انسانی جسم کے گمنام ہیرو''گردے''

جمعرات 11 مارچ 2021

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

اللہ تعالیٰ نے انسان کے سر سے لے کرپاوں تک جسم کے ہر عضو کے اندر خاصیت رکھی ہے۔سائنس دان اور تحقیق کار کائنات کی سب سے اعلیٰ مخلوق انسان کی تخلیق اور اس میں چھپے رازوں کو جاننے کی کوشش میں اب تک لگے ہوئے ہیں۔سائنس دا ن جوں جوں انسان کے کسی عضو کی خاصیت کو سمجھتے ہیں تو رب کائنات کی اس عظیم تخلیق پر عش عش کر اٹھتے ہیں۔انسان کے تمام اعضاء خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ کسی ایک اعضاء کی کمی انسان کو معذور بنا دیتی ہے۔

انسان کے انہی اعضاء میں سب سے اہم گردے ہیں ،گردوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ انسانی جسم کے گمنام ہیرو ہیں جو انسانی جسم میں بہت اہم کام سرانجام دینے کے باوجود کسی خاطر میں نہیں لائے جاتے۔ عام طور پر لوگ اپنے گردوں کی جانب دیگر اعضاء کی طرح توجہ نہیں دیتے،اس کے باوجود گردے آخری دم تک انسانی جسم میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہتے ہیں،جب گردے اپنی استطاعت سے بڑھ کر کام کرتے ہیں تو ایک وقت پر وہ بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں تب جاکر انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے جسم کے سب سے اہم عضو ''گردوں''کو کس طرح سے نظر انداز کرتا رہا ہے ۔

(جاری ہے)

گردوں پر بیماری کا اثر جب تک ظاہر ہوتا ہے تب تک کافی دیر ہوچکی ہوتی ہے حالانکہ اس سے قبل انسانی جسم میں ہونے والی بعض تبدیلیاں اشارہ بھی دے رہی ہوتی ہیں کہ گردوں میں کچھ گڑ بڑ ہورہی ہے لیکن اکثریت اپنی بیماری پر تب تک توجہ نہیں دیتی جب تک کے بڑے مسئلے سے دوچار نہ ہوجائے۔
حالیہ رپورٹ کے مطابق گردوں کی بیماری کا مریض کو تب پتہ چلتا ہے جب گردے نوے فیصد تک اپنا کام کرنا چھوڑ چکے ہوتے ہیں اسی لئے گردوں کی اہمیت اور اس کی بہتر نگہداشت کے حوالے سے لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے لئے ہر سال مارچ کی دوسری جمعرات کو گردوں کو عالمی دن منایا جاتا ہے۔

اس دن کو منانے کا آغاز سن 2006سے کیا گیا تھا۔گردوں کے عالمی دن کے موقع پر لوگوںکی توجہ جسم کے اس اہم عضو کی جانب مبذول کرائی جاتی ہے جو لاپرواہی اورغلط علاج کی وجہ سے ناکارہ ہوجاتا ہے اور پھر انسان کے زندہ رہنے کی امید کم ہوجاتی ہے ۔سائنسی تحقیق کے مطابق انسان ایک گردے کے ساتھ بھی زندہ رہ سکتا ہے اسی لئے ایک صحت مند انسان اپنا ایک گردہ کسی ایسے مریض کو عطیہ بھی کرسکتا ہے جس کے دونوں گردے ناکارہ ہوچکے ہوں لیکن اس عمل میں صحت مند فرد کو عمل جراحی سے گذرنا پڑتا ہے ۔


صحت کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر دس میں سے ایک فرد گردوں کی بیماری میںمبتلا ہے اس لحاظ سے دنیا بھر میں تقریبا 850 ملین افراد گردوں کی بیماری میںمبتلا ہیںجبکہ ہر سال گردوں کے شدےد امراض سے دنےا بھر مےں 2.4ملےن افراد ہلاک ہو جاتے ہےں ۔اس مہلک بیماری کی وجہ سے اموات کی تعداد میں اس لئے اضافہ ہوتا جارہا ہے کہ اب بھی لوگ گردوں کی بیماری کو سیریس نہیں لیتے،یہی وجہ ہے کہ دنیا میں اموات کی پانچویں بڑی وجہ گردوں کی بیماری ہے جس کی بڑی تعداد ترقی پذےر مما لک سے تعلق رکھتی ہے ۔

پاکستان میں سالانہ ہر دس لاکھ افراد میں 100یا 150 افراد گردوں کے مرض میں مبتلا ہیں ۔گردوں میں خرابی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن ماہرین کے مطابق بلڈ پریشر اور ذیابیطس ،موٹاپا گردوں میں خرابی کی بنیادی وجوہات ہیں اسی لئے بلڈ پریشر ، ذیا بیطس اور موٹاپے کو کنٹرول میں رکھ کر گردوں کی بیماری سے بچا جاسکتا ہے۔گردے اگر خدانخواستہ خراب ہوجائیں تو ڈائیلیسس کرانا پڑتا ہے جوکہ مریض کے لئے ایک تکلیف دہ عمل ہے ۔


گردوں کی خرابی میں مبتلا مریض کے لئے علاج کے تین طریقے ہوتے ہیں۔1۔ ''ہیمو ڈائلیسس''،2۔'' پیری ٹونیل ڈائلیسس'' ،3۔ گردے کی تبدیلی۔ ہیمو ڈائلیسس میں ایک مشین کے ذریعے خون کو صاف کیا جاتا ہے اور نقصان دہ اجزا، اضافی نمک اور پانی خون سے علیحدہ کیا جاتا ہے۔ ہیمو ڈائلیسس ہفتے میں تین مرتبہ کیا جاتا ہے اور ہر بار تین سے چار گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔

اضافی مادوں کو صاف کرنے کا ایک اور طریقہ پیری ٹونیل ڈائلیسس ہے۔ ہیمو ڈائلیسس اور پیری ٹونیل ڈائلیسس عارضی اور مصنوعی طور پر گردوں کا فعل انجام دیتے ہیں۔یہ دونوں طریقے بہت مہنگے ہیں، ان کی مدد سے مریض کی صحت بہتر اور زندگی طویل تو ہو سکتی ہے لیکن یہ گردوں کی خرابی کا علاج نہیں ہے۔ناکارہ گردوں کا تیسرا علاج گردوں کی پیوند کاری یا ٹرانسپلانٹ ہے،یہ علاج بھی بہت مہنگا ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ کوئی دوسرا صحت مند شخص اپنا ایک گردہ مریض کو دینے کے لئے رضا مند ہو۔

پاکستان میں گردہ فروخت کرنے پر مکمل پابندی ہے تاہم مریض کا رشتہ دار (بلڈ ریلیشن) اگر اپنی مرضی سے اپنا ایک گردہ مریض کو عطیہ کرنا چاہے تو اسے قانونی اجازت کے بعد یہ حق دے دیا جاتا ہے۔گردوں کی بیماری سے بچنے کے لئے جہاں بلڈ پریشر ،ذیابیطس اور موٹاپے کو کنٹرول کرنا ضروری ہے وہیں صحت مند لائف سٹائل اپنانا بھی ضروری ہے تاکہ اس مہلک لیکن خاموش قاتل مرض سے بچا جاسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :