مدرسوں اور تعلیمی اداروں میں یکساں مذہبی تعلیم د ی جائے

منگل 18 دسمبر 2018

Chaudhry Abdul Qayyum

چودھری عبدالقیوم

اسلام ایک آفاقی دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی کریمﷺ پر وحی کے ذریعے اپنی پاک کتاب قران مبین کی صورت میں ہمیں عطا کیا جس میں پوری انسانیت کے لیے رہتی دنیا تک زندگی کے ہر معاملے کے لیے راہنمائی موجود ہے۔اللہ تعالیٰ نے قران کے پارہ نمبر6 سورة المائدہ کی آیت نمبر 3 میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ آج سے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کردیا ہے۔

اس الہامی کتاب میں ہمارے ہرسوال کا جواب ا ور ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ قران پاک کے پارہ نمبر 17 آیت نمبر؛ 70 سورة الحج میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ؛ کیا تو نے نہ جانا کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے بے شک یہ سب ایک کتاب میں ہے بے شک یہ اللہ پر آسان ہے؛ اسی طرح پارہ نمبر؛ 14سورة النخل،آیت نمبر89 میں ارشاد خداوندی ہے ؛ اور جس دن ہم ہر گروہ میں ایک گواہ انھیں میں سے اٹھائیں گے کہ ان پر گواہی دے اور اے محبوبﷺ تمھیں ان سب پر شاہد بنا کر لائیں گے اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ اس میں ہر چیز کا روشن بیان ہے اور ہدایت اور رحمت، بشارت مسلمانوں کو؛۔

(جاری ہے)

نبی کریمﷺ کے بعد قرآن کی تعلیمات ہم تک پہنچانے کا فریضہ ا ولیائے اللہ اور علمائے کرام ہیں اسی لیے اولیائے کرام اور علمائے کرام کا ہمارے مذہب میں بڑا اہم کردار اور اہمیت ہے۔ آپ رحمت العالمینﷺ کی امت کے اولیائے اللہ اور علمائے کرام کا درجہ پہلی امتوں کے انبیاء کرام کے برابر بیان کیا جاتا ہے۔ یہ مقام اور مرتبہ جہاں اولیائے اللہ اور علمائے کرام کے بڑے اعزاز کی بات ہے تو وہاں یہ اعزاز بہت بھاری اور اہم ذمہ داری کا متقاضی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب کے احکامات اور آقائے دوجہاںﷺ کی حدیث اور سیرت پاک کے تمام تر پہلو اصل حالت میں امت تک پہنچائیں تاکہ مسلمان اس سے راہنمائی حاصل کرسکیں۔

پارہ 6 1سور ة طہ آیت نمبر؛ 44 قران پاک میں تبلیغ کے بارے ارشاد ہے؛ اس سے نرم بات کہنا اس امید کیساتھ کہ وہ دھیان کرے یا کچھ ڈرے؛قران مبین چونکہ عربی زبان میں ہے جسے عرب ممالک کے علاوہ دوسرے ممالک میں نہیں سمجھا جاتا اس لیے قران کی تعلیمات اور پیغام کو سمجھنے کے لیے عربی زبان کا جاننا لازمی ہوتا ہے اسی لیے علمائے کرام اور اولیائے اللہ اپنے اللہ کے قران کو سمجھنے کے لیے عربی زبان پر عبور حاصل کرتے ہیں۔

جس کے بعد علمائے کرام مساجد اور مدرسوں میں قران کی تعلیم دیتے اور اولیائے اللہ تبلیغ کے ذریعے دین کو عام کرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔لیکن یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ہاں دینی اور مذہبی تعلیم دینے والے اداروں یا مدرسوں کی تعداد آبادی کے مقابلے میں بہت کم ہے جس کیوجہ سے مستند علمائے کرام کی تعداد بھی بہت کم ہے۔

ہمارے گھروں میں چھوٹے بچوں کو دینی تعلیم کے حصول کے لیے مساجد میں بھیجا جاتا ہے تاکہ بچے قران کی تعلیم حاصل کر سکیں لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان مساجد میں درس دینے والے اکثر مولوی حضرات کی مذہبی تعلیم واجبی سی ہوتی ہے کیونکہ ان میں اکثر مولانا حضرات کسی مستند د ینی ادارییا مدرسے کے تعلیم یافتہ یا تربیت یافتہ نہیں ہوتے جس کیوجہ سے یہ لوگ بچوں کو صیح طریقے سے دینی تعلیم نہیں دے سکتے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ قران کی تعلیم کو سمجھنے اور عام کرنے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کیے جائیں۔یہ اللہ پاک کا خاص کرم ہے پاکستان کو وجود اور قیام ہی اسلام کے نام پر ہوا تھا پاکستان کے آئین،سیاست اور حکومت کی اساس ہی اسلام ہے اس لیے یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ قرانی تعلیمات کو عام کرنے اور اسلام کے فروغ کے ٹھوس اقدامات کرے لیکن افسوس کہ اس اہم ترین مسئلے اور ذمہ داری پوری کرنے پر کسی بھی حکومت نے توجہ نہیں دی۔

ہر حکومت نے مذہب کی تمام تر ذمہ داری علمائے کرام اور اولیائے اللہ کے ذمہ سمجھ لی ۔جس کا نتیجہ یہ ہے مذہب کے نام پر کئی مسئلے اور قباحتیں پیدا ہو چکی ہیں۔ہمارا مذہب اسلام امن،محبت،بھائی چارے ، رواداری اور برداشت کا پیامبر مذہب ہے ایک خدا ایک قرآن اور ایک رسول کی بنیاد پر مسلمانوں کو بھی ایک ہونا چاہیے تھا لیکن حکومتوں کی غیرذمہ داری اور عدم دلچسپی کیوجہ سے ایسا نہیں ہوا حالانکہ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ نہ صرف مذہب کی ترویح کے لیے ریاستی ذمہ داریا ں پوری کرتی اس کے لیے مستند دینی اداروں اور علمائے کرام کی سرپرستی کرنے کی ضرورت تھی علاوہ ازیں قرآن،حدیث اور سیرت پاک ﷺ کی تعلیمات عام کرنے کے لیے سرکاری تعلیمی اداروں مذہبی تعلیم لازمی قرار دی جاتی قرآن اور حدیث کی بنیاد پر یکساں تعلیم نصاب ملک کے سکولوں، کالجز اور یونیورسٹیوں میں رائج کیا جاتاتاکہ ملک میں فرقہ واریت کوہوا نہ ملتی لیکن افسوس کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہر حکومت نے اپنی مذہبی ذمہ داریوں کو نظر انداز کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں مذہب کے نام پر مسلمانوں کو کئی مسالک اور فرقوں میں تقسیم کردیا گیا ہے جس کے نتیجے میں مسلمان پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں انتشار کا شکار ہیں۔

دوسری طرف شیطان اور اس کے پیروکار مسلمانوں کو بہکانے میں مصروف ہیں یہ شیطانی قوتیں ازل سے اللہ کے ماننے والوں کو بہکانے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ مسلمان کمزور ہو کر رہیں۔اس وقت ملک میں اسلام دشمن قوتیں فرقہ واریت کو ہوا دے کر ملک کیخلاف سازشوں میں مصروف ہیں ۔اب چونکہ ملک میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہو چکی ہے ۔ملک میں تبدیلی لانا حکومت کا اہم ایجنڈہ ہے۔

پی ٹی آئی کی حکومت کو چاہیے کہ اپنے تبدیلی کے ایجنڈے کے تحت فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات کرے۔ اس کے لیے قرآن،حدیثﷺ کی روشنی میں مستند اور جید علمائے کرام کی مدد سے مذہبی تعلیم کا یکساں نصاب بنایا جائے اور اسی یکساں مذہبی نصاب کو مدرسوں،مساجد سمیت تمام سرکاری سکولز،کالجز اور یونیورسٹیوں میں رائج کیا جائے پرائمری سکول سے لے کر یونیورسٹی تک مذہبی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے اس کے نتیجے میں جہاں ملک سے فرقہ واریت کے خاتمے میں بہت زیادہ مدد ملے گی وہاں اس کے بے شمار فوائد سامنے آئیں گے ملک میں اتحاد اور یگانگت کی فضا پیدا ہوگی اور انشااللہ پاکستان مضبوط ہونے کیساتھ ترقی اور خوشحالی کی منزلیں طے کرے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :