تعلیم کی اہمیت

منگل 9 اپریل 2019

Chaudhry Abdul Qayyum

چودھری عبدالقیوم

کسی بھی قوم اور ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے تعلیم کی بہت زیادہ اہمیت ہے آج کے ترقی یافتہ دور سے چودہ سو سال پہلے نبی رحمتﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ تعلیم حاصل کرو چاہے تمھیں اس کے لیے چین جانا پڑے اس دور میں تعلیم عام نہیں تھی اور نہ ہی لوگوں کو تعلیم کی اہمیت معلوم تھی موجودہ دور کے مقابلے میں تعلیمی ادارے بہت بھی کم تھے تحصیل علم کے لیے سینکڑوں،ہزاروں میل دور جانا پڑتا تھا لیکن ہمارے آقائے دوجہانﷺ نے اس وقت بھی تعلیم کی اہمیت واضح کردی تھی جسے دنیا نے سمجھا اور اس پر عمل کرتے ہوئے زیورتعلیم سے آراستہ ہو کر ترقی اور خوشحالی کی منزلیں حاصل کیں لیکن افسوس کہ ہم نے تعلیم کی اہمیت کو نہیں سمجھا وطن عزیز کی آزادی کو سترسال ہوچکے ہیں لیکن ہمارا ملک تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جسطرح ہمارے حکمرانوں نے ملک اور قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے دیگر شعبوں میں کوئی کارگردگی نہیں دکھائی اسی طرح ملک میں تعلیم کو عام کرنے اور اس کے فروغ کے لیے بھی کچھ نہیں کیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا پیارا پاکستان دنیا کے امقابلے میں ترقی،خوشحالی سمیت زندگی کے ہرشعبہ میں بہت پیچھے ہے ملک میں بہت زیادہ وسائل ہونے کے باوجود جہالت،غربت،بیروزگاری اور مہنگائی کے ڈیرے ہیں ۔

(جاری ہے)

ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے اور ترقی کے لیے سب سے پہلی ترجیح اور سب سے اہم مسئلہ تعلیم کو ہونا چاہیے لیکن افسوس کہ اس اہم ترین شعبے میں بہت زیادہ خامیاں اور خرابیاں ہیں جنھیں دور کرکے تعلیمی اصلاحات لانے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماضی میں برسراقتدار لوگوں نے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سرانجام نہیں دیں حکمران عوام کے مسائل حل کرنے اور ملک و قوم کی ترقی کے لیے کام کرنے کی بجائے اپنے مفادات پورے کرنے میں مصروف رہے یہ لوگ پاکستان میں اپنا مفاداتنا ہی سمجھتے تھے کہ انھوں نے یہاں کے عوام کو چھوٹے نعروں سے ورغلا کر اور سبز باغ دکھا کر ووٹ حاصل کرنے ہیں اور حکومت کرنی ہے یہ حکمران اقتدار کے بل بوتے پر لوٹ مار کرکے ساری دولت بیرونی ممالک میں جمع کرتے رہے اپنے کاروبار اور جائدادیں دوسرے ملکوں میں بنا ئیں یہ اپنا علاج بیرونی ممالک کے بڑے ہسپتالوں میں کراتے اور ان کے بچے بھی دوسرے ممالک میں تعلیم حاصل کرتے انھوں نے ملک اور قوم کو درپیش مسائل حل کرنے کی ذمہ داری ادا کرنے سے چشم پوشی کی اور تعلیم جیسے اہم شعبے کو بھی بری طرح نظرانداز کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک اس وقت بیشمار مسائل سے دوچار ہے۔

یقینی طور پر نئی حکومت کے سامنے بہت زیادہ مسائل ہیں جن کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے لیکن ان سب میں نہایت اہم شعبہ تعلیم کا ہے جس پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے پاکستان میں تعلیم جیسا اہم ترین شعبہ بیشمار مسائل میں گھرا ہوا ہے ضرورت تو اس امر کی تھی ملک میں تعلیم کے شعبے کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ترقی دی جاتی اورہر حکومت تعلیم کے فروغ کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل رکھتی اور شعبہ تعلیم کی ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز خرچ کیے جاتے تاکہ ہمارے بچے بہترین زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر ملک کی ترقی کی دوڑ میں دنیا کا مقابلہ کرتے۔

لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہر حکومت نے اہم ترین شعبہ تعلیم کو بری طرح نظرانداز کیا گیااس کا سب سے بڑا ثبوت یہ کہ تعلیم کی مد میں قومی بجٹ کے اندر بہت ہی معمولی رقم رکھی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی معیار نہ صرف دنیا کے مقابلے میں بہت ہی نیچے ہے بلکہ ایک اندازے کیمطابق اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں تعلیم حاصل کرنا ہر بچے کا حق ہے اور بچوں کو تعلیم دینا ریاست کا فرض اور ذمہ داری ہوتی ہے جس سے غفلت برتی جا رہی ہے اس جانب فوری طور پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

اس وقت ملک میں تعلیم کے کئی نظام اور مختلف نصاب ہیں سرکاری سکولوں اور کالجز کا تعلیمی نظام نجی تعلیمی اداروں سے مختلف ہوتاہے امیروں اور غریبوں کے بچے مختلف نصاب اور نظام کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اس طرح تعلیم کی ابتداسے ہی قوم کے بچوں میں تفریق پیدا ہوجاتی ہے کہ یہ امیروں کے بچے ہیں جنھوں نے اچھے پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے اچھی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بڑے عہدے حاصل کرنے ہیں اور غریبوں کے بچوں نے سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرکے معمولی ملازمتیں حاصل کرنی ہیں سب سے بڑی قباحت جو شعبہ تعلیم میں مختلف نصاب اور دوہرے نظام سے پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ غریب لوگوں کے بچوں میں احساس کمتری پیدا ہونے کیساتھ قوم میں تفریق اور تقسیم پیدا ہوتی ہے جوقوم کے لیے کسی بھی طور فائدہ مند نہیں بلکہ یہ ہر لحاظ سے ملک کے لیے نقصان دہ ہے پرائیویٹ شعبے نے تعلیم کو ایک منافع بخش کاروبار بنا کر رکھ دیا ہے ایک عام تعلیم ادارے کی ماہانہ فیس کم از کم تین ہزار روپے ہے جبکہ یونیفارم، کتابوں کاپیوں اور ٹرانسپورٹ کا خرچہ علیحدہ ہے اپنی آمدن بڑھانے کے لیے پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے مختلف طریقے اپنا رکھے ہیں چھوٹی کلاسز کے بچوں کو اتنی کتابیں اور کاپیاں لگا رکھی ہیں کہ چھوٹے معصوم بچوں سے اپنا بیگ نہیں اٹھایا جاتا اس طرح تعلیم کے نام پر معصوم چھوٹے بچوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے جو ملک کے نونہالوں کیساتھ بہت ظلم ہے۔

وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ جہاں بہت سارے بڑے اہم کام کرنے جارہے ہیں وہاں شعبہ تعلیم کو بھی اپنی پہلی ترجیح میں شامل کرکے اس کی بہتری کے لیے اقدامات کریں خاص طور پر ملک کے اندر تعلیم کا نظام اور نصابیکساں بنادیں تو یہ ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہوگا جسے ملک کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف یاد رکھا جائیگا۔کیونکہ ملک میں تعلیم عام ہونے کیساتھ معیاری اور جدید تقاضوں کیمطابق یکساں قومی تعلیمی نصاب ہو تو اس سے قوم میں تقسیم اور تفریق پیدا ہونے کی بجائے اتحاد پیدا ہو گا اور معیاری تعلیم کی بدولت ملک ترقی اور خوشحالی منزلیں طے کرکے دنیا کا مقابلہ کرسکتا ہے امید ہے کہ حکومت اس اہم ترین قومی مسئلے کی جانب توجہ دے کربھرپور ٹھوس اقدامات کرے گی تاکہ ملک میں صیح معنوں میں تبدیلی آسکے اور ملک و قوم ترقی اور خوشحالی کی منزلیں طے کریں اس کے لیے پرائیویٹ تعلیم اداروں پر پابندی لگاکر سرکاری سکولوں،کالجز اور یونیورسٹیوں کی حالت زار اور تعلیمی معیار کو بہتر بنایاجائے اس کے لیے ملک بھر میں تعلیمی نصاب یکساں بنایا جائے اور قومی بجٹ میں شعبہ تعلیم کی مد میں بجٹ بڑھایا جائے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :