" کراچی میں اسکول کا زمانہ اور بس کا سفر "

پیر 7 جون 2021

Azhar Azmi

اظہر عزمی

کراچی والوں کی شادی ہو کہ نہ ہو مگر ایک نوید مسرت ان کی زندگی میں بوقت پیدائش لکھ دی جاتی ہے اور وہ ہے بس کا سفر ۔ اس میں شادی سے بھی زیادہ سخت مقام آتے ہیں ۔ حوصلہ جواب دے جاتا ۔ ہمت ٹوٹ ٹوٹ جاتی ہے ۔ عزت نفس کا نظام تنفس ہانپنے لگتا ہے ۔ خود اعتمادی کے قدم نہ جانے کہاں پڑ رہے ہوتے ہیں ۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے ۔

نوید مسرت کے دو سالے مسلسل طلاق سفر کے سارے امکانات روشن کر رہے ہوتے ہیں مگر سفر تمام کئے بغیر اترنے کا یارا کسی میں نہ ہوتا ۔ سالا ڈرائیور بس کو اسٹاپ پر ایسے روکتا ہے جیسے دولھا سے پیسے لئے بنا شادی ہال میں داخل نہ ہونے دے گا ۔ کبھی ایسے جھٹکے سے بس چلاتا ہے کہ مارے غصے کے اسی کے سر کے اوپر لگے شیشے سے آرسی مصحف کرنا ہڑ جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

دوسرا سالا کنڈیکٹر کرایہ لیتے یا آتے جاتے ٹھڈے تک مار جاتا ہے ۔

شاعر کا تو علم نہیں مگر شعر یاد آرہا ہے ۔
چیک  کرتا ہے  وہ ٹھڈے مار کر
صبر کا یہ امتحاں بھی پاس کر  
ہم اسکول میں تھے اور نئے محلے پہنچے تو گھر سے اسکول دو بسیں بدل کر  پہنچنا ہوتا ۔ پہلے 4H مسافروں سے کھچا کھچ بھری بس کے آخری پاندان پر ایک پیر کے اگلے حصے کو جگہ ملتی ۔ یہ بس نیو کراچی سے ہی حلق تک بھری ہوئی آتی ۔ کوشش یہی ہوتی کہ بیگ کسی کھڑکی پر بیٹھے مسافر کو تھاما دیا جائے لیکن کبھی ایسا نہ ہوتا تو علم اور طالب علم ایک ساٹھ محو سفر ہوتے ۔

علم کا سارا بوجھ ہماری ناتواں ہیٹھ پر ہوتا اور ہمیں گدھے والی بات یاد آجاتی ۔
ہر اسٹاپ پر سافران تازہ دم بھری بس کی جانب لوگ ایسے لپکتے جیسے ہوری بس نہ صرف خالی ہے بلکہ اندر فی مسافر مع گاو تکیہ پلنگ بچھا ہے ۔ جس کو دیکھو پیر پر پیر رکھ کر گلے پڑتا ۔ روز اس سرکس میں ہمارے کس بل نکل جاتے ۔ کنڈیکٹر کو کرایہ لینے کی اتنی جلدی ہوتی کہ جہاں پیر رکھا وہیں اس نے آواز لگائی : چل میرا بھائی ٹکٹ ۔

ایک ہاتھ میں بس کا ڈنڈا اور دوسری طرف کرایہ طلبی ۔ خود پر رحم آجاتا ۔ اس زمانے میں تو اسٹوڈنٹس کے رعایتی ٹکٹ کی وجہ سے  کنڈیکٹر بہت خار کھاتے تھے ۔ بس نہ چلتا کہ چلتی بس کے نیچے ہی دے دیں ۔ ایسے دیکھتے جیسے ہم ان کی دوسری ماں کے پہلے شوہر کے بچے ہوں ۔
کوئی موٹا مسافر اگر گیٹ پر لٹک رہا ہوتا تو اس کے موٹے ہیٹ کی بھری بھری  سانسوں سے ہم دوسرے مسافر سے چپک جاتے ۔

سانس لینا بھول جاتے ۔  بس سے اترنا ہمیں جسم کے اجزائے ترکیبی کو جوڑنے کے برابر ہوتا ۔ اپنا پھنسا ہاتھ نکالنے کے لئے دوسرے کا ہاتھ گھسیٹ رہے ہوتے ۔ آواز آتی : ابے بھائی دیکھ کے ۔ کیا اپنے ساتھ لے جائے گا ۔ اکڑ دکھاتے تو وہ وہی ہاتھ گال رسید کر دیتا ۔
خود کو سنبھالیں یا بیگ کو ، روز کا امتحان تھا ۔ گرمیوں میں تو ہوا اچھی لگتی لیکن سردیوں میں ہاتھوں کا یہ حال کہ کاٹو تو خون نہیں ۔

یخ ہاتھوں کے ساتھ بس کا زنگ زدہ ڈنڈا پکڑنا اور چورنگی جیسا نازک موڑ کاٹتے ہوئے ایسا لگانا کہ چورنگی پر ہاتھ چھوٹا تو زندگی ہاتھ سے گئی اور پیچھے آنے والی گاڑی ہمارے جسم کو سلامی دیتی ہوئی گزر جائے گی ۔
سڑک کی رائے ہے جب بھی کوئی نازک موڑ آئے
مسافر کو ہے  لازم  خود ہی گاڑی سے اتر  جائے
غرض موت کا یہ سرکس روڈ پر ہر روز جاری رہتا ۔

ہم لیاقت آباد ڈاکخانہ اترتے تو استری شدہ یونیفارم کی ایسی تیسی پھر چکی ہوتی ۔ 7H سندھی ہوٹل قاسم آباد سے چلتی اور ڈاک خانے پر آکر رک جاتی اور پیچھے دوسری بس کے آنے تک ڈھیٹ بنی کھڑی رہتی ۔ لاکھ ڈھب  ڈھب کریں مگر وہ اپنے ڈھب سے نہ ہٹتی اور یہی کہتی جب تک پیچھے والی نہ آ جائے ، چلتی ہے میری جوتی ۔ 7C کے آنے سے اس کی اجارہ داری ختم ہوئی ۔

7C مکمل مکرانی روٹ تھا ۔ 7H کے کنڈیکٹر تھے تو تیز طرار مگر لفظی مار کٹائی تک محدود رہتے مگر مکرانی بھائی " آڑے کیا ہے ڑے " کہتے اور ہم اپنی آ ب پ ت بھول جاتے ۔
 اگر بس کے اندر گھسنے کا موقع ملتا تو لگتا کسی عطر کی دکان میں گھس آئے ۔ وہ وہ پسینے کے بھبکے کہ الٹی سیدھی منہ کو آئے  ۔ قد لمبا تھا،  جھک کر کھڑا ہونا پڑتا ۔ اسکول میں ٹائی پہننا لازمی تھی ۔

ایک دن میری کچڑی مچڑی ٹائی سیٹ ہر بیٹھے ایک صاحب کی ناک سے اٹھکیلیاں کر رہی تھی ۔ کچھ دیر برداشت کیا لیکن جب ٹائی کو ناک گردی میں ملوث پایا تو جذبات میں آکر میری ٹائی کھینچ لی ۔ میں اس وقت کھڑکی سے اسکول کے اسٹاپ کو دیکھنے کے لئے جھانک رہا تھا ۔ ایک دم لگا کہ گردن پر کسی نے 10 کلو کا بانٹ رکھ دیا ۔ زبان باہر نکل آئی ۔ نیچے دیکھا تو مسافر صاحب بولے : گرمی نہیں لگتی ؟ میں نے کہا : لگتی ہے مگر جب اسکول میں ہاتھ اور کولھوں پر ڈنڈا ہڑتا ہے تو اس کی مرچوں والی جلن اور گرمی کے مقابلے میں یہ گرمی سردی لگتی ہے ۔


کبھی کبھی 4H سے کریم آباد اتر جاتے کیونکہ وہاں سے 6A بھی پہلی چورنگی ناظم آباد جایا کرتی تھیں ۔ جب بھی چڑھو تو ایسا لگے کہ بس نہیں دلھن بارات کے اگلے روز چوتھی کھیلنے گھر جا رہی ہے ۔ اس کے نخرے ہی ختم نہ ہوتے ۔ بس ایک ہی لالچ تھی کہ اس میں آرام سے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے یس بیٹھنے کی جگہ مل جاتی لیکن اس آسانی کی قیمت ہمیشہ ہاتھ اور کولھوں نے مع سرخ دسید ادا کی ۔

ڈنڈا پڑنے کے بعد جس بے بسی سے کولھے پینٹ میں رقص کناں ہوتے ۔ آج بھی یاد کروں تو جھرجھری سی آجاتی ہے ۔
واپسی کا سفر اس سے کم تکلیف دہ ہوتا لیکن مار وہی دو بسوں کی ہوتی ۔ صبح سات بجے کے نکلے دوپہر 2 بجے تک گھر پہنچتے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم نے پڑھنے سے زیادہ اسکول آنے جانے میں اذیت جھیلی ہے ۔ میں کیا نہ جانے کتنے طالب علم تعلیم سے زیادہ تعلیمی سفر میں تھک گئے ۔

دو بجے گھر پہنچنے والے کا دماغ ہی شام تک ٹھکانے آتا ۔ پڑھنے کے لئے وقت ہی نہ ملتا یہی وجہ ہے سارے امتحان اوسط درجے پاس لئے اور زندگی بھر متوسط طبقے میں رہے ۔
پھر ایک دن خبر ملی کہ نصیب جاگ گئے ۔ بڑا میدان ناظم سے چلنے والے روڈ کو نیشنالائزڈ کر لیا گیا ہے ۔ وہ بسیں اب نورانی مسجد گراونڈ بلاک 20 سے گلبرگ ، پیپلز کالونی،  سات نمبر ، پیٹرول پمپ،  پہلی چورنگی ، گولیمار ، گرومندر ، صدر سے ٹاور جائیں گی اور روٹ کہلائے گا 2D . روٹ بدلا مگر کنڈیکٹر کی آواز نہ بدلی " چل میرا بھائی ٹکٹ کے پیسے ہاتھ میں رکھ" ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :