
بچوں کی اموات آخر کب تک؟
منگل 26 جنوری 2016
ڈاکٹر اویس فاروقی
(جاری ہے)
غذائی قلت اور خوراک کی عدم دستیابی تھرپارکر کا ایک بڑا مسئلہ ہے، تھر میں ان دنوں نمونیا اور ہیضہ کی بیماری چھوٹے بچوں کی اموات کی بڑی وجہ بنی ہوئی ہے۔ تھرپارکر میں بچوں کی اموات کی ایک بڑی وجہ ٹرانسپورٹ کی سہولیات کی کمی بھی ہے جس کے باعث ہسپتال دیر سے پہنچنے پر کئی بچے راستے میں ہی انتقال کر جاتے ہیں۔
جبکہ بین الاقوامی ادرئے بھی اس ضمن میں ہمیں بتاتے ہیں کہ پاکستان میں سالانہ دو لاکھ چونتیس ہزار بچے حمل کے آخری تین مہینوں کے دوران ہی وفات پا جاتے ہیں۔ اس طرح پاکستان میں ایک ہزار میں سے تینتالیس بچے مردہ حالت میں پیدا ہو رہے ہیں، جو کہ دنیا بھر میں سب سے بڑی تعداد ہے۔اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ مردہ بچوں کی پیدائش پاکستان میں ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے ایک خصوصی رپورٹ برطانوی جریدے ’لینسیٹ‘ میں شائع کی گئی ہے۔ دنیا بھر کے کم یا درمیانی آمدنی والے ممالک میں ایک ہزار بچوں میں سے اوسطاً 18,4 بچے قبل از پیدائش ہی وفات پا جاتے ہیں لیکن پاکستان میں یہ تعداد حیران کن طور پر زیادہ ہے۔ اس رپورٹ کے محققین کے مطابق پاکستان میں بچوں کی قبل از وقت وفات یا ہلاکت کے بنیادی اسباب غربت، غذائی قلت، حفظان صحت کی سہولتوں کا فقدان اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ کم عمری میں بچیوں کی شادیاں ہیں۔
پاکستان کی موجودہ آبادی تقریباً دو سو ملین نفوس پر مشتمل ہے اور اس ملک کا شمار جنوبی ایشیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جس کی آبادی سب سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اسی طرح سن دو ہزار گیارہ کی غذائیت سے متعلق ایک قومی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس ملک میں غذائی قلت کی شرح سن انیس سو پینسٹھ کے بعد سے ایک جیسی چلی آ رہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پانچ برس سے کم عمر کے تقریباً چوالیس فیصد بچوں کی بڑھوتری کی رفتار سست ہے جبکہ پندرہ فیصد غذائی قلت کا شکار ہیں۔عالمی بینک کے مطابق پاکستان اپنی مجموعی قومی پیداوار کا صرف ایک فیصد اپنے نظام صحت پر خرچ کر رہا ہے، جو کہ دنیا میں سب سے کم شرح ہے ۔پاکستان میں ماوٴں کی صحت سے متعلق سن دو ہزار پندرہ کے ایک سمپوزیم میں شریک محققین کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ یہ ایک ’بین النسلی شیطانی چکر‘ ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی مائیں خود غذائی قلت کی شکار ہیں اور اپنی نوجوانی ہی میں یہ غذائی قلت کے شکار بچے پیدا کر رہی ہیں۔برطانوی میگزین کے مطابق یہ رپورٹ پانچ سائنسی جائزوں کا تجزیہ کرنے کے بعد شائع کی گئی ہے۔ رپورٹ کی تیاری میں تینتالیس ممالک کے دو سو ماہرین شامل تھے۔
دوسری جانب انسانیت کی بہتری اور ان کے لئے آسانیاں پیدا کرنے قبل از وقت بیماریوں سے مرنے اور غربت کے خاتمے جو ان تمام جرائم کی ماں ہے کے خاتمے کے لئے کوششں کرنے والے دنیا کے نیک انسانوں جن میں سر فہرست بل گیٹس کا نام نامی آتا ہے کا کہنا ہے کہ 2035 ء تک دنیا بھر میں غربت کا خاتمہ ہوجائے گا اور بچوں میں اموات کی شرح 1980 ء کے امریکہ اور برطانیہ کی مانند ہوگی۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے گیٹس فاوٴنڈیشن کے سالانہ میگزین ،،فوربز،، میں جاری ہونے والے اپنے مضمون میں کیا۔
اس سلسلے میں بل گیٹس اور ان کی اہلیہ ملیندہ گیٹس نے کچھ مفروضات بھی پیش کیے۔بل نے کہا کہ اگلے 20 برسوں کے دوران دنیا بھر سے غربت کا خاتمہ ہوجائے گا اور کوئی ملک غریب نہیں کہلا سکے گا اور ان ممالک میں بچوں میں شرح اموات اسی سطح پرچلی جائے گی جوکہ 1980 ء کی دہائی میں امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں پائی جاتی تھی۔گیٹس فاوٴنڈیشن کی اس بارے توقعات ہیں کہ وہ آئندہ 20 سال کے بعد(جب بل گیٹس وفات پاجائیں گے)اپنے 67 ارب ڈالر کے اثاثے رفاعی کاموں کے لیے وقف کر دے گی۔انہوں نے کہا کہ جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ پوچھا جائے گا کہ فلاں ملک غریب کیوں ہے تاہم شمالی کوریا جیسے ممالک جہاں سیاست ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ،کے بارے کوئی پیشن گوئی کرنا ممکن نہیں البتہ کئی دوسرے ملکوں کے حوالے سے اچھی مثالیں بھی موجود ہیں۔اپنے پہلے مفروضے کے حوالے سے بل گیٹس کا کہنا تھا کہ غریب ممالک ہمیشہ ایسی صورتحال سے دوچار نہیں رہیں گے ،2035 ء میں کوئی ملک غریب نہیں ہوگا اور اس کی کم ازکم فی کس آمدنی آج کی لوئر مڈل یا امیر شخص کی آمدنی ایک جیسی ہوگی۔بل گیٹس نے کہا کہ جب وہ بچے تھے تو اس وقت متعدد ممالک غریب اور سہولتوں سے محروم تھے تاہم اگلے 20 برسوں کے دوران صورتحال میں مزید بہتری آئے گی تاہم اگرغربت کے خاتمے کی صورتحال میری زندگی میں ہی آجائے تو یہ میرے لیے حسین لمحہ ہوگا۔دوسرے مفروضے میں انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کیلئے بیرونی امداد دولت کا ضیاع ہے جوکہ سیاسی رہنماوٴں کو رشوت کے طور پر دی جاتی ہے کہ وہ اس کو جیسے چاہیں استعمال کریں۔ان کا کہنا تھا کہ بیرونی امداد دلچسپ سرمایہ کاری کی مانند ہے اور ہمیں اسے جاری رکھنا چاہیے،اس کے ذریعے انسانی زندگیوں کا بہتر انداز میں تحفظ اور ان میں بہتری لائی جاسکتی ہے اس کے علاوہ بیرونی امداد کے ذریعے طویل مدتی اقتصادی ترقی کا راستہ ہموار کیاجا سکتاہے۔اپنے آخری مفروضے بارے ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی زندگیوں کے تحفظ کا مطلب عالمی آبادی میں اضافہ لیا جاتا ہے، اس طرز سوچ نے دنیا کو بہت سے مسائل میں مبتلاء کر دیا ہے۔ شائد ہمارے حکمرانوں کو بھی کبھی عقل آجائے اور ہم بھی ایک بہتر زندگی کی طرف گامزن اپنے بچوں کو دیکھ سکیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر اویس فاروقی کے کالمز
-
ستر برسوں کاتماشہ آخر کب تک؟
ہفتہ 22 جولائی 2017
-
نوٹس پر نوٹس مگر ایکشن کہاں ہے؟
ہفتہ 23 اپریل 2016
-
سانحہ گلشن پارک انسانیت کے خلاف جرم
بدھ 6 اپریل 2016
-
مردم شماری ایک بار پھر موخر
بدھ 23 مارچ 2016
-
تعلیم، سکول اور حکومت
اتوار 13 مارچ 2016
-
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ہفتہ 5 مارچ 2016
-
مفت تعلیم سب کے لئے کیسے؟
اتوار 28 فروری 2016
-
مدت ملازمت میں توسیع کی بحث کیوں؟
منگل 16 فروری 2016
ڈاکٹر اویس فاروقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.