الزام کی تشہیر کرنا غیر اخلاقی طریق ہے

منگل 9 جون 2020

Dr Maqbool Ahmad Siddiqi

ڈاکٹر مقبول احمد صدیق

الزام کی تشہیر کرنا غیر اخلاقی طریق ہے
 
چند دن قبل ایک امریکی خاتون صحافی سنتھیارچی نے جو فلم میکر اور بلاگر بھی ہیں اور عرصہ 10 سال سے پاکستان میں مقیم ہیں نے پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت پر سنگین الزامات لگائے اور ان الزامات کو ایک پاکستانی ٹی وی نے اہنے چینل پر نشر بھی کر دیا
 
سنتھیارچی نے کہا کہ 2011 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ایوان صدر میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیر صحت شہاب الدین نے ان کے ساتھ زبردستی کی اور وزیر داخلہ رحمان ملک نے تو ریپ بھی کر ڈالا---یہ جنسی الزامات بہت سنگین ہیں جو ایک ٹی وی نے عوام کے سامنے نشر کردیے
اب جونہی یہ خبر نشر ہوئی تو جیسا کہ ہوتا ہے ہماری قوم پہلے ہی بہت جذباتی ہے ہم فورا کسی کو بے نقاب اور ننگا کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں
بجائے خبر سچی ہے یا جھوٹی ہے اسے جانے بغیر فورا جن پر الزامات لگائے گئے تھے انہیں ہم نے برا بھلا کہنا شروع کر دیا پیپلز پارٹی اور سیاستدانوں پر گند اچھالنا شروع کر دیا
جبکہ دوسرا طرف بعض لوگوں نے خصوصا پیپلز پارٹی نے سنتھیارچی کے الزامات کو بے بنیاد قرار دینا شروع کردیا
سنتھیارچی کے الزامات درست ہیں یا غلط وہ سچ بول رہی ہے یا جھوٹ یہ اس وقت میرا موضوع نہیں ہے
فی الحال میرا یہ موضوع ہے کہ
اول۔

(جاری ہے)

۔۔کیا سنتھیارچی کی یہ خبر (یعنی الزامات کی خبر) ٹی وی چینل کو نشر کرنی چاہییے تھی یا نہیں
دوم۔۔۔پھر اس خبر کو سن کر کسی سمجھدار یا ذمہ دار شہری یا صحافی کا اس خبر پر ردعمل کیا ہونا چاہییے
اس ضمن میں ہمیں مکمل انصاف سے کام لینا ہوگا--کسی بھی قسم کی سیاسی یا علاقائی وابستگی کو نظر انداز کر کے انصاف سے کام لینا ہوگا
اب انصاف کیا ہے اسے جاننا سب سے پہلے ضروری ہے
انصاف کا مطلب کیا ہے
انصاف کا مطلب ہوتا ہے نصف نصف یعنی آدھا آدھا
مطلب یہ کہ دونوں فریقوں کو سنا جائے
جسطرح عدالتی تصاویر میں ترازو دکھایا جاتا ہے جسمیں دونوں پلڑے برابر ہونے چاہیئیں مراد یہی ہوتی ہے کہ انصاف کا تقاضا ہوتا ہے کہ دونوں فریقوں کو سنا جائے
تصویر کا ایک رخ نہیں بلکہ دونوں رخ دیکھیں جائیں
بالکل اسی طرح اگر کوئی الزام لگاتا ہے تو جس پر الزام لگایا جاتا ہے ان دونوں کو سننا ضروری ہے تب ہی کوئی فیصلہ کرنا انصاف کہلائے گا
اور فریقین کو سننے سے  بھی پہلے اصولا یہ دیکھنا چاہییے ہے کہ جو الزام لگا رہا ہے اسکا طریقہ کار درست بھی ہے یا نہیں
سنتھیارچی نے بتایا کہ اسکے ساتھ زیادتی ہوئی---اب اگر اسکے ساتھ واقعی کوئی زیادتی ہوئی تو اسکا کام تھا کہ پہلے پولیس سے رابطہ کرتی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتی
مراد یہ ہے کہ اگر کسی کو کوئی مسئلہ ہو جھگڑا ہو تو اسے پہلے متعلقہ جگہ پر ڈسکس کرنا چاہییے تھرو پراپر چینل کام کرنا چاہییے
یہ انداز بالکل غلط ہے کہ آپ پولیس اور عدالتوں کے پاس جائیں ہی نہ اور فورا کسی اخبار میڈیا یا ٹی وی پر خبر نشر کر دیں
یہ پہلی غلطی ہے جسے لوگ نوٹ ہی نہیں کرتے --کسی کو پہلے قانونی تمام طریقوں کو پورا کرنا چاہییے پھر اگر کہیں بھی شنوائی نہ ہو رہی ہو تب ایک عرصہ گزرنے کے بعد کوئی میڈیا پر اپنی خبر نشر کرے یا کروائے تو یہ بات مانی جا سکتی ہے
مگر سنتھیارچی کے ساتھ زیادتی 2011 میں ہوتی ہے وہ نو سال انتظار کرتی ہے مگر اسقدر انتظار کے بعد بھی بجائے پولیس یا عدالت جانے کے یہ خبر میڈیا پر لے آتی ہے یہ غلط انداز ہے
دوسرا یہ کہ جس ٹی وی چینل نے سب سے پہلے یہ خبر نشر کی اور الزامات کو نشر کر دیا اسکا یہ انداز بھی بالکل غلط ہے کیونکہ الزامات کی خبروں کو نشر کرنا ازحد غلط انداز ہے
اخلاقیات کی رو سے کسی کے بھی الزامات کو نشر ہر گز نہیں کرنا چاہییے
کیونکہ الزامات تو کوئی بھی کبھی بھی کسی بھی وقت کسی پر بھی لگا سکتا ہے کسی کو بھی بدنام کر سکتا ہے
حقیقت یہ ہے کہ الزامات صرف الزامات ہی ہوتے ہیں---یہ سچ ہیں یا جھوٹ یہ تو تحقیق کے بعد ہی پتہ چلتا ہے
تحقیق کے بعد اگر الزام ثابت ہو جائے تو اسے جرم کہیں گے۔

۔۔اب جرم کی خبر کو شائع کرنا درست ہوگا
الزام کیا ہے جرم کیا ہے اسکی وضاحت درج ذیل ہے
الزام اور جرم میں فرق
الزام میں کوئی شخص کسی دوسرے کی خرابی یا زیادتی کا ذکر کرتا ہے اسکا مقصد دوسرے کو بدنام کرنا یا سزا دلوانا ہوتا ہے--اب ملزم یعنی جس پر الزام لگایا جاتا ہے وہ گناہ گار ہو سکتا ہے اور نہیں بھی دونوں امکان موجود ہوتے ہیں
جبکہ جرم میں کسی کی خرابی یا زیادتی ثابت ہوجاتی ہے--یعنی گواہوں اور شواہد کی مدد سے عدالت جب کسی کی زیادتی ثابت کر دے تو اسے مجرم کہا جائے گا
الزامات کی خبریں اور میڈیا
اب علم ہوا کہ الزامات ضروری نہیں کہ سچے بھی ہوں---سچ اور جھوٹ دونوں کا امکان ہوتا ہے
اب الزامات کو نشر کرنا ازحد غیر اخلاقی طریق کہلائے گا--کسی ٹی وی چینل یا میڈیا کا ایسی خبریں نشر کرنا جو محض الزامات پر مبنی ہو انہیں پھیلانا بہت بری حرکت کہلائے گا
پھر میڈیا کا تو یہ کام ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کی رہنمائی کرے اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو اسے پولیس یا متعلقہ اداروں یا عدالتوں میں بجھوایا جائے ہاں کہیں بھی شنوائی نہیں ہو رہی ہو اور ادارے تعاون ہی نہ کریں تب کوئی خبر نشر کی جائے تو یہ درست ہوگا
یعنی تھرو پراپر چینل پہلے ورکنگ کر لینی چاہییے قانونی تقاضے پورے کر لینے چاہیئیں اگر پھر بھی کہیں بات نہ بنے تب میڈیا پر خبر لانا درست ہوگا ورنہ نہیں
قصہ مختصر الزامات کی خبروں کو میڈیا پر نشر کرنا ازحد غیر اخلاقی طریق ہے
اس سے کئی برائیاں معاشرے میں پھیل جاتی ہیں
الزامات کی خبریں نشر کرنے کے نقصانات
ایسی خبریں شائع کرنے کے کئی معاشرتی نقصانات ہو سکتے ہیں
1-اگر الزامات کی خبریں نشر کی جاتی ہیں تو اس سے قوم کی اخلاقیات بگڑ جاتی ہیں--اسطرح کسی پر بھی الزام لگا کر اسے بدنام کرنے کی عادت لوگوں کو پڑ جاتی ہے
2--الزامات کی خبریں نشر کرنے سے قوم میں بلیک میلنگ کی لعنت پیدا ہوجاتی ہے اسطرح تو کسی بھی شریف یا بے گناہ پر الزام لگا کر اسکی پگڑی اچھالی جا سکتی ہے--کسی کی کاروباری ادارے یا اسکی کسی پراڈکٹ کی ساکھ بھی متاثر کی جا سکتی ہے
3--الزامات کی خبریں نشر کرنے سے اداروں کی اہمیت ماری جاتی ہے--لوگ بجائے قانونی راستہ اپنانے کے اپنی غیر قانونی راستے اور انداز اہنانے لگ جاتے ہیں
اب اوپر کی سطور سے ثابت ہوا کہ ستھیارچی کو یا میڈیا کو یہ خبر نشر ہی نہیں کرنا چاہییے تھی پہلے قانونی تقاضے پورے کر لینے چاہیئیں تھے پھر کہیں بھی شنوائی نہ ہوتی تب خبر نشرکرنا درست طریقہ کہلا سکتا تھا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :