بتی گل

پیر 29 جنوری 2018

Danish Hussain

دانش حسین

اتارچڑھاؤ تو زندگی کا حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن کبھی گردشِ ایام انفرادی ہوتے ہیں تو کبھی اجتماعی، بد قسمتی سے ہمارے اجتماعی گردشِ ایام کو طوالت حاصل ہے البتہ انفرادی حالات اکثر بہتر بھی ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ ہم پر بھی منحصر ہے کہ ہم حالات کے استحکام کے لیئے کیا طریقہ برؤےکار لاتے ہیں، عموماً اجتماعی مسائل کا حل بھی اجتماعی قوت کا متقاضی ہوتا ہے اور انفرادی مسئلے کا حل اس فرد کو خود ہی تلاش کرنا ہوتا ہے۔

لیکن ہمارے یہاں کبھی کبھی الٹ بھی ہوجاتا ہے۔ اس کی ایک سادہ سی مثال آج کا مختصر کا واقعہ ہے رات گئے گھر کو واپس آیا۔دھند بھی کافی تھی اور سردی بھی لہذا گھر داخل ہوتے ہی الیکٹرک ہیٹر چلانے کی کوشش کی۔ لیکن نہ چلا۔ دیکھا تو بلب کی روشنی ایسے جھلملا رہی تھی جیسے خوفناک فلموں میں بھوت کے آنے لائیٹس ٹمٹماتی ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن حقیقیت پسندی نے مجھے ایسا نہ سوچنے دیا۔

اور میری دانست میں یہی آیا کہ کہ وولٹیج کا مسئلہ ہے۔ باہر نکل کر دیگر گھروں کی صورتحال جاچنے کی کوشش کی تو ایک فرلانگ پر موجود ٹرانسفارمر پر نظر پڑ گئی۔ جس سے سپارکنگ کی آواز آرہی تھی اور چنگاریاں بھی گریں۔ فوراً سوسائٹی کے دفتر کال کی۔ لیکن رات کے اس پہر کسی نے کال نہ اٹھائی۔ سوچا سوسائٹی کے گارڈز کو بولتا ہوں۔ گاڑی نکالی اور ڈھونڈنا شروع کر دیا۔

عموماً رات کو اتنے رہائشی نہیں دکھائی دیتے جتنے گارڈز پہرہ دے رہے ہوتے ہیں۔ لیکن آج شاید دھند کی وجہ سے قریب کوئی گارڈ نظر نہیں آیا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد کسی دوسری گلی میں دھند سے ایک گارڈ بھائی نمودار ہوئے۔ اور میں نے بولا کہ بھیاء ٹرانسفارمر کی ''ڈی'' سپارک کر رہی ہے اور سب سو رہے ہیں۔ نیچے کسی کی گاڑی کھڑی ہے۔ جس پرچنگاریاں بھی گر رہیں ہیں۔

یہ بتائیں اس وقت اس مسلئے کو کوئی حل کر سکتا ہے؟ جواب تو مجھے بھی پتہ تھا لیکن شاید مجھےحجت تمام کرنی تھی۔ حسب توقع جواب آیا کہ صاحب یہ تو واپڈا کا کام ہے وہی کرے گا۔ اور صبح ہی ہوگا۔ شکریہ ادا کیا اور گھر کو لوٹا تو خدا کا شکر ادا کیا کہ چنگاریاں ختم ہوچکیں تھی۔ اور سپارکنگ بھی۔ البتہ وولٹیج کم ہونے کی وجہ سے لائٹ بہت مدھم ہوگئی۔

لیکن میری تسلی کے لئے شاید کافی تھا۔ اور یہ سوچ کر سو گیا کہ صبح گلی والے اٹھیں گےتو کوئی نہ کوئی اس مسئلےکو حل کروا چکا ہوگا۔ تاخیرسے سونے کے باعث صبح دیر سے اٹھا اور میرے لیئے اچنبھے کی بات تھی کہ مسلہ جوں کا توں تھا۔ باہر نکل کر دیکھا۔ تو سامنےوالے اپنے برابر والےسے پوچھ رہے تھےکہ آپ کی لائٹ ٹھیک آرہی ہے یا مدھم ہے، جب آگے سے جواب آیا کہ ہماری بھی ڈِم ہے۔

تو انکو بھی تسلی ہوئی۔ کہ یہ مسلہ محض ہمارا نہیں بلکہ پوری گلی کا ہے۔ایک اور گھر والوں نے الیکڑیشن کو بلوا رکھا تھا تو میں ان سے کہنے لگا کہ بھائی صرف آپ کی بجلی خراب نہیں سب کی ایسی ہی ہے تو اس نےالیکڑیشن واپس بھیج دیا ممکنہ طور پر اس نے دل میں شکر بھی ادا کیا ہوگا کہ محض ہماری نہیں سب کی بتی گل ہے۔ یہ سب طرز عمل دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمیں پریشانی بتی گل ہونے کی نہیں۔

بلکہ ہمیں پریشانی اس بات کی ہوتی ہے کہ کہیں صرف ہماری بتی ہی تو گلُ نہیں۔ اور اب یہ المیہ بن چکا ہے ہمارے معاشرے کا۔ جس میں یہ خاکسار بھی شامل ہے،اور اب تک جتنے بھی واقعات ہوتے ہیں۔ ہمیں عادت ہوتی جارہی ہے۔ شاید عادی ہو بھی چکے ہیں۔ اگر صرف ہمارے ساتھ نا انصافی ہو تو ہم آواز اٹھاتے ہیں۔ لیکن جب پورے معاشرےیا قوم کے ساتھ نہ انصافی ہو تو ہم آواز نہیں بنتے۔

اور اس بات کا انتظار کرتےہیں کہ کوئی اور آواز اٹھائے گا اور ہم بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیں گے۔ اور اگر کوئی آواز اٹھاتا بھی ہے۔ تو وہ اکیلا یا چند لوگ آخر کر ہی کیا سکتے ہیں۔اس سے مجھے ایک چھوٹی سی کہانی یاد آگئی کہ ایک بادشاہ نے ایک کنواں بنوایاجسےوہ دودھ کا کنواں بنانا چاہتا تھا لہذااس نے اپنی تمام رعایا کو حکم دیا کہ رات کو ہر کسی نے اپنے حصے کی ایک دودھ کی بالٹی اس کنویں میں ڈالنی ہے، رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رعایا نےیہ سوچا کہ ہم پانی کی بالٹی ڈالتے ہیں۔

اتنےبڑے دودھ کے کنویں میں کونسا پتہ چلنا ہے پانی کی ایک بالٹی کا، صبح ہوئی بادشاہ سمیت تمام کابینہ کنویں کا معائنہ کرنے گئی تو کیا دیکھا کہ کنویں میں صرف پانی تھا۔ اور دودھ کا ایک قطرہ بھی نہ تھا کیونکہ وہاں یہ اجتماعی سوچ تھی کہ میری ایک پانی کی بالٹی سےکیا ہونا ہے اور آج ہم بھی اسی رعایا کی طرح سوچ رہے ہیں کہ ہمارے کرنے سے کیا ہوگا۔

کوئی مصیبت آن پڑے تو اس کا حل ڈھونڈنے کے بجائے انتظار کرتے ہیں۔ کبھی کبھار ہم اس بات کا شاید انتظار کرتے ہیں کہ ابابیل آئیں گی اور ظالم پر کنکریاں برسائیں گی۔ لیکن حقیقت میں ہم یہ سوچ رہے ہوتےہیں کہ صرف مجھے تکلیف تھوڑی نہ ہے۔ کوئی اور اٹھے گا۔ اور ہم بھی ساتھ چل پڑیں گے۔ لیکن ہم یہ سوچنا بھول گئے کہ کسی کو تو بارش کا پہلا قطرہ بننا ہے۔ کسی کو تو سب سے پہلے اٹھنا ہے۔ لیکن یہ تو تب ہی ہوگا جب سب کی سوچ مشترکہ اور مثبت ہوگی۔ ورنہ ہم سب کی بتی یونہی گُل رہے گی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :