
خاموشی کی قیمت
اتوار 6 اپریل 2014
ڈاکٹر اویس فاروقی
(جاری ہے)
یوٹیوب ایک وڈیو پیش کرنے والا ادارہ ہے اس پر صارفین اپنی وڈیو شامل اور پیش کر سکتے ہیں۔ پے پال کے تین سابق ملازمین نے فروری 2005ء میں یوٹیوب قائم کی۔ نومبر 2006ء میں گوگل انکارپوریٹڈ نے 1.65 ارب ڈالر کے عوض یوٹیوب کو خرید لیا، اور اب یہ گوگل کے ماتحت ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے۔ ادارے کے صدر دفاتر سان برونو، کیلیفورنیا، امریکہ میں واقع ہیں۔ یوٹیوب صارف کے وڈیو مواد کو دکھانے کے لیے ایڈوب کی فلیش وڈیو ٹیکنالوجی استعمال کرتا ہے۔ یوٹیوب پر پیش کردہ بیشتر مواد انفرادی طور پر اس کے صارفین کی جانب سے پیش کیا جاتا ہے البتہ سی بی ایس، بی بی سی، یو ایم جی اور دیگر ابلاغی ادارے بھی یوٹیوب شراکت منصوبے کے تحت اپنا کچھ مواد پیش کرتے ہیں۔غیر مندرج صارفین یوٹیوب پر وڈیو دیکھ سکتے ہیں جبکہ مندرج صارفین کو لامحدود وڈیو پیش کرنے کی اجازت ہے۔ یوٹیوب کی شرائط کے تحت رسوائی کا باعث بننے والا، فحش، حقوق دانش کی خلاف ورزی کرنے والا اور جرائم پر ابھارنے والا مواد پیش نہیں کیا جا سکتا۔ مندرج صارفین کے کھاتے "چینلز" کہلاتے ہیں۔یوٹیوب انگریزی کے علاوہ 16 سے زائد زبانوں میں سہولیات فراہم کرتی ہے جن میں ہسپانوی، ولندیزی، چینی اور دیگر شامل ہیں۔گوگل نے اعلان کیا ہے کہ اس کی ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ یوٹیوب کو باقاعدگی سے استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد ایک ارب تک پہنچ گئی ہے۔گوگل نے اس سنگ میل کو عبور کرنے پر اپنے بلاگ میں کہا ہے کے سمارٹ فونز کے ذریعے ویب سائٹ استعمال کرنے سے صارفین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ہر ماہ ویب سائٹس استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد ایک ارب تک پہنچ گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق’تقریباً انٹرنیٹ پر آنے والا ہر دوسرا صارف یوٹیوب استعمال کرتا ہے لاکھوں کی تعداد میں حصہ داروں نے اپنے چینلز، پیجز اور کاروبار بنائے ہیں، جہاں وہ سرگرم اور مصروف رہتے ہیں۔‘ایک رپورٹ کیمطابق کاروباری جریدے اور سرفہرست سو بڑے برانڈز اب یوٹیوب پر موجود ہیں،انٹرنیٹ کمپنی گوگل کا کہنا ہے کہ مشہورِ زمانہ ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ ’یو ٹیوب‘ پر روزانہ دو ارب سے زائد ہٹس آتی ہیں۔گوگل کے مطابق یہ تعداد امریکہ کے تین بڑے ٹی وی چینلز کے صارفین کی کل تعداد کے قریباً دوگنا کے برابر ہے۔
علم اور تعلیم کے اس زریعے پر پابندی کی بنا پر عوام کی اکثریت مفت تعلیم اور معلومات سے محروم ہے، ابھی حال ہی میں سینیٹر افرا سیاب خٹک کی سربراہی میں اسلام آباد میں قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس ہوا ، اجلاس کے دوران چیرمین پی ٹی اے نے یو ٹیوب کی بندش کے حوالے سے بتایا کہ انٹر نیٹ سرچ انجن گوگل پر 848 ویب سائٹس پر تنبہیہ موجود ہے، جس پر مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ صارفین کی یو ٹیوب تک رسائی نہ ہونا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، کمیٹی نے معاملے پر غور کے بعد یو ٹیوب کھولنے سے متعلق قراردادسینیٹ میں لانے کا فیصلہ کیا۔واضح رہے کہ حکومت نے 17 ستمبر 2012 کو یو ٹیوب پر توہین آمیز فلم کی وجہ سے اس ویب سائیٹ پر پابندی عائد کردی تھی ، 29 دسمبر 2012 کو یو ٹیوب پر سے صرف 2 گھنٹے کے لئے پابندی اٹھائی گئی تھی جس کے بعد سے تاحال اس ویب سائٹ پر پابندی عائد ہے۔ضروت اس امر کی ہے کہ حکومت کو یو ٹیوب یا دیگر انٹر نیٹ کے زرائع پر ہونے والی کسی بھی غیر اخلاقی سرگرمی یا توہین آمیز مواد یا ویڈیوز کو فلٹر لگا کر بند کرنا چاہیے اور اگر یہ ابھی تک نہیں ہو سکا تو اس میں متعلقہ نگراں ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیش اتھارٹی کی نااہلی ہے۔ایک ایسی ویب سائٹ جو علم اور تعلیم کا ایک بہت بڑا زریعہ ہے اور جسے دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے، پاکستان میں کیوں بند ہے اور کب تک رہے گی۔ یو ٹیوب پر پابندی لگنے کے ڈیڑھ سال بعد بھی اس خاموشی کا جواب ملنا مشکل ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر اویس فاروقی کے کالمز
-
ستر برسوں کاتماشہ آخر کب تک؟
ہفتہ 22 جولائی 2017
-
نوٹس پر نوٹس مگر ایکشن کہاں ہے؟
ہفتہ 23 اپریل 2016
-
سانحہ گلشن پارک انسانیت کے خلاف جرم
بدھ 6 اپریل 2016
-
مردم شماری ایک بار پھر موخر
بدھ 23 مارچ 2016
-
تعلیم، سکول اور حکومت
اتوار 13 مارچ 2016
-
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ہفتہ 5 مارچ 2016
-
مفت تعلیم سب کے لئے کیسے؟
اتوار 28 فروری 2016
-
مدت ملازمت میں توسیع کی بحث کیوں؟
منگل 16 فروری 2016
ڈاکٹر اویس فاروقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.