پی ٹی آئی حکومت کے9 ماہ اور احتساب

پیر 15 اپریل 2019

Chaudhry Abdul Qayyum

چودھری عبدالقیوم

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئے 9 مہینے پورے ہوگئے ہیں اس عرصے میں حکومت کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھا سکی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو اپنے نعروں،وعدوں کو پورا کرنے اور اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ملک میں مہنگائی پہلے کی نسبت بہت زیادہ بڑھی ہے ڈالر کی اُڑان اور قومی معشیت قابو میں نہیں آرہی عدالتوں اور نیب میں جاری احتساب کا عمل بے نتیجہ ہوتا نظر آرہا ہے۔

کرپشن فری پاکستان بننے میں روکاوٹیں حائل نظر آتی ہیں اور تاحال عوام کو تبدیلی کے فوائد اور کسی بھی قسم کا کوئی ریلیف نہیں ملا۔کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات میں گرفتار لوگ مختلف طریقوں اور ضمانتوں پر رہا ہو رہے ہیں اس صورتحال سے یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت عوام سے کیے گئے تبدیلی کے اپنے وعدے پورے کر پائے گی کہ نہیں۔

(جاری ہے)

ایک چیز واضح ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے تبدیلی کے ویژن پر عملدآمد کے لیے مخلص ہیں لیکن انھیں بہت زیادہ مشکلات اور روکاوٹوں کا سامنا ہے ایک تو انھیں ملک میں موجودہ جاری سسٹم کا سامنا ہے جو ماضی میں برسراقتدار رہنے والوں کا بنایا ہوا ہے جس کے اندر احتساب کی راہ میں بہت زیادہ مشکلات ہیں پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کیساتھ سینٹ میں بھی آئین سازی یا قوانین میں تبدیلی کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ان کی حکومت اتحادیوں کے تعاون کی محتاج ہے پی ٹی آئی کی حکومت کو 9 مہینے پورے ہوگئے ہیں لیکن عوام نے حکومت سے جس غیرمعمولی کارکردگی کی توقعات قائم کر رکھی تھیں حکومت ابھی تک کو ئی خاص قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی خاص طور پر کرپشن کیخلاف احتساب کرنے میں بھی حکومت سست روی اور مشکلات کا شکار نظر آتی ہے نیب کے ہاتھوں احتساب کے عمل میں پکڑے گئے لوگ نہ صرفجیلوں سے ضمانتوں اور دیگر طریقے سے باہر آرہے ہیں۔

بلکہ یہ طاقتور لوگعدالتوں میں پیشی کے موقع پر ایک ملزم کی طرح پیش ہونے کی بجائے ہیرو کے انداز میں الاؤ لشکر اور جلوس کیساتھ پیش ہوتے ہیں ان کی گاڑیوں پر کئی کئی من پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتی ہیں اس طرح یہ لوگ کرپشن اور لوٹ مار کے الزام میں احتساب کے عمل اور اداروں کا مذاق اُڑاتے ہیں جس سے احتساب کے بارے سوالات اُٹھ رہے ہیں ۔اس میں وزیراعظم عمران خان کی نیت پر تو شک نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ کرپشن کیخلافکئی بار اپنے بھرپور عزم کا اظہار کرچکے ہیں لیکن عملی طور پر احتساب ہوتا بہت مشکل نظر آرہا ہے احتساب کی راہ میں حکومت کے سامنے بہت زیادہ روکاوٹیں اور مشکلات حائل ہیں خاص طور پر موجود ہ قوانین اور سسٹم طاقتور کرپٹ عناصر کے احتساب میں ساتھ دیتا نظر نہیں آتا۔

دوسری طرف پی ٹی آئیکے پاس حکومت چلانے، قومی اسمبلی اور سینٹ میں قانون سازی کے لیے اراکین اسمبلی کی عددی اکثریت نہیں۔ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کے برسراقتدار آتے ہی احتساب کا عمل تیزرفتاری سے شروع ہو گیا تھا دلچسپ بات یہ ہے کہ ا حتساب کا عمل مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے قائم کردہ ادارے نیب نے مذکورہ پارٹیوں کے دور حکومت میں قائم مقدمات سے ہی شروع کیا تھا ابھی تک پی ٹی آئی حکومت نے کوئی نیا مقدمہ یا ریفرنس نہیں بنایا۔

لیکن مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اپنے ہی بنائے ادارے اور مقدمات میں تفتیش اور احتساب کے عمل پر شور ڈال رہی ہیں اور احتساب کو انتقامی کاروائی قرار دیتے ہوئے روکاوٹیں دالی جارہی ہیں لیکن اب اگر اسے مکمل نہ کیا گیا یا ادھورا چھوڑ دیا گیا تو عوام پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف ہوجائیں گے اور اس کا احتساب کریں گے ۔کیونکہ کرپشن اور لوٹ مار کرنے والوں کا احتساب اگر پی ٹی آئی کا نعرہ اور وعدہ ہے تو اس ملک کی ضرورت اور پاکستان کے کروڑوں عوام کے دلی خواہش بھی ہے۔

میرا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اگر اپنے اقتدار کے پانچ سالوں میں کچھ بھی نہ کرے لیکن اپنے ایک نکاتی ایجنڈے کرپشن کے خاتمے پر عمل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ اس کی بہت بڑی کامیابی ہوگی جو اسے آئندہ الیکشن میں بھی کامیابی دلا سکتی ہے․لیکن اگر پی ٹی آئی کی حکومت اپنے وعدے کے مطابق لوٹ مار کرنے والوں کا احتساب کرنے اور ملک کو کرپشن فری پاکستان بنانے میں ناکام رہتی ہے تو اسسے ملک کے عوام کو بڑی مایوسی ہوگی بلکہ یہپی ٹی آئی کی بڑی بدقسمتی ہوگی جو اس کے سیاسی مستقبل کے لیے بھی تباہ کُن ہوگی․لیکن اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ حکومت کے پاس ابھی اپنے وعدے پورے کرنے کے لیے پورے چار سال باقی ہیں۔

وزیراعظم عمران خان ایک کھلاڑی ہیں جو کھیل کی آخری گیند تک کھیلنے کا جذبہ رکھتے ہیں انھیں اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ اپنی سیاسی بقاء کے لیے عوام کیساتھ کیے گئے انھیں اپنے وعدے ہر حال میں پورے کرنا ہونگے ۔لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ موجودہ نظام کے ذریعے قومی دولت لوٹنے والے طاقتور لوگوں کا احتساب کرنا بہت مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے لوٹ مار کرنے والوں کا احتساب اور کرپشن فری پاکستان بنانے اپنے نعرے اور قوم کیساتھ کیے ہوئے اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان کو دیگر آپشنز کی طرف دیکھنا پڑے گا ۔

اس وقت عدلیہ اور احتساب اداروں کو گذشتہ تیس سالوں کے دوران برسراقتدار رہنے والے لوگوں کے میگا کرپشن کیسزاور دیگر مقدمات کے فیصلے کرنے کا چیلنج درپیش ہے سابق وزیراعظم میاں نوزشریف،میاں شہبازشریف،خواجہ سعد رفیق کے کرپشن کیسز،سابق صدر آصف زرداری کے منی لانڈرنگ کے کیسز کے علاوہ عزیربلوچ،عابدباکسر،ڈاکٹر عاصم،ماڈل ایان علی،اسحاق ڈار،راجہ پرویزاشرف،ماڈل ٹاؤن قتل،حسین حقانی،پرویز رشید غداری کیس،جیو ٹی وی غداری کیس،12 مئی قتل عام،بینظیر بھٹو کیس،جیسے بہت زیادہ کیسز ہیں جو فیصلوں کے منتظر ہیں ۔

حکومت،عدلیہ اور احتساب کے متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرنے اور انصاف کا بول بالا کرنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں خاص طور پر پی ٹی آئی کی حکومت کو پاکستان کی بقاء،سلامتی،ترقی اور خوشحالی کیساتھ ساتھ اپنی سیاسی بقاء کے لیے کرپشن کے خاتمے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانا پڑے گی ۔ اللہ نہ کرے اگر حکومت احتساب اور کرپشن کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہی تو یہ ملک کو کرپشن فری پاکستان بنانے کا سنہری موقع گنوانے کے مترادف ہوگا جو پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل کے لیے بھی بہت زیادہ نقصان دہ ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :