کمزور معیشیت-اندرونی اسباب بڑی وجہ

جمعرات 11 جون 2020

Dr Maqbool Ahmad Siddiqi

ڈاکٹر مقبول احمد صدیق

چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک مضمون پڑھا جسمیں  ایک شخص کی روزانہ کی عادات سے متعلقہ ایک چھوٹا سا واقعہ لکھا تھا کہ
ایک شخص "گری اے سی" کی ٹھنڈک سے سو کر صبح "سیکو 5" کے الارم سے اٹھتا ہے "کولگیٹ" سے برش کرتا ہے "جیلیٹ" سے شیو کر کے "لکس" صابن اور "ڈوو" شیمپو سے نہاتا ہے اور نہانے کے بعد "لیوس" کی پینٹ اور "پولو" کی شرٹ اور "گوکی" کے شوز اور "جوکی" کی جرابیں پہن لیتا ہے چہرہ پر "نیویآ" کریم لگا کر "نیسلے فوڈ" کا ناشتہ کر کے "ہنڈا"  کی گاڑی میں بیٹھ کر کام پر چلا جاتا ہے
واقعہ کچھ لمبا ہے آخر پر لکھا ہے کہ وہ شخص "آئی فون" اور "زونگ سم کا" استعمال کرتے ہوئے "میکڈونلڈز" سے فاسٹ فوڈ استعمال کرتا ہے-آخر میں ہاتھ میں "کوک" کا گلاس پکڑے ہوئے یہ خبر آجاتی ہے کہ پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابل پر مزید گر گیا ہے وہ یہ سن کر آگ بگولا ہوجاتا ہے اور اونچی آواز میں بولتا ہے کہ آخر کیوں پاکستان کی کرنسی گرتی ہی جا رہی ہے
اوپر کے واقعہ میں تمام کمپنیاں جو لکھی گئیں ہیں وہ سب غیر ملکی ہیں جن کا استعمال ایک پاکستانی کرتا ہوا بتایا جا رہا ہے
معیشیت نیچے جانے کی وجہ
اب اسطرح کے الفاظ سے مضمون نگار یہ بتانا چاہتا ہے کہ ہم پاکستان میں غیر ملکی پراڈکٹس کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں جسکی وجہ سے بہت سا بزنس غیر ملکی کمپنیاں لے جاتی ہیں اور اسطرح ہمارے ملک کا اپنا بزنس اپنی معیشیت بہت نیچے چلی جاتی ہے
 یہ تجزیہ کافی حد تک درست ہے مگر ہمیں سوچنا چاہییے آخر کیا وجہ کیا ہے کہ پاکستانی اپنے ملک کی کمپنیوں کے ہوتے ہوئے بھی غیر ملکی کمپنیوں اور انکی پراڈکٹس جی بھر کر خریدتے ہیں
 وہ مہنگی بھی ہو جائیں تو انکی طلب میں کمی نہیں آتی اور یمارے ملک کی کمپنیاں یا پراڈکٹس ان کا بھرپور مقابلہ نہیں کر پاتیں
اب حقیقت یہ سامنے آئی کہ پاکستانی معیشیت کے نیچے جانے کی بڑی وجوہات (جیسا کہ اوپر والے واقعہ سے ظاہر ہے کہ) اندرونی ہی ہیں یعنی ہم پاکستانیوں کا اپنا ہی رویہ ہے ہم میں ہی کچھ کمی ہے کہ ہم اپنوں کی سستی پراڈکٹس کے مقابل دوسروں کی مہنگی پراڈکٹس کو ترجیح دے دیتے ہیں
ترقی کا پہلا راز اندر کو ٹھیک کرنا ہے
کسی بھی ملک کی ترقی یا پستی میں اگرچہ دوسرے ممالک یا بیرونی عوامل کا بھی کچھ اثر ضرور ہوتا ہے مگر بہرحال اول اور زیادہ تر کردار اندرونی عوامل کا ہی ہوتا ہے
اور اندرونی عوامل معاشیات کے حوالے سے حکمرانوں اور تاجروں دونوں کا ہی بہت اہم رول ہوتا ہے
اول حکمرانوں کا کردار
دوم تاجروں کا کردار
ملک ترقی کر ہی نہیں سکتا اگر یہ دونوں عوامل اپنی اپنی سطح پر کردار ادا نہ کریں
اندرونی عوامل-اول اور بڑا کردار حکومت کا ہوتا ہے
ان دونوں عوامل میں حکومت کا کردار اولا اور زیادہ بڑا ہوتا ہے---کیونکہ لیڈر یا لیڈرز اچھے ہوں گے معاشی اصلاحات اور منصوبہ بندی اچھی ہوگی تو اچھا بجٹ بنے گا اور ملکی قوانین بھی اچھے ہوں گے عملدرآمد بھی یقینی ہوگا تو ملک میں اعتماد کی فضا پھیلے گی
اور اسطرح تاجر بھی پرسکون ہو کر بزنس کر سکیں گے اور حکومت کے ساتھ بھرہور تعاون کریں گے
حکومت اور عوام مل جائیں تو معیشیت ترقی کر سکتی ہے
اتحاد وہی اچھا جو مثبت ہو
تاہم حکومت اور عوام کا اتحاد اگر اچھائی پر ہی ہوگا  تبھی بہتری ہوگی
اگر اتحاد یہ ہوگا کہ مل کر ملگ کو لوٹو تو یہ اتحاد قوم کو لے ڈوبے گا
اگر اتحاد یہ ہوگا کہ مل کر ملک کو سنوارو تو ملک کا بیڑا پار ہوجائے گا
پس حکومت اور تاجروں کا مثبت اتحاد ضروری ہے سب ذاتی سوچوں سے بلند ہوکر قومی سوچ اپنائیں گے تو پاکستان کی معیشیت ترقی کر سکتی ہے
معیشیت کی ترقی-دو اخلاقی خوبیاں
اب مثبت اتحاد کیسے ہو
کسی بھی اچھے معاشرہ میں دو اخلاقی خوبیاں لازمی ہونی چاہییں
 ان خوبیوں کی ہمارا مذھب خصوصیت سے تلقین بھی کرتا ہے
اول سچ کی عادت
دوم انصاف یا مساوات
اب پہلے خاص طور پر حکمرانوں کو ان خوبیوں کو اہنانا ہو گا کیونکہ بڑوں کا اثر چھوٹوں پر پڑتا ہے--لیڈرز سے ہی عوام بھی متاثر ہوتی ہے
اب حکمران اگر سچ کو اختیار کر لیں اور حکمرانوں کے سچے ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہوگی کہ انکے قول وفعل میں تضاد نہ ہو -- نیز وہ اپنے وعدوں اور عہدوں کا پاس کرنے والے ہوں -
نیز وہ انصاف اور مساوات سے کام لیں قوانین امیر اور غریب کے لیے یکساں ہوں---تعلیم اور ترقی کے مواقع ہر اک کو یکساں ملیں گے---تو ملک معاشی ترقی کرے گا
زبان رنگ علاقہ نسل مذھب مسلک کو بھلا کر ہر اک سے ایک جیسا سلوک قوموں کی تعمیر وترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے
بدقسمتی سے پاکستان میں ہمیں سچے اور کھرے انصاف پسند حکمران بہت ہی کم ملے ہیں --ہمارے معاشرے میں امیروں اور غریبوں کے لیے انصاف ایک جیسا نہیں--اور ملازمتوں اور کاروباری کوٹوں میں بھی اقربا پروری ہوتی ہے جس سے اکثر حقداروں کو انکا حق مل نہیں پاتا نتیجہ یہ ہے کہ حقدار مایوس ہو جاتے ہیں--بہت سے قابل اور تجربہ کار لوگ اسی وجہ سے بیرون ملک چلے جاتے ہیں برین ڈرین یعنی قابل ذھن ملک سے نکل جاتے ہیں
دوسری طرف
تاجروں کو دیکھ لیں وہ بھی ان دو خرابیوں جھوٹ اور ناانصافی سے کام لیتے ہیں
مثلا
1--تاجر حکومت سے سچ نہیں بولتے اہنی درست آمدن اور اثاثے ظاہر نہیں کرتے--اس جھوٹ کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ملک کو بہت کم ٹیکس وصول ہوتا ہے
2--تاجر اپنے کسٹمرز سے لین دین کرتے وقت مختلف دھوکوں اور ملاوٹ سے کام لیتے ہیں--پورے وزن کا دعوی مگر وزن میں کمی بھی ایک بڑی خرابی ہے
3--پراڈکٹس کی خوبیاں تو ضرور بتانا مگر خامیاں نہ بتانا یا چھپا لینا اسوجہ سے بہت سے شریف اور ایماندار تاجر بھی اس سے نقصان اٹھاتے ہیں
4-تاجر یا ادارے اشتہارات شائع کرتے وقت بھی بعض اوقات  مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں--کسی پراڈکٹ کا ایک پہلو بہت زیادہ نمایاں کرکے اشتہار میں دکھاتے ہیں کسٹمر پراڈکٹ خریدنے جائے تو اس پر اصل حقیقت کچھ اور ہی کھلتی ہے اس سے قوم کا مزاج بگڑ جاتا ہے اور چقمہ بازی کو فروغ ملتا ہے
5--اکثر پراڈکٹس کے اوپر ضروری معلومات نہیں لکھی جاتیں یا جھوٹ لکھا جاتا ہے  اوپر کچھ لکھا ہوتا ہے اندر مال اس کوالٹی کا نہیں ہوتا جسکا دعوی ہوتا ہے اس سے کسٹمرز میں بددلی پھیل جاتی ہے
6--بہت سے تاجر انصاف سے کام نہیں لیتے اپنے ملازمیں سے بے انصافی کرتے ہیں انہیں وقت پر اجرت نہیں دیتے
حدیث نبوی ہے کہ مزدور کی مزدوری اسکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو مگر ہمارے ہاں بہت سے کاروباری حضرات پسینہ تو کیا خون خشک ہونے کے بعد بھی پوری اجرت نہیں دیتے یا کچھ حق مار جاتے ہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :