
بیٹی
اتوار 4 اکتوبر 2020

ڈاکٹر عفان قیصر
(جاری ہے)
زندگی آگے چلنے لگی۔ اس دوران ملک میں سنٹرل انڈکشن پالیسی کا ابال تھا، اور یہ پالیسی اس قدر سخت تھی کہ مجھے میری مرضی کی فیلڈ میں سپیشلائیزیشن حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا تھا۔
اچانک سے زندگی کی چیزیں بدلنے لگیں اور مجھے میری مرضی کی فیلڈ میں ایک انتہائی اچھے سنٹر میں اسلام آباد ٹریننگ مل گئی۔ میں ملتان تھا، اہلیہ کے ہاں رحمت کا نزول ہونے والا تھا اور میں اسلام آباد چلا گیا۔ بس پھر وقت بدلنے لگا۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے، جب میں اسلام آباد سے ملتان گاڑی چلا رہا تھا کہ مجھے وٹس ایپ میسج پر آ ئرہ کی پہلی تصویر موصول ہوئی۔ میں بے اختیار رونے لگا اور مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ ہم جن چیزوں کو فار گرانٹڈ لیتے ہیں، رب کے ہاں ان کی اصل ہماری اصل سے بھی زیادہ ہے۔ آئرہ کے آنے کے بعد اہلیہ بھی اسلام آباد آگئیں۔ میں اہلیہ کی نوکری کے لیے پریشان تھا، کیونکہ اس نے ڈاکٹری کا پبلک سروس کمیشن ٹاپ کیا تھا او ر پوسٹنگ کے لیے اس نے ملتان کا انتخاب کیا تھا، اب اگر اس کی پوسٹنگ آجاتی تو اس کو اسلام آباد کروانا ایک الگ عذاب تھا۔ یہ سب میری سمجھ سے بالاتر تھا، مگر قسمت اپنے کھیل کھیلتی گئی۔ ڈیفنس میں ہمارے گھر کے ساتھ ہی ایک ہیلتھ یونٹ تھا،جہاں پوسٹنگ ناممکن کام تھا، رب نے ایسا ہاتھ پکڑا کہ بیگم کا وہاں تبادلہ ہوگیا۔ یہ فیصلہ میری اہلیہ کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ اس ہیلتھ یونٹ پر دو سال اہلیہ نے بہترین کام کیا۔وہاں سے اہلیہ کو من پسند شعبے میں سپیشلائیزیشن کرنے کے لیے نمبر ملے اور یوں بالآخر اس کو میرے ہی والے سرکاری ہسپتال میں فیلو شپ کے لیے ٹریننگ مل گئی۔اب میں معدہ وجگر میں سپیشلائیزیشن کررہا تھا اور وہ ریڈیالوجی میں ۔آئرہ کے آنے کے بعد زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہے، مگر مجھے نجانے کیوں لگا کہ کوئی غیبی طاقت ہے ،جو ہم دونوں کی مدد کرتی جارہی ہے۔ میں نے باہر کے امتحان پاس کیے، میڈیا میں کالم شہرت پانے لگے، ڈیجیٹل میڈیا کی دنیا میں دونوں میاں بیوی نے بطور اینکر پرسن قدم رکھا تو وہ سب ایک دم وائرل ہونے لگا۔ مطلب میں مٹی میں ہاتھ ڈالتا اور وہ سونا ہوتا گیا۔ میری ٹریننگ ختم ہوئی تو معدہ و جگر کے آخری امتحان کا سخت ترین مرحلہ تھا، یہ انتہائی مشکل امتحان تھا، اور پانچ سال ٹریننگ کے بعد بھی اس امتحان میں میرے کئی سینئر کئی سالوں سے پھنسے ہوئے تھے۔ میں نے ڈیڑھ سال سے اس امتحا ن تیاری شروع کر رکھی تھی اور ہر وقت پریشان اور اکتایا رہتا تھا ۔عجیب سی زندگی تھی ۔ ٹریننگ ختم ہوئی تو نوکری ختم ہوگئی، اور سرکاری پوسٹنگ جہاں آئی وہاں اب سینئر ڈاکٹر ہوکر کام کرنا ،اپنے آپ کو ضائع کرنے کے مترادف تھا۔سو نوکری سے رخصت لے لی اور امتحان کی تیاری کرنے لگا۔یہ شدید مایوس کن دن تھے، کیونکہ امتحان پاس نہ کرنے پر نوکری صرف ذلالت تھی اور پاس کب ہوگا یہ وقت معین نہیں تھا؟ایسے میں ، اللہ پاک نے مجھے پر ایک اور کرم کیا اور کرم بھی آئرہ کی رحمت سے ہی ہوا۔ مجھے میری من پسند سپر سپیشلسٹ فیلڈ ، جس کا میں نے ہمیشہ خواب دیکھا تھا، اس میں فیلوشپ مل گئی۔ یہ سندھ کے علاقے گمبٹ میں ،میرے سینئر استاد ڈاکٹر عبد الوہاب ڈوگر کی وجہ سے ممکن ہوا اور میں اسلام آباد سے گمبٹ آگیا۔ میں کئی بار آئرہ کو یاد کرتا ،مگر اس تین چار سال کی فرشتہ لڑکی کے چہرے پر میں نے ہمیشہ حوصلہ دیکھا، ایک نئی چمک دیکھی۔ کبھی زندگی کے ان سالوں میں، اور یہاں تک کے مشکل ترین وقت میں بھی ، اس نے مجھے حوصلہ نہیں ہارنے دیا۔ ایف سی پی ایس ( گیسٹرانٹرالوجی) کی سپیشلائیزیشن کا امتحان جو زندگیا ں لے جاتا ہے، میرا پہلی بار ہی نکل گیا ،اور والدین کے ساتھ یہ سب آئرہ کی رحمت تھی۔ والد کے جگر کی پیوندکاری کے بعد ایک خواب تھا،جس کو لے کر چلا ہوں، اسی کو پورا کرنے کے لیے جگر کی پیوندکاری میں بطور فزیشن ، ٹرانسپلانٹ ہیپاٹولوجی کی فیلڈ میں آگے مزید سپیشلائیزیشن کر رہا ہوں۔ چین میں گزارے والد کی جگر کی پیوندکاری کے چند ماہ ،میری ٹریننگ کا بھی حصہ رہے،کیونکہ اس عرصے میں ،میں دنیا کے بڑے پیوندکاری یونٹ تیانجن میں بھی اسی شعبے میں فیلوشپ ٹریننگ کرتا رہا ۔ وہاں برف کے دریا پر ٹی شرٹ پہن کر آدھی آدھی رات والد کے لیے دعا کیا کرتا تھا، اس وقت میں اولاد تھا۔ پھر وہی وقت پلٹا کھا گیا،جب میں نے آئرہ کو تین سال کی عمر میں میرے لیے دعائیں کرتے دیکھا۔ گمبٹ کی ریت میں جگر کی پیوندکاری کے ٹرانسپلانٹ ہیپاٹولوجی کے شعبے میں مزید آگے بڑھتے، مجھے نجانے کہاں سے اس کا مسکراتا چہرا ،روشن نوید دینے لگتا ہے۔ زندگی شاید خود ایک صحرا جیسی ہے، اس صحرا کو کاٹنے کے لیے ہمیں، کہیں کسی ہرے درخت کی ٹھنڈی چھاؤں، کہیں کسی پانی کے ٹھنڈے چشمے کی ضرورت ہوتی اور میرا پوری طرح ماننا ہے کہ میری اور میری اہلیہ کی زندگی میں یہ کردار آئرہ کا رہا ہے۔ یہ میری زندگی کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب آئرہ پیدا ہونے والی تھی تو مجھ پر ایک معاشرتی نفسیات کا دباؤ تھا، اتنا پڑھ لکھ کر بھی ایک پریشر سا تھا ، زیادہ نہیں مگر ایک انجان سا خوف ضرور تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ بیٹی زمہ داری ہوتی ہے، بیٹی کا باپ بن کر شاید انسان کمزور سا ہونے لگتا ہے، یہ سب وہ خوف تھے جو معاشرتی جاہلانہ روش نے دل میں وہم کی طرح ڈال دیے تھے۔ مگر آئرہ نے آکر اپنی چھوٹی سی عمر میں ہی مجھے طاقتور بنا دیا۔ اس کے پیدا ہوتے ہی رب کی رحمتوں کا نزول ہوا، اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ رحمت بڑھتی گئی۔ یہ بات کی حقیقت ہے کہ اس پھو ل کی پیدائش سے آج تک ایک دن بھی ایسا نہیں کہ جب میں نے معاش کے بارے میں سوچا ہو، رب نجانے کہاں کہاں سے وسیلے بناتا گیا۔ جب کہیں پھنستا ، مجھے یقین ہوتا کہ کہیں سے رب کی رحمت ضرور نازل ہوگی۔ کبھی انتہائی مشکل دنوں میں جب میں بالکل ٹوٹ گیا ، تو میں راتوں کو اکثر بیٹی کے پاس جاتا،وہ سو رہی ہوتی،اس کا ہاتھ تھام لیا کرتا اور رب سے دعا کرتا۔ میں نے بیٹی کی دعا کو سات آسمان چیرتے دیکھا ہے۔ میں نے ہر مشکل کو ، ہر امتحان کو ، لمحوں میں آسان ہوتے دیکھا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کس طرح طوفانوں کے تھپیڑے کھاتے زندگی کی ناؤ ، سخت طوفانی راتوں میں بھی، بیڑے پار لگتی ہے۔ یہ سب اللہ کے تحفے ہیں، سیانے کہتے ہیں بیٹا نعمت ہے ،اس کا حساب ہوگا اور بیٹی رحمت ہے، یہ رحمت کی بارش بن کر برستی ہے۔ انسان ذاتی مشاہدات اور تجربے ، صرف اس لیے قلم کے حوالے کرتا ہے کہ معاشرے ان سے اصلاح کے عمل کا پہلو نکالیں۔ ہمیں اجتماعی طور پر رب کی رحمتوں کی قدر کرنی چاہیے۔ اللہ پاک جس گھر کو اس رحمت سے نوازے، وہ یہ سمجھ لے کہ اس گھر کے باسیوں کی زندگی آگے آسان ہوگئی۔ اب جب بھی مشکل آتی ہے، بیٹی سے دور ہوتا ہوں ،تو اس کی یاد بھی بہت آتی ہے، مگر ایک ایسا حوصلہ ہوتا ہے جو سینے میں دل بن کر دھڑکتا ہے ، زندگی کی ہر مشکل سے ٹکرانے کا حوصلہ،رب کی رحمت پر پر غرور فخر کا حوصلہ۔یہ بھی ایک سرور ہے اور اس کا مزہ صرف بیٹیوں کے باپ جانتے ہیں۔رحمت کا سرور۔ تقدیرِ الہٰی کے نوشتے بھی وہی ہیں اللہ بھی وہی، اس کے فرشتے بھی وہی ہیں اتر سکتے ہیں تیری مدد کو ملائک اب بھی گر ذاتِ الہٰی سے تیرے رشتے بھی وہی ہیںادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر عفان قیصر کے کالمز
-
اس ملک کا ینگ ڈاکٹر
جمعرات 26 اگست 2021
-
خواجہ سراء کی سوچ، ایڈز اور ہم
پیر 16 اگست 2021
-
انٹرنیشنل میڈیا اور دنیا
جمعرات 29 جولائی 2021
-
شکریہ جناب گورنر پنجاب
پیر 8 فروری 2021
-
کورونا اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی ٹیلی سروسز
اتوار 6 دسمبر 2020
-
خدائی سلسلے
اتوار 1 نومبر 2020
-
بیٹی
اتوار 4 اکتوبر 2020
-
کویڈ 19 اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کی مثالی خدمات
جمعہ 18 ستمبر 2020
ڈاکٹر عفان قیصر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.