یاد رفتگاں ۔ میں اور میری لائبریریاں

ہفتہ 30 جنوری 2021

Azhar Azmi

اظہر عزمی

ایک زمانے میں شہر کا کون سا ایسا علاقہ یوتا کہ جہاں لائبریریاں ہوتیں ۔ ان پر سرشام ناولز ، رسالے اور ڈائجسٹیں کرائے ہر لے کر پڑھنے والوں کا تانتا بندھ جاتا اور رات گئے تک ایک خلقت جمع رہتی ۔ یہ لائبریری ایک طرح سے گلی اور محلے والوں کا میٹنگ پوائنٹ بھی ہوتی ۔ ایک عجیب ہی رونق ہوا کرتی تھی ۔ خوش گپیاں ، ادھر ادھر کی باتیں ، سب چلتا تھا ۔

کچھ افراد کے تو یہاں آنے کا وقت بھی مخصوص ہوتا جس کو ان سے ملنا ہوتا ۔ اس وقت وہاں آجاتا ۔ لائبریری کا مالک یہاں آنے والے ہر شخص کا دوست ہوتا ۔ راہ چلتے اپنے کسی بھی گاہک کو روک کر بتا دیا کرتا کہ مطلوبہ مال دستیاب ہے ۔ کچھ مشہور  ناول نگاروں کے ناولز کی ایڈوانس بکنگ بھی ہو جایا کرتی ۔
معاشی ، معاشرتی ، ادبی ، سیاسی غرض سارے مسائل لائبریری کے باہر یا آس پاس کھڑے ہی کھڑے زیر بحث آتے اور کچھ کا تو حل بھی نکل آتا اور کچھ کا محلول بنا دیا جاتا ۔

(جاری ہے)

ہر لائبریری پر بچے ، جوان ، بوڑھے سب موجود ہوتے ۔ خواتین دن میں ہی لائبریری کا چکر لگا آتیں یا پھر بچوں سے یہ کام کرا لیتیں ۔ ہم نے تو ابھی گھر سے قدم بھی نہ نکالے تھے کہ گھر میں اردو ، سیارہ اور عالمی ڈائجسٹوں کو موجود پایا ۔ پڑھنے کی لت پہلے ہی پڑ چکی تھی سو لائبریری سے کیسے دور رہتے ۔
میری زندگی میں کل 5 لائبریریاں آئیں ۔
پہلی لائبریری
میرا پہلا تعارف لائبریری سے اس وقت ہوا جب مجھے یہ پتہ بھی نہ تھا کہ کورس کے علاوہ بھی کتابیں ہوتی ہیں ۔

گھر سے ذرا آگے ایک دو گلی چھوڑ کر ایک بڑی لائبریری تھی ۔ ایک دن وہاں سے گزر رہے تھے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ لائبریری کے سامنے ایک لڑکا سڑک پر بیٹھا ہے اور لوگ اس کے اردگرد کھڑے ہیں ۔ قریب گئے تو کچھ گفتگو یوں ہورہی تھی ۔
" ہیں ۔۔۔ ہم کتابیں لا کر رکھیں اور تو چرا لے جائے " ۔
" پولیس کے حوالے کرو اس کو ۔ وہی اس کے دماغ ٹھکانے لگائے گی " ۔


" ارے پولیس  کو چھوڑو ۔ میں کیا پولیس سے کم ہوں ۔ جہاں اس نے کتابیں بیچی ہیں ، وہیں اس کو ٹھکانے لگا کر آوں گا " ۔
 یہ کہہ کر لائبریری کے مالک نے سڑک پر آدھے لیٹے اور آدھے بیٹھے لڑکے کے ایک چماٹ اور جڑ دیا اور لڑکا اللہ اللہ  کر کے منہ سہلاتا رہ گیا ۔ ایک صاحب جو مجمع میں خاصی دیر سے خاموش تھے ، بولے
 " بیٹا ہیرو نے تو فلم کے آخر میں ولن کو ایسی ہی کٹاس لگائی ہوگی لیکن وہاں آواز ڈھشوں کی آئی ہوگی اور یہاں پٹاخ کی " ۔


عقدہ کھل ہی گیا کہ لڑکے نے رات شٹر کھول کر کتابیں چوری کیں ، بیچیں اور فلم دیکھ آیا ۔ اب سوچتا ہوں کتنا آرٹ کا دلدارہ چور تھا ۔ کتابیں چوری بھی کیں تو فلم دیکھنے کے لئے ۔ بہرحال یہ تو تھا ہمارا لائبریری  سے پہلا تعارف جسے کسی طرح بھی ادب دوستی کے خانے میں رکھا نہیں جا سکتا بلکہ مار کھانے کے خانے میں ضرور رکھا جا سکتا تھا ۔ ہمیں اتنا یاد ہے کہ میرے سامنے اختتامی لات پڑھتے ہوئے یہی کہا گیا کہ آئندہ  فلم اب اپنے پیسوں سے دیکھیو  ورنہ اب جو تو نے کوئی فلم چوری کے پیسوں سے دیکھی تو اس کا نام ہوگا " تیری موت میرے ہاتھ " ۔


دوسری لائبریری
جب کچھ بڑے ہوئے اور قدم گھر سے باہر نکلے تو وہ چور والی لائبریری تو بند ہوچکی تھی البتہ کسی نے آگے روڈ ہر زینے کے نیچے چھ سات فٹ لمبی سرنگ نما لائبریری کھول لی تھی جہاں رات میں 60 واٹ کا ایک پیلا بلب جلتا جس کی اداسی مجھے آج بھی یاد ہے ۔ یہاں سے ہم نے بچوں کی کتابیں پڑھیں شروع کیں ۔اس زمانے میں اشتیاق احمد مرحوم کے ناولز آنا شروع نہیں ہوئے تھے ۔

نونہال اور تعلیم و تربیت کے علاوہ بچوں کا ایک مزاحیہ رسالہ بھی آیا کرتا تھا ۔ نونہال ہمدرد پاکستان کے زیر انتظام نکلتا جو آج بھی نکلتا ہے ۔ تعلیم و تربیت لاہور سے شائع ہوتا۔ ہم اس لائبریری  کے مستقل گاہک ہوگئے ۔ والد صاحب نے بس ایک شرط رکھی کہ بچوں کے رسالوں کے علاوہ کچھ ہاتھ میں نظر آیا تو خیر نہیں ۔
بچپن سے لائبریری  سے دوستی نے لکھاری بھی بہت جلد بنا دیا ۔

  ابھی چھٹی ساتوں جماعت میں ہی ہونگے کہ رحمن برادرز کے زیر انتظام  بچوں کے ایک رسالہ "غنچہ" میں ہماری کہانیاں شائع ہونا شروع ہوگئیں ۔ غنچہ کراچی کے نمایاں بچوں کے رسالے میں ہوا کرتا تھا گو کہ اسے نونہال اور تعلیم و تربیت والی شہرت حاصل نہ تھی ۔ رحمن برادرس ایک زمانے میں کراچی کے بڑے اشاعتی اداروں میں ہوا کرتا تھا اور پاکستان چوک کے قریب ہی واقع تھا ۔

رحمن  برادرس کی اردو سے انگریزی سکھانے کی کتاب بہت مشہور ہوا کرتی تھی ۔ بہرحال غنچہ میں ہماری کہانیاں شائع ہوئیں جس میں لائبریری  سے کتابیں لے کر پڑھنے کے شوق نے کہانی نویسی کی طرف راغب کر دیا تھا ۔ یہ ہماری زندگی کی دوسری لائبریری تھی لیکن کرائے پر رسالے لے کر  پڑھنے کی پہلی لائبریری تھی ۔
تیسری لائبریری
دوسری لائبریری سے رفاقت زیادہ عرصہ برقرار  نہ رہ سکی ۔

لائبریری جلد ہی شٹر بند ہو گئی اور ہم بھی کچھ عرصہ بعد اس علاقے سے کوچ کر کے نئے علاقے میں آبسے ۔ یہ علاقہ تھا فیڈرل بی ایریا جو نیا نیا آباد ہوا تھا ۔ ہمارے گھر سے ذرا دور ہی ہماری زندگی کی تیسری لائبریری تھی جس کا دورانیہ ہماری زندگی میں سب سے زیادہ رہا ۔ یہ تجارتی بنیادوں پر چلائی جانے والی باقاعدہ لائبریری تھی ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ نئے شائع ہونے والے ناولز ، رسالے ، ڈائجسٹوں  وغیرہ میں ہر ماہ باقاعدگی سے اضافہ ہوتا رہتا اور کئی کئی کاپیاں خرید لی جاتیں ۔


اس لائبریری پر شام اور رات کے وقت خاصا رش ہوا کرتا ۔  یہاں ہم نے اپنے وقت کے بچوں کے تمام مشہور ناولز کرائے پر لے کر پڑھے ۔ اس زمابے میں یہ ایک عجیب نشہ ہوا کرتا تھا ۔ ناول ہاتھ میں لیا اور اتنا صبر نہ ہوتا کہ گھر جا کر پڑھ لیں ۔ راستے میں ہی ناول پڑھتے پڑھتے گھر پہنچتے ۔ کوئی ہوش نہ ہوتا ۔ بس دنیا ناول کے صفحوں پر سمٹ آتی ۔ والدہ گھر کا سودا سلف لانے کا کہتی رہ جاتیں مگر ہم ٹس سے مس نہ یوتے ۔

وہ تو جب خیال آتا کہ ناول کے کرائے کے پیسے بھی تو والدہ سے لینے ہیں تو پھر ان کے آگے پیچھے ہوتے مگر اب والدہ کچھ منگوانے کو راضی نہ ہوتیں ۔ بس یہی کہتیں کہ اب تمھارے ابو رات میں آئیں گے تو وہ ہی لے کر آئیں گے ۔ ہماری جان اور نکل جاتی کہ پیسے تو کیا ہاتھ لگیں گے ، مار کے ہاتھ الگ لگیں گے ۔ مطلب رات کو والد صاحب ہاتھوں ہاتھ لیں گے ۔
 ماں ماں ہوتی ہے بالآخر ہمارے پیہم بلکہ بے ہنگم اصرار پر تنگ آکر سامان منگوا ہی لیا کرتیں ۔

اب یہاں سے ہماری کارروائی کا آغاز ہوتا ۔ سودا خریدنے کے بعد پہلے تو پاپڑی اور ٹاٹری والے مصالحے دار چھولے کھاتے ، مرچوں کے مارے زبان باہر نکل آتی ۔ کبھی کبھی تو ہچکی لگ جاتی ۔  چھولے والے کی ٹنکی سے پانی کا پورا گلاس چڑھا جاتے مگر مرچوں کی تیزی ختم ہونے کا نام نہ لیتی ۔ راستے میں سودے کا حساب ایسا بناتے کہ ناول کے کرائے کے پیسے بھی کھرے ہو جائیں ۔

لو بھائی ! گھر آکر سامان دیا اور پھر وہی ناول ہمارے ہاتھ میں ۔ ایک دن " ہم عالی پر کیا گزری " پڑھ رہے تھے کہ والدہ نے کتاب لے لی اور اتنا کہا کہ رات تمھارے ابو " عزمی پر کیا گزری " پڑھ کر سنائیں گے ۔ ہمارے ہاتھ پیر پھر پھول گئے مگر بھلا ہو گلی میں رہنے والی حیدرآبادی خالہ کا کہ وہ آن ٹپکیں اور امی کو محلے کا خبرنامہ سنانے لگیں ۔ باتیں کرتے کرتے امی نے عالی کو مسہری پر رکھا اور بھول گئیں ۔

اب تو بیڈز کا رواج عام ہوگیا ہے ۔
اس زمانے میں پورے گھر میں ایک یا دو مسہریاں ہوتی تھیں ۔ باقی پلنگوں کا ہی رواج تھا ۔ بڑے سے بڑا رشتے دار آجائے تو اسی پر بیٹھتا ۔ بس یہ خیال رکھا جاتا کہ پائینتی پر نہ بیٹھے کہ اس طرف بیٹھنے  میں تکلیف بھی ہوتی اور نہ نظر آ نے والے نشانات پڑنے کا امکان ہوتا ۔ دیکھا وہی ہوا جس کا ڈر تھا بات کہیں سے کہیں نکل گئی ۔

میں اکثر کہتا ہوں ماضی کے قصے اور عورتوں کی شاپنگ ایک جیسے ہیں ۔  سنانا یا خریدنا کیا ہوتا ہے اور نکل کہیں اور جاتے ہیں ۔ خیر حیدرآبادی خالہ کا آنا غنیمت جانا ۔ ناول دبایا اور دو چھتی پر تپتی دوپہر میں جا بیٹھے ۔ پسینے  میں شرابور مگر ناول کا نشہ سب پر حاوی تھا ۔ پھر والدہ ہی آواز دیکر کہتیں " اب نیچے بھی آجا ۔ کیا اٹوے پر ہی چڑھا رہے گا " ۔


ہماری پڑھنے کی رفتار خاصی تیز تھی اس لئے بچوں کی ایک ناول  24 گھنٹے سے پہلے چاٹ جایا کرتے ۔ ایک زمانے میں جو رش ویڈیو شاپس پر ہوا کرتا تھا کہ فلمیں کرائے ہر لینے والوں کی لائنیں لگی ہوتیں وہی رش ہم نے اپنے بچپن میں اس لائبریری پر دیکھا ۔ کرائے پر کتابیں لینے والے کبھی کرایہ دینے میں آنا کانی کرتے یا کسی پر ادھار زیادہ چڑھ جاتا تو کبھی کبھی بات توتتکار سے آگے بھی بڑھ جانا کرتی ۔

اگر کوئی کہتا کہ تم پیسے زیادہ بتا رہے ہو تو ایسے موقع پر پہلے کرائے کی کتابوں کا رجسٹر بطور ثبوت دکھایا جاتا ۔ اگر پھر بھی ادھار کا معاملہ نہ سدھرتا تو پھر اس کے لئے لائبریری  کے مالک نے ایک موٹا ڈنڈا بھی رکھا ہوتا کیونکہ بقول شخصے جب دھندہ روڈ پر ہورہا ہو تو ڈنڈا بہت ضروری ہے ۔
شریف گاہکوں کے ساتھ تمیز تہذیب سے پیش آیا جاتا ۔

اگر کوئی مستقل  گاہک ہوتا اور باقاعدگی سے پیسے دیتا تو بطور خیر سگالی دو دن کے کرائے کو ایک دن کا کردیا جاتا ۔ اس زمانے میں اگر کبھی کوئی لڑکی یا خاتون لائبریری آ جاتی تو لائبریری پر کھڑے لوگ ایک طرف ہو جاتے خیر کراچی میں یہ اخلاقیات تو آج بھی اسی طرح برقرار  ہے ۔ قصہ مختصر  ہم نے اس لائبریری  سے جی بھر بچوں کے ناولز اور رسالے پڑھے ۔

کچھ عرصہ بعد یہ شوق بھی دم توڑ گیا ۔ وجہ یہ تھی کہ زندگی میں اخبار آگیا تھا ۔ سیاسی خبروں اور معلومات کے ہم شروع سے رسیا تھے اس لئے برابر والی خالہ کے ہاں اسکول اور کالج کے ابتدائی سالوں میں دوپہر کو اخبار پڑھے بغیر بقول والدہ کھانا ہضم نہ ہوتا ۔
چوتھی لائبریری
برابر والی خالہ کے بیٹے حسن بھائی کو ایک زمانے میں جاسوسی ناولز پڑھنےکا شوق ہو گیا ۔

مین روڈ کے ایک گھر میں ایک لائبریری ہوا کرتی تھی جس کے مالک ملگچے بالوں اور منہ میں پان دبائے بیٹھے رہتے تھے ۔ لائبریری سے کتابیں لے کر پڑھنے والوں کی تعداد کم تھی ۔ ہم حسن بھائی کے ساتھ ناول واپس کرنے اور لینے جایا کرتے تھے مگر کبھی کسی ناول کی طرف دھیان نہیں گیا ۔ یہ چوتھی لائبریری ہمارے لئے دکان سے زیادہ نہ تھی ۔  لائبریری والے صاحب ایک صاحب بصیرت شخص تھے ۔

ظاہری شکل و صورت سے جو تاثر ملتا گفتگو سے بالکل زائل ہوجاتا ۔ صاف لگتا کہ لائبریری کا پیسے کمانے سے دور پرے کا کوئی واسطہ نہیں ۔  یہ چوتھی لائبریری قائم تو کافی دن رہی مگر ہم اس وقت جاتے رہے جب تک حسن  بھائی کو ناول پڑھنے کی چاٹ لگی رہی ۔
یہ بات شاید حیران کن ہے کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں (معذرت کے ساتھ ) کبھی کوئی جاسوسی ناول نہیں پڑھا ۔

خواتین کے ناولز پڑھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ مجھے میٹرک کے بعد بھی جاسوسی ناولز پڑھنے کا چسکہ کیوں نہیں لگا ۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ یہ اس زمانے کا موبائل فون تھا اور میں اس تعمت سے محروم رہا ۔ ابن صفی اور پھر ان کے دیگر ہم نام اور مظہر کلیم اس وقت کے مشہور ناول لکھنے والے ہوا کرتے تھے مگر ابن صفی کا کوئی ہم سر نہیں تھا ۔

ابن صفی  صاحب کو میں نے اسکول کے زمانے میں  دیکھا تھا ۔ آپ کی رہائش فردوس کالونی میں تھی ۔ ہمارے اسکول کے عقب میں آپ کا گھر تھا۔ ہم ریسس (بریک) کے وقت جب کبھی موقع ملتا تو پیچھے کے چھوٹے گیٹ سے کچھ دیر کے لئے باہر نکل آتے ۔ ایسے میں کبھی ان کو گھر کے سامنے چہل قدمی کرتے دیکھا یا سردیوں میں کرسی پر بیٹھ کر دھوپ سینکتے  ۔
پانچویں لائبریری
اب آتے ہیں پانچویں اور آخری لائبریری کی طرف ۔

مجھے اتنا یاد ہے کہ جب ابن صفی کا نیا ناول آتا تو لائبریری والے کی چاندی ہو جاتی ۔ ہمارے محلے میں کھلنے والی اس نئی مگر مختصر لائبریری کا مالک بہت ہوشیار تھا ۔ وہ ایک ناول کے دو حصے کر کے انہیں کرائے پر چلاتا ۔ میرے ہم عمر چچا زاد بھائی ابن صفی کے دیوانے تھے ۔ اگر ابن صفی دستاب نہ ہوں تو مظہر کلیم ، نجمہ صفی اور اللہ جانے کس کس صفی کو پڑھ لیا کرتا ۔

سب سے مزے کی صورت حال اس وقت پیش آتی کہ جب چچا زاد بھائی ناول لے کر گھر آتا تو چچا آتے ہی اس پر قبضہ کر لیتے اور وہ منہ دیکھتا رہ جاتا ۔ چچا زاد کا نام نجمی تھا اس لئے میں اسے ایک عرصے تک نجمی صفی کہتا رہا ۔ اب قدریں بدل گئی ہیں ۔ پہلے ہر محلے میں دوچار لائبریریاں ضرور ہوتیں ۔ اب لائبریری  تو دور کی بات کتابوں کی دکانیں ڈھونڈنی مشکل ہیں ۔ اگر کسی سے کتابوں کی دکان کا پوچھو تو ایسے دیکھا جاتا ہے جیسے ہم کسی اور سیارے سے آئے ہیں ۔اب کسی کو کیا پتہ کہ ہم بچپن میں سیارہ ڈائجسٹ پڑھ کر آئے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :