورے محلے کی دادی اصغری

پیر 22 مارچ 2021

Azhar Azmi

اظہر عزمی

میرے محلے کے گھر چھوٹے تھے مگر یہاں کے باسیوں کے دل بڑے تھے ۔ ہر کدورت سے پاک ، ہر تعصب سے بالاتر ، گلیاں تنگ تھیں مگر سوچیں کشادہ تھیں ۔  گلیاں اپنائیت کی وسعت اور خلوص کی خوشبو سے ہر وقت مہکتی رہتی تھیں ۔ کوئی رشتے داری نہ تھی مگر محلہ داری سب پر بھاری تھی ۔ مختلف مسالک کے لوگ رہا کرتے تھے مگر سب کا ایمان انسانیت پر تھا اور سب بلا شرکت غیر اس کے پیروکار تھے ۔


محلہ کیا تھا ایک خاندان تھا ۔اگر کبھی کوئی ناخوشگواری ہو جاتی تو محلے کے بزرگ جن کی بات ٹالنے کی کوئی ہمت بھی نہیں کر سکتا تھا ، آگے بڑھتے اور ایک ہی نشست میں سب گلے شکوے دور ہو جاتے اور پھر ایک دوسرے سے روٹھے باہم شیر و شکر ہو جاتے ۔ یہ محلہ بھی آباد ہوتے وقت انجانوں کی بستی ہی ہوگا مگر بعد میں تو سب ایک جسم ایک جان یو گئے تھے  ۔

(جاری ہے)

اس محلے میں ایثار و قربانی ، رواداری و محبت کی عجب عجب کہانیاں تھیں جن کے کردار اس دنیا کے لگتے ہی نہ تھے ۔ ان میں ایک دادی اصغری بھی تھیں ۔
دادی اصغری ہماری گلی میں رہا کرتی تھیں مگر ان کے نام کا احترام اس درجے ہر فائز تھا جس کا اب میں تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ جہاں سے گزر جاتیں جوان لڑکیاں اور بہوئیں اپنے برقعے اور دوپٹے سنبھالنے میں لگ جاتیں ۔

جوانوں اور لڑکوں کے ہاتھ سلام کرتے نہ رکتے ۔ دادی اصغری کا کمال یہ تھا کہ منہ سے کچھ نہ کہتیں ۔ میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ ان میں ایسا کیا وصف تھا کہ جس کو ایک نظر دیکھ لیں ۔ نظریں جھکا لیتا ۔ نظریں کیوں نہ جھکانا ۔ محلے میں ایسا کون تھا جسے دادی اصغری نے قرآن پاک نہ پڑھایا ہو ۔ کتنوں کا تلفظ صحیح کرایا ۔  
دادی اصغری کی کہانی کچھ زیادہ ہی عجیب تھی ۔

پورا محلہ ان کا لیکن ان کا کوئی عزیز اس محلے میں نہ رہتا ۔ گلی کے ایک گھر کے کمرے میں اکیلی رہتیں ۔ میں بالکل  غلط کہہ رہا ہوں ، اکیلی وہ ہوتی ہی نہ تھیں ۔ کوئی نہ کوئی قرآن شریف پڑھنے آیا ہوا کرتا تھا یا کسی کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ۔ دادی اصغری کی محلے میں آمد شاید میرے بچپن میں ہی ہوئی تھی ۔ کسی دوسرے محلے میں قرآن شریف پڑھانے آیا کرتی تھیں اور دوپہر میں ہمارے محلے کے پاس ایک باغ میں اپنی پوٹلی سے صبح کی روٹی پانی میں ڈبو کر کھاتیں ۔

۔ ہمارے محلے دار  نصیر بھائی نے کچھ دن تو انہیں دیکھا پھر ایک دن انہیں محلے میں لے آئے اور قرآن شریف پڑھانے کےلئے بچے ان کے حوالے کر دیئے اور ساتھ ہی اپنے گھر کا ایک چھوٹا کمرہ ان کو رہنے کے لئے دے دیا اور یوں دادی اصغری ہمارے محلے کی ہو گئیں ۔
دادی اصغری بہت رکھ رکھاو کی خاتون تھیں ۔ کم گو تھیں ۔ تبڑ تبڑ باتیں بنانا انہیں آتا ہی نہ تھا ۔

سلائی کڑھائی ، گھریلو ٹوٹکے غرض امور خانہ داری میں اپنی مثال آپ تھیں ۔ بہت تحمل مزاج تھیں ۔ صبر اور شکر کی دولت سے مالا مال تھیں ۔ ہر وقت اٹھتے بیٹھتے شکر خدا لبوں ہر رہتا ۔ نماز کی قضا کا تصور نہ تھا ۔ ٹہجد گزار تھیں۔  رمضان من پسند مہینہ تھا ۔ عید پر ایک ایک بچے کو بلا کر پیسے دیتیں ۔ دادی اصغری سے کبھی کوئی ملنے آیا  نہ کبھی دادی اصغری  کسی سے ملنے گئیں ۔

محلے کی جاسوس قسم کی عورتیں کہتی تھیں کہ دادی اصغری انڈیا سے شادی ہو کر پاکستان آگئیں ۔ شوہر کو آتے ہی ٹی بی ہو گئی ۔ وہ سدھار گئے ۔ نیا ملک تھا ۔ دادی اصغری نے قرآن شریف پڑھانا شروع کیا اور پھر پروردگار نے وہ عزت و توقیر دی کہ دنیا نے دیکھی ۔
دادی اصغری نے دنیا سے جاتے وقت بھی کسی کو تکلیف نہ دی ۔ بس جانے سے کچھ دن پہلے نصیر بھائی کے بیٹے کو چند سو روپے دیئے اور کہا : بس میاں اب چلنے کا وقت ہوگیا ہے ۔

یہ کفن دفن کے پیسے رکھ لو ۔ جس دن دادی صغری نے رخت سفر باندھا اس دن کوئی دفتر گیا نہ اسکول کالج ۔ ہر طرف اداسی تھی ۔ فضا سوگوار اور ہر آنکھ اشکبار تھی ۔ جس جس کو پتہ چلتا , آتا چلا جاتا ۔ اس دن جب مسجد کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں کھڑی دیکھیں تو پتہ چلا کہ آج کے کتنے بڑے بڑے افسروں اور کاروباری لوگوں کو دادی اصغری نے قرآن شریف پڑھایا تھا مگر کبھی تذکرہ نہیں کیا مگر شاہد یہ دادی اصغری کا مسئلہ بھی نہیں تھا ۔

یہ بھی ایک راز ہی رہا کہ آنے والوں کو خبر کیسے ہوئی ۔
دادی اصغری نے کبھی قرآن شریف پڑھانے کے کسی سے پیسے نہ مانگے جس نے جو دیا خوشی سے لے لیا بلکہ اگر انہیں اندازہ ہوتا کہ دینے والے کا ہاتھ تنگ ہے تو اس وقت تو پیسے لے لیتیں مگر چلتے وقت کسی نہ کسی بہانے سے جو دیئے یوتے  اس سے زیادہ پیسے دے دیا کرتیں اور کہہ دیتیں کہ یہ ادھار ہیں ۔

واپس ضرور لوں گی ۔ حقیقت یہ ہے کہ دادی اصغری نے جس کو پیسے دیئے زندگی بھر ان کا مطالبہ ہی نہیں کیا اور اگر کوئی یاد دلا کر واپس کرتا تو کہتیں :
 مجھے تو یاد نہیں ۔ ایک باری اور سوچ لو ۔
 دادی اصغری محلے کے جس گھر میں رہیں ان کو بھی ہر مہینے ایک لگے بندھے پیسے دیا کرتی تھیں ۔ جب وہ لینے سے انکار کرتے تو کہتیں : نہیں بھیا ، پھر میں یہاں نہیں رہنے کی ۔ یہ سب بات نصیر بھائی کی بیوی نے دادی اصغری  کے مرنے والے روز بتائی ۔
دادی اصغری کا جنازہ نہیں آٹھ رہا تھا ۔ معاشرے سے رواداری  اور بے غرضی کا ایک دور رخصت ہورہا تھا جس کے کاندھا دینے والوں میں ایک میں بھی تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :