پختہ خیالی

منگل 10 نومبر 2020

Bilal Hussain

بلال حسین

فلسفہ عروج و زوال اقبال کی نظر میں
اقبال تیرے عشق نے سب بل دیئے نکال
مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی
شاعر مشرق حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ علیہ کی شخصیت پہ لکھنے والوں کی عمریں ڈھل گئیں مگر علامہ اقبال کی شخصیت کے کسی بھی پہلو کا پوری طرح احاطہ نہ کیا جا سکا۔ کیونکہ قلندر لاہوری کی شخصیت ہمہ جہت و ہمہ گیر تھی جو ہر زمانے اور ہر دور کے ساتھ ساتھ ہر قوم کے لیئے نمود صبح کا پیغام دیتی ہے۔


جس نے بھی اقبال کو پڑھا سمجھا اس نے دنیا میں مقام پایا۔ اھل فارس نے جب اقبال کو پڑھا تو ایران میں انقلاب آگیا۔ اھل برصغیر نے جب اقبال کے نغموں کو سنا تو صد سالہ برطانیہ کے تخت کو گرا دیا۔ گویا اقبال کا ایک ایک شعر صدائے انقلاب لیئے ہوئے تھا۔

(جاری ہے)


قلندر لاہوری نے جس طرح مسلمانوں کو جھنجوڑا اور بیدار کیا آج بھی اگر علامہ اقبال کے بتائے ہوئے رستے پہ آجائیں تو مسلم قوم اقوام عالم کی امامت کر سکتی ہے۔

آج اگر مسلمان بدحالی و غلامی سے نکلنا چاہتے ہیں تو اقبال کے بتائے ہوئے فلسفہ پہ چل کر ہر پستی سے نکلنے کا راستہ مل سکتا ہے۔
علامہ اقبال نے کس طرح مسلم امہ کو مرکز کی طرف بلایا اور ہر زوال کا علاج عشق رسول عربی کو بتایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن رحمت سے جڑ جانے کو عروج و کمال کی ضمانت کہا۔
اس پر مختصر کلام پیش خدمت ہے اس امید پر کہ اس کو پڑھ کر ہم اپنا قبلہ درست کریں تا کہ خواب غفلت سے جاگ کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے ساتھ جڑ جائیں۔

اور نقش نعل حضور سے ہم مسلمان اپنی راہ متعین کر سکیں۔ہمیں چاند تک پہنچنے کی ضرورت نہیں اگر ہم قدم رسول پاک تک پہنچ جائیں تو چاند ان کے قدموں پہ نثار ہے۔
میں یہ چاہتا ہوں کہ امت اپنی روش قدیم چھوڑ کر علامہ سے درس لے کر بامقصد زندگی گزارے ۔
محض ایک شاعر نہیں، بلکہ انہوں نے اس خداداد صلاحیت کو مقصدیت کے قالب میں ڈھالا اور اسے قرآن حکیم کے مطالب اور اس کے ہمہ گیر انقلابی پیغام کے فروغ و اشاعت کا ذریعہ بنایا۔

چنانچہ انہوں نے ’’قرآن میں ہوغوطہ زن اے مردِ مسلماں!‘‘کے انداز میں قرآن مجید کی آیات میں غور وفکر کیا۔ اس چشمۂ ہدایت سے فیض یاب اور سیراب ہوکر انہوں نے قرآن و حدیث کی بنیاد پر مسلم اُمت کے زوال و انحطاط اور زبوں حالی کے اسباب پر غور کیا اور ایک حاذق حکیم کی طرح ناصرف زوالِ اُمت کی درست تشخیص کی بلکہ اسی چشمہ ٔہدایت سے رہنمائی لیتے ہوئے اس کے تدارک کے طور پر اس کا علاج بھی تجویز کیا،
علامہ کو ایک قومی ہیرو اور مشاہیر کی فہرست میں تو شامل کیا جاتا ہے، لیکن اُن کے افکار اور پیغام کو، جس کی آج ہمیں بے انتہا ضرورت ہے، بدقسمتی سے اسکولوں اور کالجوں کے نصاب سے کھرچنے کا سرکاری سطح پر اہتمام ہورہا ہے جب کہ مسند اقتدار پر بیٹھنے والے آج بھی زبانی کلامی اقبال کے گن گارہے ہوتے ہیں۔

اقبال فرماتے ہیں:
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری!
جس طرح کہ شروع میں اشارہ کیا تھا کہ حالیہ اسلامی بیداری کا اصل منشور قرآن اور رسول اللہ کی سیرت ہے اقبال بھی اسلامی بیداری کا اصل منبع قرآن حکیم کو قرار دیتے ہیں:
قران میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّت کردار
اقبال جہاں بڑے شاعر تھے، وہیں اسلامی وملی دردرکھنے والے اور قومی غیرت وحمیت سے سرشار سچے او رپکے مسلمان بھی تھے۔

انھوں نے امت مسلمہ کے اجتماعی شعور کو بیدار کرنے، انھیں فراموش ماضی کی یاد دہانی کرانے اور انھیں خیر امم کے مطلوبہ منصب پر لا کھڑ اکرنے کے لیے پیمبرانہ مقاصد کے تحت شاعری کے ہتھیار سے کام لیا۔ناقدین اپنے مفروضات کی بنیاد پرخواہ کچھ بھی رائے قائم کریں، حقیقت یہ ہے کہ یہی تذکیری دور ان کی شاعری کا نقطئہ عروج ثابت ہوا
حب رسول اور عشق نبوی تو ان کے شریانوں میں خون بن کر گردش کرتا تھا۔

بخاری اور مسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ تمھارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا، جب تک کہ میری محبت تمھارے دل میں اولاد، والدین اور پورے انسانی کنبے کی محبت سے بڑھ کر نہ ہو۔ اس حدیث کے واضح مفہوم پر ایمان رکھتے ہوئے علامہ اقبال حب نبوی اور عشق رسول کو ایمان کی بنیاد واساس تصور کرتے تھے ۔ آپ ﷺ کا نام زبان مبارک پر آتے ہی یا آپﷺ کانام کانوں میں پڑتے ہی احساس وشعور میں سوز وگداز کی برقی لہر دوڑ جاتی اورتفکرات کی لا محدود دنیا میں کھو جاتے تھے اور پر نم آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگ جاتی تھی۔

ذکر نبوی کیا چھڑ تا کہ ان کے جذبات پر رقت کی کیفیت طاری ہوئی اور وہ چند ثانیوں میں بے قابو اور بے تاب ہو گئے۔ عشق رسول ، صحابئہ کرام سے محبت ان کی شاعری کا جزو اعظم تھا۔ اور عشق نبوی کی آگ نے غیر محبوب کے سارے تصورات کو جلا کر خاکستر کردیا تھا۔علامہ اقبال کی حضور پرنور ﷺ سے والہانہ عقیدت اور محبت اتنی دو آتشہ تھی کہ پنجاب کے ایک صاحب ثروت کی شان دار کوٹھری کے مخملی اور نرم بسترے پر اس لیے رات نہیں گزاری اور پوری رات ایک کرسی پر بیٹھ کر روتے اور سسکتے ہوئے یہ کہہ کر گزاردی کہ ” جس رسول پاک کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے حاصل ہوئے ہیں، اس نے بوریے پر سو کر زندگی گزاردی تھی۔


علامہ اقبال بھی کارزار حیات میں عشق او ر محبت کی تاثیرکے قائل تھے۔ عشق ہی آداب خود آگا ہی سکھاتا ہے۔ اسی سے خودی کو استحکام ملتا ہے۔ اور ہر عمل کو عشق ہی دوام وخلودعطاکرتا ہے۔ عشق سے ہی زندگی کو آب وتاب ملتی ہے اور اسی سے زندگی کی تاریک راہیں روشن ہوتی ہیں۔مسجد طرقبہ اور تاج محل کو عشق ومحبت کی طلسمی تاثیر نے ہی دوام بخشا۔ علامہ اقبال عشق کی تاثیر اور اس کے تقدس و پاکیزگی کے حوالے سے کہتے ہیں۔


عشق دم جبرئیل عشق دل مصطفی​
عشق خدا کا رسول عشق خدا کا کلام​
عشق کے مضراب سے نغمئہ تار حیات​
عشق سے نور حیات عشق سے نار حیات​
علامہ اقبال کا دل عشق رسول سے معمور تھا۔ عشق نبوی کی روشنی سے ان کے دل کی پوری کائنات منور تھی۔ دل میں اتنا سوز وگداز تھا کہ سرکار دوعالم کا نام لبوں پرآتے ہی بے تاب ہوجاتے ، ماہی بے آب کی طرح تڑپتے اور اندروں میں زیر وزبر ہونے والے جذبات کا عالم دیدنی ہوتا تھا۔


اقبال اپنے عمیق مطالعے اور مبنی بر تجزیہ مشاہدے کی بنیاد پر اس نتیجے تک پہنچے تھے کہ امت مسلمہ کی زبوں حالی اور ان کی مذہبی وسماجی مشکلات کے حل کی کلید ذات نبوی اور اسوئہ رسول میں پوشیدہ ہے۔ ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہمیں اس لیے دے مارا کہ ہم نے اپنے اسلاف کی میراث گنوادی ۔ علامہ اقبال ہر مصیبت اور پریشانی کے وقت در نبوی پر اپنی جبین نیاز خم کرتے ہیں۔

ان کے تصور سے اپنے مشام جان کو معطر کرتے ہیں اور انھیں کے پرنور مرقد سے دستگیری کی التجا کرتے ہیں۔ علامہ اقبال حضور رسالت مآب کے در دولت پر ہی اپنا دکھڑا سناتے اور اپنی بے کلی اور بے چینی کا سامان تلاش کرتے ہیں۔ بانگ دار کی نظم”خطاب بہ نوجوانان اسلام“ میں انھوں نے مسلم نوجوانوں کو انھی اسلامی خطوط پر غور وفکر کرنے اور انھیں ا پنے بھولے ہوئے ماضی کو یاد کرنے کی تلقین کی ہے کہ اسی راہ سے امت مسلمہ کے درد کا مداوا کیا جاسکتا ہے اور اس کو زندگانی کی پرخار وادیوں سے بآسانی نکالا جاسکتا ہے۔

علامہ اقبال عظمت رفتہ کی بازیابی اور دنیا کے منظرنامے پر اپنی موجودگی درج کرانے کے لیے حضور رسالت مآب ﷺ کے منہاج ومزاج کی پیروی اور ان کے اسوئہ حسنہ کی اتباع کو لازمی قدر قرار دیتے ہیں، کیوں کہ اسوئہ حسنہ کی مکمل اتباع اور آپ کے نقش قدم کی پیروی میں ہی دنیا اور آخرت کی یقینی کامیابی اور سر خروئی کا راز مضمر ہے، جواب شکوہ میں خدائی وعدے کی یاد دہانی کراتے ہوئے یوں نغمہ سر ا ہیں:​
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں کیا چیز ہے لوح وقلم تیرے ہیں
عشق رسول ﷺ کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ۔

علامہ اقبال کے نزدیک دنیوی زندگی کی کامیابی ہو یا آخرت کی فوزو فلاح عشق رسول ﷺ کے بغیر نا ممکن ہیں۔تسخیر کائنات جیسا اہم کارنامہ بھی اسی وقت انجام دیا جا سکتا ہے جب مسلمان حضور ﷺ کے عشق سے فیض یاب ہو کر اقوام عالم میں پھیل جائیں۔
؂قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد ؐ سے اجالا کر دے
حقیقت یہی ہے کہ قرآن پاک میں غوطہ زن ہو کر عشق رسول ﷺ میں ڈوب کر اپنی منزل سے آگاہ ہوں۔

جس خوش نصیب کو عشق رسول ﷺ کی گراں بہا دولت نصیب ہو گئی یہ کائنات بحرو بر اس کے گوشہ دامان کی وسعت سے زیادہ نہیں رہے گی۔اس لیے ملت اسلامیہ کی زندگی حضور انور ﷺ کے عشق سے ہی وابستہ ہے نہ صرف یہ کہ بل کہ پوری کائنات کا حسن جمال آپ ﷺ کے عشق کی خیرات ہے۔
ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست
بحر بر در گور گوشہ دامان اوست
زانکہ ملت و حیات از عشق اوست
برگ و ساز کائنات از عشق اوست
علامہ اقبال نے بار ہا نظم و نثر کے ذریعے متعلقین کو اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ عصر حاضر کے تمام مسائل کا حل حضور اکرم ﷺ کی اتباع اور ان سے محبت میں مضمر ہے اقبال کی شاعری میں جگہ جگہ حضور اکرم ﷺ سے عقیدت کا اظہار ملتا ہے۔


کرم اے شہ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظر کرم
وہ گدا کہ تو نے عطا کیا ہے جنھیں دماغ سکندری
اے باد صبا کملی والے ؐ سے جا کیہو یہ پیغام میرا
قبضے سے امت بیچاری کے دیں بھی گیا دنیا بھی گئی
اور علامہ صاحب نے مسلمانوں کو یہ بات سمجھائی کہ
کی محمد سے وفا توں نے تو ہم۔تیرے ہیں
یہ جہاں ہے چیز کیا لوح و قلم تیرے ہیں
مثل بو قيد ہے غنچے ميں، پريشاں ہوجا
رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہوجا
ہے تنک مايہ تو ذرے سے بياباں ہوجا
نغمہ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہوجا
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر ميں اسم محمد سے اجالا کر دے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :