روسی کورونا ویکسین شکوک و شبہات کی زد میں

بدھ 19 اگست 2020

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

حال ہی میں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے دعوی کیا تھا کہ ان کے ملک کے سائنس دانوں نے کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرلی ہے ۔اس ویکسین کی کامیابی کے متعلق پیوٹن نے بتایاتھا ویکسین کی آزمائش انسانوں پر دو ماہ تک کی گئی ہے جو ہر معیار پر پوری اتری ہے۔کورونا ویکسین کاا ستعمال انھوں نے اپنی بیٹی پر بھی کیا اور بتایا کہ ان کی بیٹی کو ویکسین کے بعد ہلکا بخار ہوا ہے جو جلد اتر جائے گا۔

پیوٹن نے روسی تیار کردہ کوروناویکسین کی بڑے پیمانے پر تیاری کا سلسلہ شروع کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔کورونا کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنے والی یہ ویکسین دنیا کی پہلی ویکسین بن گئی تھی جس کی منظوری دے کر اسے باقاعدہ رجسٹرڈ بھی کیا گیا۔روس کی جانب سے کورونا ویکسین سامنے آنے کے بعد دنیا میں ہلچل مچ گئی تھی ،دنیا بھر کے سائنس دان پیوٹن کے دعوی پر غور کر رہے تھے کہ کیا واقعی کورونا کی موثرویکسین اتنی جلدبن سکتی ہے۔

(جاری ہے)

انہی خدشات کے جواب میںروسی سائس دانوں کا کہنا تھا کہ جوویکسین تیار کی گئی ہے وہ پہلے ہی سے اسی طرح کی دیگر بیمایوں سے لڑنے کی اہلیت رکھتی ہے اور اس کے ٹرائلز میں روسی فوج کے رضا کاروں نے حصہ لیا تھا جبکہ منصوبے کے ڈائریکٹر الیگزنڈر گنسبرگ نے خود بھی اس کا ڈوز لیا تھا۔ان وضاحتوں کے باوجود دیگر ممالک کے سائنس دان مطمٰن نہ ہوسکے اور مسلسل تشویش کا اظہار کرتے رہے،ان کی تشویش اور روسی سائنس دانوں کے دعویٰ نے اب ایک نیا موڑ لے لیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق روس دنیا کی طاقت ہے جس نے کرونا ویکسین تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے تاہم سائنسدانوں کی ایک بڑی تعداد نے روس کی تیار کردہ اس ویکسین کو انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اسپوتنک وی نامی ویکسین کی رجسٹریشن نا روک پانے پر سانس کی بیماری میں مہارت رکھنے والے سینئر روسی سائنسداں پروفیسر الیکزنڈر چچیلن وزارت صحت کی ایتھکس کونسل سے مستعفی ہوگئے۔

پروفیسر الیکزنڈر چچیلن کو مذکورہ کرونا ویکسین کی لاچنگ پر اعتراض تھا۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ مستعفی ہونے والے روسی سائنسداں نے ویکسین کے محفوظ ہونے سے متعلق کئی سوالات اٹھاتے ہوئے جس ادارے میں یہ ویکسین تیار کی گئی ہے اس کے ڈائریکٹر پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔روسی کرونا ویکسین گمالیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں تیار کی گئی ہے جس کے ڈائریکٹر روسی فوج میں سینئر وائرولوجسٹ کرنل پروفیسر سرجی بوریسیوِک ہیں۔

پروفیسر الیگزنڈر نے الزام عائد کیا کہ گمالیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ دونوں سائنسدانوں نے روسی قانون میں درج پیمانوں اور انٹرنیشنل سائنسی پیمانوں کو نظرانداز کیا ہے جس سے ثابت ہوسکے کہ ٹیکہ نقصان دہ نہیں ہوگا۔
دوسری جانب نوبل انعام یافتہ آسٹریلیا کے سائنس دان پیٹر چارلس نے بھی کوویڈ 19 کی روسی ویکسین کا اتنی جلدی استعمال شروع کرنے پر سائنس دانوں کی تشویش اور شبے پر اتفاق کا اظہا رکیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ بڑی تشویش یہ ہے کہ اگر اس ویکسین کے محفوظ ہونے کا شک ثابت ہوتا تو دیگر ویکسین کے اعتماد پر بھی اس کا اثر دیکھنے کو مل سکتا ہے۔آسٹریلوی سائنس دان نے ملبان سے ایک انٹرویو میں کہا کہ اہم تشویش یہ ہے کہ اگر ویکسین کے حوالے سے کوئی نیاایشو ابھرا تو یہ ایک بڑی تشویش ہوگی کہ یہ الگ عمل کے تحت فروغ دئے جارہے ہیں۔ملبان یونیورسٹی کے سائنس دان دوہرٹی نے جسم کے دفاعی نظام آم سیس اور وائرس سے متاثرسیس کے درمیان فرق کیسے کیا جائے، کے طریقہ کو ایجادکیا تھا۔

جس کے لئے انھیں 1996 میںمیڈیسن کا نوبل انعام ملا تھا۔
ادھر چین کی سینوویک بایوٹیک لمیٹڈ کمپنی نے منگل کو کووڈ 19 کی انسانوں پر آزمائش کے آخری مرحلے کا آغاز کر دیا ہے۔ اس ویکسین کا ٹرائل انڈونیشیا میں 1620 مریضوں پر کیا جا رہا ہے۔یہ ویکسین انڈونیشیا کی سرکاری کمپنی بائیو فارما کے ساتھ مل کر بنائی جا رہی ہے۔اس سے قبل سینوویک نے کہا تھا کہ آزمائش کے دوسرے مرحلے میں ویکسین انسانوں کے لیے محفوظ پائی گئی اور مریضوں میں اینٹی باڈیز پر مبنی مدافعت پائی گئی ہے۔

کوروناویک نامی ایک ویکسین ان چند اثر انگیز ویکسینز میں شامل ہے جو ٹیسٹنگ کے اس مرحلے تک پہنچ سکی ہیں۔دنیا بھر میں اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ کووڈ 19 کے لیے ویکسین تیار کرنے میں حفاظتی معیاروں پر کسی طرح کا سمجھوتا نا کیا جائے۔ تاہم حال میں دیکھا گیا ہے کہ ویکسین تیار کرنے کے لیے حکومتوں پر عوام کا دباوء بڑھتا جا رہا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت کورونا وائرس کے خلاف کامیاب ویکسین تیار کرنے کے لیے 100 سے زیادہ مقامات پر کوششیں جاری ہیں۔ ان میں سے چار مقامات پر ویکسین انسانوں کے استعمال کے ٹیسٹ کے آخری مرحلے میں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :