میری جنگ

ہفتہ 22 فروری 2020

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

میڈیکل کالج کے ہاسٹل کی اکثر راتوں میں میں نے کئی اداس چہرے دیکھے، میڈیکل کی پڑھائی کے سٹریس کے ساتھ طرح طرح کے مسائل کا شکار انسانی چہرے، کبھی کبھی بند کمروں سے زاروقطار رونے کی آوازیں اور کبھی ساتھ کسی گرم شاور میں سسکیاں بھرتا کوئی نیم مردہ انسان۔ شروع شروع میں ،مجھے لگتا تھا کہ یہ صرف گھر سے دوری اور میڈیکل کی سخت پڑھائی کا سٹریس ہے، مگر بعد میں یہ غلط ثابت ہوتا گیا، میں نے اسی ہاسٹل میں ایک دو ایسے چہروں کو خودکشی کرتے دیکھا، کچھ ہاسٹل چھوڑ کر چلے گئے۔


یہ سب آسان نہیں تھا، کچھ کے عشق ایسے ناکام ہوئے کہ وہ اپنا سب ہار گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب مجھے زندگی میں پہلی بار ڈیپریشن کا علم ہوا اور یہ علم کچھ اس قدر زیادہ تھا کہ میں نے خود کو اس کیفیت میں اکثر پایا۔

(جاری ہے)

یہ بالکل ایسے ہی مزاج کا حصہ تھا،جیسے رونا، ہنسنا ، غصہ آنا، مگر کبھی کبھار یہ اداسی اس قدر زیادہ ہوجاتی کہ یہ سب ناقابل ِ برداشت ہوجاتا۔

میں نے اس موضوع پر مزید تحقیق کرنے کے لیے مشہور مصنف Johann Hari کی کتاب Lost Connections کا مطالعہ کیا۔ یہ کتاب ڈیپریشن کے موضوع پر لکھی ایک بہترین کتاب ہے۔ اس نے ڈیپریشن یعنی اداسی کو کسی بیماری سے ہٹ کر ایک کیفیت کا نام دیا ،جو اکثر حالات و واقعات کے گرد گھومتی ہے۔ جوہان کے مطابق بہت کم لوگ دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جن کو ڈیپریشن بیماری کے طور پر ہوتی ہے۔

اکثریت میں یہ صرف ایک کیفیت ہے، بالکل ویسے جیسے دسمبر کی شاموں میں کسی کا اداس ہوجانا، کبھی عشق یا محبت نہیں بھی ہوئی، تب بھی کسی کا یاد آنا،وہ جو کبھی ملا نہیں ،کبھی دیکھا نہیں،اس کے تصور کا اداس کرنا،یا کبھی ارد گرد سماجی،معاشی،معاشرتی دباؤ ایسا ہونا کہ یہ کیفیت آپ پر حاوی ہوجائے،اوسان خطا کرنے لگے اور آپ کو پاگل کردے۔
یہ خاص کر ان لوگوں میں زیادہ ہوتی ہے جو بہت زیادہ سوچتے ہیں ،یا بنیادی طور پر آرٹسٹ ہوتے ہیں،جیسے ادکار،لکھاری ،تجزیہ نگار یا پھر بہت زیادہ پڑھنے والے،یعنی ڈاکٹر،انجینئرز۔

اب میں ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ لکھاری بھی تھا،تجزیہ نگار بھی تھا،تو مجھے جوہان کو پڑھ کر لگا کہ جیسے یہ میری ہی طرف اشارہ ہے۔ اس کتاب میں بالخصوص ان کیفیات کا ان ملکوں میں زیادہ ہونا پایا گیا جن کو ہم تھرڈ ورلڈ کنٹری کہتے ہیں۔ جیسے کہ خود ہمارا ملک، یہاں اردگرد اپنے ذاتی مسائل کے علاوہ ، معاشرتی اور ملکی مسائل ایسے ہوتے ہیں کہ انسان انجانے میں ڈیپریشن کا شکار ہوجاتا ہے،جیسے ہر طرف جنگ کا ماحول ہونا، دھماکے،بارود، بارڈروں پر کشیدگی، کرپشن، مہنگائی،بے روزگاری یہ سب بھی آپ کو مایوس کردیتے ہیں اور آپ کے قریب خوشی نہیں آنے دیتے۔

پھر ایسے ممالک میں تفریح اور سیاست کا نہ ہونا بھی مایوسی کو عا م کردیتا ہے اور آپ ہروقت اپنے ساتھ ایک جنگ کی سی کیفیت میں رہتے ہیں ، اور یہ جنگ آپ کو آہستہ آہستہ کھانے لگتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بیوی ،بچوں سمیت کسی اپنے کا اس دنیا سے جلدی چلے جانا بھی آپ کو شدید ترین ڈیپریشن کا شکار کرسکتا ہے۔
جوہان کی کتاب میں ڈیپریشن سے نکلنے کا مذہبی پہلو بہت حیران کن تھا،جو ایک گورے مصنف سے امید نہیں کی جاسکتی،وہ سب اس میں تحریر کیا گیا تھا۔

Lost Connections سے مراد ، وہ ٹوٹے تار تھے،جو انسان کبھی جوڑ نہیں پاتا اور جوڑنا بھی چاہے تو وہ مل سکتے ،ان کا اگر ایک سرا کسی طرف ہو تو دوسرا کسی اور طرف ہونے لگتا ہے اور ان کو جوڑنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری انسان کا خو د اپنے اندر کھو جاناہے اور یہ خدا کی طرف جانے کا راستہ ہے اور مایوسی کی کیفیات سے نکلنے کا سب سے بہترین علاج ہے۔
 میں نے کئی لوگوں کو شدید ترین مایوسی میں انتہائی اقدام اٹھاتے دیکھا ہے ،اس لیے جوہان کی لکھی بہت سی باتوں کے باوجود کچھ جواب ایسے تھے،جو مجھے اس کتاب میں نہیں ملے ،اس لیے میں نے اس پر مزید تحقیق کی۔

یہ سب اس لیے کہ میں نے اپنی ذات میں ڈپریشن کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔کئی سال اس سے لڑنے کی جہد کی ہے۔ کبھی کبھار یہ اتنی شدید ہوجاتی کہ خود کو ختم کرنے کا دل کرتا۔ وہ جواب جو جوہان کی کتاب میں نہیں تھے ،ان کے جواب میں نے خود ڈھونڈے ، آج سے کئی سال پہلے میں نے ان کیفیات سے لڑنے کا فن جانا، میں مثبت ہوگیا، جب زندگی کا منفی پہلو سامنے آتا میں اسے چھوڑ کر مثبت دیکھتا۔


 میں نے دانستہ اپنے موبائیل فون اور اپنی فیس بک سے تمام نیگیٹیو یا sadist لوگوں کو ڈیلیٹ کردیا, میں نے تنہائی میں جینا شروع کیا،خود سے گھنٹوں باتیں کرنے لگا،وہ جو چھوٹے رسالوں کی زینت تھا اسے گونج کا رنگ دے دیا، ہر ادبی شخص کو اپنا استاد بنا لیا اور زندگی کا دائرہ خاص لوگوں تک محدود کرلیا۔ باقائدہ ورزش کرنے لگا،ماضی کی محبت کو نئے رشتوں میں ڈھونڈنے لگا، میں نے اداسی سے جنگ کی، اور جیت گیا۔

میں آج بھی گرتا ہوں تو وہ مجھ پر حملہ کرتی ہے میں اس گری ہوئی حالت میں بھی اپنے گرد لوگ دیکھتا ہوں ، یہ لوگ بھی مجھے جاوید چوہدری صاحب کی ایک تحریر نے دکھائے۔ وہ لوگ نسلوں کی محنت کے بعد بھی اس جگہ تک نہیں پہنچ پاتے جہاں ہم اونچائی سے گرنے کے بعد ناکام ہونے کے بعد ٹک جاتے ہیں۔
 ہمارے ملک میں اس وقت بھی کروڑوں لوگ صرف پانچ سو روپے کے لیے سارا دن فٹ پاتھ پر گزار دیتے ہیں۔

ہمیں جس دن پانی کی بوتل نہیں ملتی اور ہم نلکے کا پانی پینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، نلکے کا وہ پانی کروڑوں لوگوں کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ہوتا ہے۔ ہم آدھا برگر اپنی پلیٹ میں چھوڑ کر گھر آجاتے ہیں، لاکھوں لوگ برگر کے اس ٹکڑے کے لیے پوری زندگی آسمان کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ ہم ریستوران میں ٹرائی کرنے کے لیے چار ڈشیں منگوا لیتے ہیں، پسند نہیں آتیں تو چھوڑ دیتے ہیں۔

دنیا میں اس وقت بھی ایسے کروڑوں لوگ موجود ہیں جو ایسے کھانوں کی صرف خوشبو سونگھنے کے لیے کچرا گھروں کا کچرا ادھیڑتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ آٹے کے ایک تھیلے، گھی کے ایک ڈبے اور سر کے ایک دوپٹے کے لیے سارا سارا دن لوگوں کی دہلیزوں پر بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے کپڑے خود خرید سکیں، یہ جیب سے پیسے نکالیں اور دکان سے جو چاہیں خرید لیں، یہ مسرت ان کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ہوتی ہے، یہ اس سطح تک پہنچنے کے لیے گڑگڑا کر دعائیں کرتے رہتے ہیں۔

یہ سب میرے لیے بہت تھا، میں نے دیکھا کہ ہم زندگی کو فارگرانٹڈ لے لیتے ہیں اور زندگی ہمیں فارگرانٹڈ لے لیتی ہے۔
میں اداسی کے ان لمحوں میں زندگی دیکھتا ہوں، رب کا شکر ادا کرتا ہوں،اٹھ کر اپنے آپ سنبھالتاہوں اور پھر سے ایک جنگ پر نکل جاتا ہوں۔ میری اور اداسی کی جنگ کئی سالوں سے جاری ہے پر مجھے اس سے لڑنا آگیاہے۔ ڈیپریشن مایوسی ایک حقیقت ہے۔

آپ بھی میری طرح دریا کے پانی میں عکس بنا کر زندگی کو دوسرے زاویے سے دیکھنے کی سعی کیجیے۔آپ کبھی ناکام بھی ہو ئے تب بھی کبھی کبھی جیتا کریں گے اور یہ جیت آپ کو سنبھا لے رکھے گی۔اس جنگ میں سب سے بڑا ساتھ آپ کے والدین دیتے ہیں ،وہ جنہیں آپ کامیابی کے پروں پر اڑتے ،اکثر نظر انداز کردیتے ہیں،وہ آپ کو ایسے لمحوں میں تھامتے ہیں۔ اداسی کی کیفیات سے لڑنے کے لیے آپ کو پہلی جنگ خود سے اور دوسری جنگ اپنے آپ سے کرنی ہوتی ہے،وہ اپنا آپ جس میں آپ کو اپنے اندر ڈوب کر رب سے لو لگانی ہوتی ہے اور دنیا کو چھوڑ کر اپنوں کو سینے سے لگانا ہوتا ہے۔آپ کو اپنے اندر ڈوب کر جینے کی سعی کرنی ہوتی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :