ولادت محسن انسانیت

پیر 18 اکتوبر 2021

Bilal Hussain

بلال حسین

ہوں لاکھوں سلام اس آقاپربت لاکھوجس نےتوڑ دئے
دنیا کو دیا پیغام سکوں ،طوفانوں کے رخ موڑ دئے
اس محسن انسانیت نے کیا کچھ نہ دیا انسانوں کو
دستور دیا منشور دیا کئی راہیں دیں کئی موڑ دئے
دوسری جنگ عظیم کے دن تھے، پوری دنیا بارود اور آتشیں اسلحہ کے نشانے پر تھی، ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکہ ایٹم بم برسانے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کررہا تھا۔

دنیا ایک مہیب اور ڈراؤنے خوف میں مبتلا تھی۔ امن کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی
تھی۔ انسانی لاشوں پر ابلیس کا رقص جاری تھا، آدمیت کی اس بے بسی اور انسان کی بے حسی کو دیکھتے ہوئے یورپ کے مشہور فلسفی برنارڈ شاہ نے کہا تھا :
’’آج اگر پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاکم مان لیا جائے اور ان کے پیغام امن کو اپنا لیا جائے تو امن قائم ہوسکتا ہے۔

(جاری ہے)


کیونکہ تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھ لیں کہ چھٹی صدی مسیحی میں کس طرح پوری نوع انسانی خود کشی پر آمادہ و کمر بستہ تھی،جیسے خود کشی کرنے کی اس نے قسم کھائی ہے،ساری دنیا میں خود کشی کی تیاری ہو رہی ہے، اللہ تعالی ٰنے قرآن شریف میں اس منظر اور صورت حال کی جو تصویر کھینچی ہے،اس سے بہتر کوئی بڑے سے بڑا مصور،ادیب و مورخ تصویر نہیں کھینچ سکتا،وہ فرماتا ہے(آل عمران:103)
ترجمہ:”اور خدا کی مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچالیا۔


حدیث شریف میں آتا ہے:“(مسند احمد)
:”اللہ تعالیٰ نے زمین والوں پر نظر دوڑائی تو اس کو ان سے نفرت ہوئی، عربوں سے بھی اور غیر عربوں سے بھی، سوا چند بچے کھچے اہل کتا ب کے۔
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت بنی نوع انسان کے لیئے رحمت ۔ برکت اور امن کا پیغام ثابت ہوئی۔
پیغمبر انسانیت، رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے بڑا انقلاب یہ لائے کہ انہوں نے صدیوں سے متحارب قوم کوبھائی بھائی بنادیا۔

قرآن نے اس کا اعلان یوں کیا :
(آل عمران، 3 : 103)
’’اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر (پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں (اپنا رسول بھیج کر) اس گڑھے سے بچا لیا۔ ‘‘
تباہی کا یہ گڑھا شرک بھی تھا، ظلم و زیادتی بھی تھی، انسانی تذلیل بھی تھی اور باہمی جنگیں اور خون خرابے بھی تھے مثلاً اوس اور خزرج دو معروف قبائل تھے جن کے درمیان 300 سالوں سے جنگ جاری تھی۔

عرب سماج میں مردوں کو صرف اس لئے عورتوں پر ترجیح دی جاتی تھی کہ وہ جنگوں میں شامل ہوکر مخالفین کا خون بہانے میں زیادہ اہل ثابت ہوسکتے تھے۔ وہ عرب جن کی شاعری میں سب سے بڑی خوبی یہی سمجھی جاتی تھی کہ اس میں مخالف فریق کی بزدلی اور اپنے لوگوں کی بہادری کے لئے مبالغے کی حد تک بیان ہو۔ چنانچہ قدیم عربی شاعری کے معروف شعری مجموعے کا نام ہی ’’دیوان حماسہ‘‘ پڑھ گیا۔

جسکا معنی ہے ’’جنگ و جدل میں بہادری پر اکسانے والا مجموعۂ کلام‘‘۔
عظم شاعرحالی نے اسی منظر کو شعری قالب میں بیان کیا ہے۔
مفاسد کو زیر وزبر کرنے والا
قبائل کو شِیر و شکر کرنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
وہ اک نسخۂ کیمیاء ساتھ لایا​
غرض آج کا ترقی کرتا انسان۔

حقوق کے لیئے بیدار انسان۔ پہاڑوں کو روندنے والا انسان۔ فضا کو مسخر کرنے والا انسان۔سیاروں پہ کمند ڈالتا انسان۔ تیر کا رخ موڑتا انسان۔ پل میں دنیا کی سیر کرتا انسان۔ یہ وہی انسان ہے جو کبھی برہنہ جسم لیئے غاروں میں رہتا۔ تہذیب سے عاری۔ عقل و دانش سے نابلد تھا مگر آج اشرف المخلوقات ہے۔ یہ 12 ربیع الاول کو دنیا میں جلوہ گر ہونے والی اسی ہستی محسن انسانیت بلکہ اگر کہوں کہ بانی انسانیت تو مبالغہ نہ ہوگا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرہون منت ہے۔


آیا ہے راہ راست دیکھانے کے واسطے
بندوں کو ان کے رب سے ملانے کے واسطے
دنیا یہ بت کدوں کی گرانے کے واسطے
رسم و رواج کفر مٹانے کے واسطے
انسان کو بندگی کا سلیقہ سیکھائے گا
وہ آکر انسان کو راہ ہدایت بتائے گا
مرحبا یا سیری مکی مدنی العربی
دل و جان فدایت چہ عجب خوش لقبی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :