ارطغرل ڈرامہ --چند ناقص تصورات

جمعہ 19 جون 2020

Dr Maqbool Ahmad Siddiqi

ڈاکٹر مقبول احمد صدیق

ترکی ڈرامہ ارطغرل غازی کے بارے میں بہت سے پاکستانی جذباتی ہو کر اسے اسلامی ڈرامہ قرار دے رہے ہیں-- اسلامی تاریخ پر بنے ڈرامے تو بے شمار ہیں مگر خاص طور پر اس ڈرامہ کو اسلامی و انقلابی قرار دیا جا رہا ہے
حقیقت یہ ہے کہ ایکٹنگ کر کے بنایا گیا کوئی ڈرامہ بھی اسلام میں کسی بھی مسلک میں پسندیدہ قرار نہیں دیا گیا -- آپ اسے دیکھ سکتے ہیں صرف ایک دنیاوی ڈرامہ سمجھ کر مگر اسے اسلامی اور مکمل حلال و جائز ڈرامہ ثابت کر کے اسے پروموٹ نہیں کر سکتے --بہت سے لوگ اسکے جواز کی دلیلیں دے رہے ہیں جو سراسر کم علمی پر مبنی ہیں - انکے کچھ دلائل یہ ہوتے ہیں۔


1-یہ ڈرامہ بیہودہ واہیات ڈراموں فلموں سے بہتر ہے
ارطغرل ڈرامہ کو اسلامی اور انقلابی قرار دینے والے یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ ڈرامہ فحش اور بیہودہ فلموں سے بہتر ہے یہ دلیل ازحد کم عقلی کی اور جاھلانہ ہے
حیرت ہے کسی فلم یا ڈرامے کے اسلامی ہونے یا نہ ہونے یا (حلال-حرام یا مکروہ) ہونے کی دلیل قرآن سے دی جانی چاہییے یا حدیث سے دی جانی چاہییے --مگر افسوس کہ اسلامی اور انقلابی ہونے کی دلیل نہ قرآن سے بتائی جا رہی ہے نہ حدیث مبارکہ سے ڈرامے کی نسبت صرف بیہودہ اور فحش ڈراموں اور فلموں سے دی جا رہی ہے---حیرت ہے اس گھسی پٹی دلیل پر جو ڈرامہ کو اسلامی یا انقلابی قرار دینے پر دی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

ایسی دلیل ناسمجھ اور کم عقل ہی دے سکتے ہیں۔یہ تو ایسی بات ہوئی کہ کسی شخص کے سچے اور نیک ہونے کی گواہی مانگی جائے  تو دوسرا یہ دلیل دے کہ فلاں شخص کے نیک ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ بیہودہ اور  گندے لوگوں سے زیادہ بہتر ہے--تو بتائیے بھلا یہ گواہی درست ہوگی۔
کیا کسی خاص شخص مثلا زید کو نیک اور اچھا صرف اس بات سے مانا جا سکتا ہے کہ زید گندے اور بیہودہ لوگوں سے بہتر ہے۔

اگر زید گندے اور بیہودہ لوگوں سے بہتر ہے تو ثابت تو یہی ہوا کہ زید بھی گندہ اور بیہودہ ہی ہے مگر کم گندہ ہے کم بیہودہ ہے--اب یہ دلیل درست نہ ہوگی۔کیا زید کے اچھے ہونے کی نسبت گندوں سے مثال دے کر دی جا سکتی ہے۔۔ہرگز نہیں
ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب سے ارطغرل ڈرامہ کے جائز یا ناجائز ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ اس ڈرامے کو آپ مکمل حلال ڈرامہ نہیں کہہ سکتے--ڈرامے بہرحال یا تو زیادہ حرام ہوتے ہیں یا کم حرام۔

۔۔بہرحال حرام ہی ہوتے ہیں---پھر ڈاکٹر صاحب نے ارطغرل میں پائی جانے والی حرام باتوں موسیقی بے پردگی اور نامحرم سے گلے لگنے کے مناظر کا ذکر کیا--یہ سب غیر اسلامی طریق ہیں
2-اس ڈرامہ میں اسلامی تعلیمات اور نیکی کی باتیں بتائی گئی ہیں
جو لوگ یہ دلیل (درجہ بالا) دیتے ہیں وہ نہایت بددیانتی سے کام لیتے ہیں۔۔

۔۔
یہ انتہائی بد دیانتی ہے کہ کسی شے کا مثبت پہلو تو کسی کے سامنے بڑھ بڑھ کر پیش کیا جائے مگر اسی شے کا تاریک پہلو نہ اسکا ذکر تک نہ کیا جائے
ایک پہلو دکھا دیا جائے دوسرا پہلو نہ دکھایا جائے--یہ سراسر چیٹنگ ہے دھوکہ ہے فراڈ ہے
ڈرامہ میں نیکی کی باتیں ہیں تو حرام باتیں (میوزک-بے پردگی-نامحرم سے گلے لگنے کے سین) بھی تو شامل ہیں اسکا ذکر کیوں نہیں کرتے
ایک پہلو بیان کرنا دوسرا چھوڑ دینا یہودیانہ طریق ہے اور علامہ اقبال نے سچ ہی کہا تھا بعض مسلمانوں کے بارے میں کہ
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
3--اس ڈرامہ سے جذبہ جہاد پیدا ہو رہا ہے
متاثر ہونے کے لیے قرآن پاک اور احادیث مبارکہ اور علماء و بزرگان اور سکالرز کی تحریرات و تقاریر سے استفادہ تو جائز ہے -ان سے متاثر ہونا درست ہے
مگر ڈراموں سے سبق لینا--وہ بھی اداکاروں سے جو پیسے کی خاطر دوسرے ڈراموں اور فلموں میں غیر اخلاقی حرکات بھی فلمبند کروا لیتے ہیں
ایسے اداکاروں کی اداکاری سے کیا اخلاقیات پیدا ہو سکتی ہیں ہر گز کچھ بھی نہیں۔

حیرت ہے کیا اسلامی تعلیمات ہم ان اداکاروں سے سیکھیں گے
ان اداکاروں سے جن کے قول وفعل میں جی بھر کے تضاد ہو---
کیا ایک عورت دینی محفل میں تو باپردہ ہو مگر دوسری کسی محفل میں بے پردہ ہو جائے یا اپنے فیس بک یا انسٹا گرام پر اپنی نامناسب تصاویر شئیر کر دے تو اس سے کوئی باحیا انسان متاثر ہو سکتا ہے
ایک فلمی اداکار اور اداکارہ ڈرامے میں اسلام کی باتیں کریں اور پھر ڈرامے میں ہی کئی بار خوب گلے لگیں اور اس نامحرم کے بغل گیر ہونے کی حرکت کو کروڑوں بار لوگ دیکھیں(ارطغرل ڈرامہ میں)---کیا یہ سب اسلامی انداز کہلا سکتا ہے۔

کیا ایسے اداکاروں سے ہم نیکی کے سبق حاصل کریں گے
4--ڈرامہ کی چند خرابیوں کی وجہ سے اس پر تنقید  درست نہیں
بعض لوگ کہتے ہیں کہ چند خرابیوں یا بری باتوں کی وجہ سے ہمیں ڈرامے پر تنقید نہیں کرنی چاہییےمگر یہ تصور بھی غلط ہے۔جب کسی فلم یا ڈرامہ کو اسلامی و اخلاقی قرار دینے کی بات ہوگی تو چند خرابیوں کو بھی خرابیاں ہی مانا جائے گا---حلال کھانے میں صرف %10 حرام ملا لیا جائے تو پورا کھانا حرام ہو جائے گا۔

پھر بعض لوگ کہتے ہیں کہ بے حیائی میوزک تو دوسرے ڈراموں میں بھی ہے--پھر ارطغرل پر ہی تنقید کیوں تو اسکا جواب یہ ہے۔۔۔۔کہ میوزک یا بے حیائی کسی بھی ڈرامہ میں ہو چاہے پاکستانی چاہے انڈین چاہے ارطغرل میں وہ بہرحال ناپسندیدہ ڈرامہ کہلائے گا---پھر ارطغرل پر تنقید اسلیئے زیادہ کی جاتی ہے کہ اسے اسلامی ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے اسی وجہ سے اس پر تنقید کی جاتی ہے
کسی ڈرامے کو دنیاوی ڈرامہ سمجھ کر دیکھنا ہے تو ضرور دیکھیں--- اس ڈرامے کو گندے اور بیہودہ ڈراموں سے اچھا بھی کہہ سکتے ہیں--کہہ سکتے ہیں کہ ڈرامے سے کچھ تاریخ کا بھی پتہ چل جاتا ہے مگر ڈرامے کو اسلامی اور مکمل حلال و جائز ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا
ڈرامہ بہرحال اسلامی مذ ھبی نکتہ نظر سے جائز اور حلال کام نہیں ہے-- ڈرامہ کے بارے میں علماء کی رائے بہرجال درست ہے کہ ڈرامہ حرام ہی ہوتا ہے
اچھے سے اچھا ڈرامہ بھی ہو تو 100 فیصد حلال اور جائز نہیں ہوسکتا--کیونکہ ایکٹنگ اور اداکاری بالکل مکمل حقیقی جائز کام نہیں ہے
اولیائے کرام اور عصر حاضر کے علماء میں کوئی ایک بھی مثال نہ ملے گی کہ کسی ولی اللہ یا عالم نے کسی فلم یا ڈرامے میں کام کیا ہو----ہاں یہ مثالیں ضرور ملیں گی کہ کسی نے فلم ڈرامہ یا سٹیج کی رنگین دنیا چھوڑ کر درویشی اختیار کر لی ہو--بہت سے اداکاروں نے جب فلمی دنیا چھوڑی اور تبلیغ دین یا نیکی کی راہ اپنائی انہوں نے خود اقرار کیا کہ مصنوعی اور رنگین دنیا چھوڑ کر اب انہیں پرسکون زندگی میسر آئے ہے جس سے اطمینان قلب بھی نصیب ہوا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :