اس ملک کا ینگ ڈاکٹر

جمعرات 26 اگست 2021

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

ولیم اوسلر اکثر کہا کرتا تھا ، نیند بڑی ظالم چیز ہے،اس کی گولی بنائی مریضوں کے لیے جاتی ہے اور کھاتا ڈاکٹر ہے۔ کیا کبھی آپ نے کسی ایسے بڑھئی سے لکڑی کا کام کروایا ہے،جس نے بہت سارا کام کرنے کے بعد اجرت ہی نہ طلب کی ہو۔یا آپ نے کسی ایسے حجام سے حجامت بنوائی ہو ،جس کو اس کام کی کوئی اجرت ہی نہ ملی ہو،یہ نہیں آپ نے کسی چھوٹی سی ریڑھی پر کسی چھوٹے نام کے ٹیبل بوائے کو مفت یہ سب کام کرتے دیکھا ہو۔

شائد نہیں۔ میں نے ایسی قوم دیکھی ہے،جو ایک پیشے کے پیچھے جنون کی حد تک آگے جا چکی ہے۔اس جنون میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری سے پرائیوٹ تعلیمی ادارے بن چکے ہیں،وہ بھی بھر گئے ہیں ،تو ہمارے پڑوسی ملکوں نے ہمارے جنون کی کھپت پوری کرنے کے لیے ،اپنی یونیورسٹیوں کے دروازے کھول دیے ہیں۔

(جاری ہے)

اس جنون کو پورا کرنے میں ایسے ایک فرد پر قوم کے ٹیکسوں کا تقریبا پانچ لاکھ سالانہ اور پرائیوٹ طور پر تقریبا سات سے آٹھ لاکھ سالانہ خرچہ آتا ہے۔

اب اتنی لاکھوں کی سرمایہ کاری سے جو فرد بنایا جاتا ہے ،اس کی اوقات کیا ہوتی ہے؟ کہنے کو کریم آف نیشن، یعنی قوم کا ذہین ترین فرد،مگر حقیقت میں اس کی اوقات کسی چھوٹی سی ریڑھی پر کسی چھوٹے نام کے ٹیبل بوائے سے بھی کم ہوتی ہے۔ ایسے فرد کو ہماری قوم ڈاکٹر کہتی ہے، اور پیشہ کو طب کہا جاتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایم بی بی ایس کیسے ہوتا ہے ؟ اور اس سمپل ایم بی بی ایس کے بعد قومی،معاشرتی،سماجی طور پر سمپل ایم بی بی ایس کی کیا اوقات ہوتی ہے، اس کی سمپل تشریح کیے لیتے ہیں۔

ساری زندگی کتابوں میں کٹتی ہے،جب سب سو رہے ہوتے ہیں،کہیں کسی کونے میں لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں سے لڑتا کوئی طالب علم مستقبل روشن کرنے کے لیے پڑھ رہا ہوتا ہے۔قوم کا کریز ہے ،تو اس پیشے کے لیے ہونے والے اینٹری ٹیسٹ میں ایک ہجوم شرکت کرتا ہے،اس ہجوم میں شریک ہونے والے ہر دوسرے فرد کی کہانی،کسی چھوٹے گاؤں،قصبے سے گلے میں بستہ لٹکائے ، دھول اور مٹی سے لڑتے خوابوں کے سمندر میں شروع ہوتی ہے ،اور کئی افراد کی یہ کہانی اس اینٹری ٹیسٹ کے بعد ،اسی سمندر میں غرق ہوجاتی ہے، جو اینٹری ٹیسٹ کی ناؤ پار لگا لیتے ہیں ، ان کے ساتھ جو ہوتا ہے ،وہ تو آنکھوں دیکھاقصہ ہے،جو نہیں لگا پاتے ، وہ یا تو اپنے ماں باپ کے پیسے سے تیس چالیس لاکھ کی سرمایہ کاری کے بعد ،انہی کی طرح ویلے نکمے بن جاتے ہیں،جو انٹری ٹیسٹ کے ذریعے یہ سفر عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے طے کر لیتے ہیں۔

یا پھر یہ لوگ کسی دوسرے شعبوں میں نکل جاتے ہیں،دوسرے الفاظ میں آپ انہیں ان کی خوش قسمتی بھی کہہ سکتے ہیں۔میں نے گورنمنٹ میڈیکل کالج میں تعلیم کے دوران لوگوں کو خود کو ختم کرتے ، ذہنی طور کر کئی بیماریوں کا شکار ہوتے دیکھا ہے ،تو اس قدر ذہنی تناؤ والی تعلیم کے بعد سمپل ایم بی بی ایس کا لفظ معیوب ہی لگتا ہے۔ سپمل ایم بی بی ایس ہو گیا،اب سلسلہ آیا ہاؤس جاب کا یعنی ینگ ڈاکٹری کے میدان میں عملی طور پر کودنے کا۔

یہاں آپ کو اندازہ ہوگا کے آپ کا وہ بیٹا یا وہ بیٹی جس پر آپ پوری زندگی فخر کرتے آئے ہیں،جو قوم کا یا آپ کا براہِ راست تیس لاکھ لگوا کر اتنی محنت کرکے اس مقام پر پہنچا ہے،وہ حکومتی یا پرائیوٹ مافیا کے چکروں کے سامنے ،کسی چھوٹی سے ریڑھی پر کسی چھوٹے نام کے ٹیبل بوائے سے بھی کئی گنا زیادہ بے اوقات ہے،وہ اس قابل بھی نہیں ہے کہ وہ 36 گھنٹے جاگ جاگ کر کام کرے ،اور اسے اس کام کے پانچ روپے بھی مل جائیں، چلیں پانچ نہ سہی ایک دو روپے ہی سہی کوئی مریض ہی ٹپ شپ دے دے۔

حیران کن طور پر ایسا بھی نہیں ہوتا۔آپ یہ سوچ کر اپنی اولاد پر اور پیسا لگانے کو تیار ہوجاتے ہوں گے کہ چلو مریضوں کی دعائیں تو ملتی ہیں نا۔ہمیں یہاں بھی شدید اصلاح کی ضرورت ہے۔ اگر یہ مفت کام کسی پرائیوٹ ہسپتال میں مذید تعلیم کی بلیک میلنگ کے نام پر کیا جارہا ہے تو آپ کو دو طرفہ گالیاں پڑتی ہیں ، ایک ان پروفیسر صاحب سے جنہوں نے آسان وقتوں میں یہ مقام حاصل کرلیا ہوتا ہے ،اور چار پانچ فکس نسخوں پر آپ کی عزت افزائی کی جاتی ہے اور دوسرا ان پیسے والے مریضوں سے جو پیسہ تو پرائیوٹ ہسپتال کو دیتے ہیں،مگر آپ کے ساتھ ان کا رویہ اپنے گھر کے ذاتی ملازم سے کچھ زیادہ مناسب نہیں ہوتا ۔

یاد رہے ، ذاتی ملازم کو گالیاں کھانے کے پھر پیسے ملتے ہیں، کریم آف نیشن کو وہ بھی نہیں ملتے،اور ہاں کوئی بخشش یا ٹپ شپ بھی نہیں۔ اب اگر آپ یہ تعلیمی بلیک میلنگ کا تسلسل کسی گورنمنٹ کے ہسپتال میں پورا کررہے ہیں تو مریض آپ کو خدائی خدمت گار سمجھیں گے،اور آپ سے سرکار کے صحت کے بارے میں کیے کرشماتی وعدوں کے طلب گار دکھائی دیں گے،اور پورا نہ ہونے پر میڈیا یا لوگوں کو اکٹھا کرنے کی دھمکیاں بھی آپ کو سننی پڑیں گی، تو دعاؤں کا تو پتہ نہیں ، البتہ مفت میں بہت کچھ سنا ضرور دیا جائے گا، ہو سکتا ہے شدید غصے میں تھوڑی بہت مار بھی کھانی پڑ جائے،اور اس کے بھی آپ کو کوئی پیسے نہیں ملیں گے۔


ہاؤس جاب تمام ہوگئی ۔اسی دوران آپ کئی بار امریکہ ،انگلینڈ،یا آسٹریلیا کے امتحان دے کر ملک سے باہر بھاگنے کا سوچیں گے۔ سچ تو یہ ہے جن کے والدین اپنی جیب سے لاکھوں لگا کر ایم بی بی ایس کی تعلیم کا خرچ اٹھا لیں گے ،وہ باہر کے ملکوں کے مہنگے امتحانات کی کئی کئی ہزار ڈالرز اور پاؤنڈز کی فیسیں بھی با آسانی بھر کر کسی نہ کسی طرح اپنی اولاد کو باہر نکال دیں گے،جہاں سچ پوچھیں تو انہیں مزید تعلیم کے دوران اتنی رقم ضرور مل جائے گی کہ وہ اپنے پیشے پر فخر کر سکیں۔

پاکستان میں رہ جانے والوں کا کیا ہوگا؟ وہی جو منظورِ خدا ہوگا۔سچ پوچھیں تو سڑکیں، احتجاج، بھوک ،افلاس اور شادی کی گزرتی عمروں میں ماسوائے ڈپریشن کے اور کچھ نہیں ہوگا۔کبھی کبھی تو ایسے معاشروں کی حالت پر رونا آتا ہے جہاں ڈاکٹر، وکیل،سائنس دان ، انجینئر سڑکوں پر ، اور لوہار،سنار،جاگیردار ایوانوں میں نظر آتے ہیں۔خیر آپ پوسٹ گریجویشن کے چکروں میں پڑ جائیں گے۔

ایک بہت بڑی ڈاکٹری کی کھیپ یہاں فلٹر ہوجائے گی۔وہ پوری عمر چھوٹے موٹے ڈپلوموں کے سہارے کسی گاؤں میں کسی ڈسپنسر کے ساتھ ٹیکوں ،ڈرپوں کا مقابلہ کرتے گزار دیں گے اور جو کھیپ آگے نکل آئے گی ، وہ آکر آجکل ٹی وی ، اخبارات میں نظر آنے والے احتجاج اور دھرنوں میں کہیں بیٹھی سیلفی(Selfie) بناتی نظر آئے گی۔ قارئین یہ سن کر حیران ہوں گے کہ پوسٹ گریجویشن کے امتحانات میں ٹریننگ کے دوران 50-60 فیصد ڈاکٹروں کو ٹریننگ کے پہلے دو سے تین سالوں میں ایک روپیہ بھی تنخواہ نہیں ملتی۔

یعنی اتنی زیادہ محنت، ماں باپ کا فخر اور ان کے لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری کے باوجود،بھوک ،افلاس، سڑکیں، تنہائی،مستقبل کی بے یقینی آپ کا مقدر ہوتی ہے۔اب کچھ سوالات قارئین سے آج کا ینگ ڈاکٹر کرتا ہے؟ وہ کسی تحریک کا حصہ ہو،یا اکیلا اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہا ہو، کیا وہ جب بھوکا مرے گا تو سڑکوں پر نہیں نکلے گا؟ کیا اسے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ پوری زندگی کی خوشیاں ، بیماریوں کی چھاؤں میں قربان کرکے ، صرف دو وقت کی روٹی کے پیسوں کا طالب ہو؟ کیا اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بھی عام انسانوں کی طرح پچیس تیس سال کی عمر میں اپنا گھر بسانے کے قابل ہو سکے یا کم از کم اپنے ان ماں باپ کی خدمت کے ہی قابل ہوسکے کے جن کی وجہ سے آج وہ اس مقام پر پہنچا ہے؟ اور کچھ نہیں تو کیا اسے یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ واقعی ہی اس ملک سے بھاگ جائے،یہ حق اسے یقینا حاصل ہے ،اور وہ اس حق کا استعمال کرکے ایسا کر بھی رہا ہے۔

برین ڈرین کی اصطلاح کا جائز استعمال کرتے سالانہ کئی غربت،افلاس میں پستے ینگ ڈاکٹر ملک سے بھاگ رہیں اور اپنے ساتھ جہاں وہ قوم کے ٹیکسوں کا لاکھوں کا پیسہ لے کر باہر کا رخ کررہے ہیں ،وہیں وہ ان ماں باپ کی بوڑھی آنکھوں کا نور بننے سے بھی قاصر ہیں ،جنہوں نے اپنی بینائی کھو کر انہیں اس مقام تک پہنچایا ہے۔ یہ اس ملک کی سب سے بڑی بد قسمتی ہے ۔

اس خدائی پیشے کی یہ بے توقیری دیکھ کر تو کبھی کبھی یہی لگتا ہے کہ کاش مجھ سمیت حب الوطنی کا خواب سجائے ہر شخص کے لیے یہی بہتر تھا کہ وہ بھی کسی چھوٹی سی ریڑھی پر کسی چھوٹے نام کے ٹیبل بوائے کی طرح ،اپنا سلسلہ روزگار شروع کرتا،جہاں اسے گالیاں کھانے کی اجرت بھی مل جاتی، رات بھر سکون کی نیند بھی، تھوڑی ٹپ شپ بھی،نہ اس پر ماں باپ کے لاکھوں روپے کا کوئی احسان ہوتا اور نہ ہی قوم کے ٹیکسوں کے پیسوں کا کوئی قرض۔

ولیم اوسلر صحیح کہا کرتا تھا ، نیند بڑی ظالم چیز ہے،اس کی گولی بنائی مریضوں کے لیے جاتی ہے اور کھاتا ڈاکٹر ہے۔ کاش کہ وہ دن آئے جب کسی چھوٹی سی ریڑھی پر کوئی چھوٹا،اس ملک کے ینگ ڈاکٹر کو یہ بتا پائے کہ جب دن بھر کام کرنے کی اجرت ملتی ہے ،تو اس اجرت کی راحت سے آنے والی نیند ،سو گولیاں کھا کر بھی آنے والی نیند سے زیادہ پرسکون ہوتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :