میڈیا کا کام خبریں پھیلانا نہیں رہنمائی کرنا بھی ہے

پیر 15 جون 2020

Dr Maqbool Ahmad Siddiqi

ڈاکٹر مقبول احمد صدیق

آجکل ایک امریکی خاتون صحافی سنتھیارچی جو 2010 سے پاکستان میں مقیم ہیں انکے پیپلز پارٹی کے تین سینیئر سیاستدانوں پر غیر اخلاقی ہراسگی کے سنگین الزامات کی خبریں میڈیا میں سرگرم ہیں
اصولا جو خبریں الزامات پر مبنی ہوں مثلا کوئی شخص کسی دوسرے شخص یا ادارے پر الزام لگائے اسے فورا میڈیا میں نشر نہیں کرنا چاہییے--کیونکہ کیا وہ الزام درست بھی ہے یا نہیں یا کیا کسی شخص پارٹی یا ادارے کو بدنام کرنے کی کوئی سازش تو نہیں ہو رہی یہ سب کچھ جاننا پہلے ضروری ہوتا ہے شواہد گواہ اور تفتیش کے بعد ہی پتہ چلتا ہے کہ سچ کیا تھا جھوٹ کیا تھا
اور کسی معاملہ کی تفتیش کرنا اور سچ اور جھوٹ کی پرکھ کرنا پولیس یا متعلقہ اداروں کا کام ہوتا ہے
پس کسی شخص کے الزام کو فورا میڈیا میں کھول کر یا نمایاں کر کے نشر نہیں کرنا چاہییے یہ اخلاقی لحاظ سے غلط ہے
خبر پھیلانے پر ایک غلط نظریہ
بعض لوگ کہتے ہیں کہ میڈیا کا کام معاشرے میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ دکھانا ہے جو کوئی بھی کچھ بھی کہہ رہا ہے وہ دکھانا ہے کوئی الزام لگا رہا ہے یا ڈانس کر رہا ہے کوئی اچھی باتیں کر رہا ہے یا گندی باتیں یا حرکتیں کر رہا ہے یا کر رہی ہے وہ سب کچھ دکھانا ہوتا ہے--معاشرے کے اندر جو بھی ہو رہا ہو اسے من وعن نشر کرنا ہوتا ہے
کیا اچھا ہو رہا ہے کیا برا یا کیا سچ ہے کیا جھوٹ اسکا فیصلہ تو پولیس یا عدالتوں کا کام ہے یا عوام خود سن اور دیکھ کر فیصلہ کریں
میڈیا کا کام تو معاشرے میں ہونے والی ہر اہم حرکت کو بتانا یا دکھانا ہے-- من وعن لوگوں تک پہنچانا ہے --  اس کو نشر کرنا ہوتا ہے
 اگر سنتھیارچی نے الزامات لگائے ہیں تو میڈیا نے اس خبر کو نشر کر دیا تو کچھ برا نہ کیا کیونکہ میڈیا نے سنتھیارچی کو بولتے ہوئے ہی تو دکھایا ہے اسکے بیان کو نشر ہی تو کیا ہے
 مگر یہ سوچ یہ نظریہ ازحد غلط ہے
اخلاقی لحاظ سے بھی اور صحافتی لحاظ سے بھی غلط نظریہ ہے
خبریں پھیلائیے مگر قوانین کے تحت
جسطرح کسی بھی ادارے کے اپنے قانون یا اپنے اصول و قوائد ہوتے  ہیں اسی طرح خبر کو شائع کرنا نشر کرنا اسے پھیلانا اسکے بھی کچھ قوانین اور اصول ہوتے ہیں
کسی ٹی وی یا کسی بھی اخبار میں جونہی کوئی خبر موصول ہوتی ہے تو اسے من وعن شائع یا نشر نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کرنا چاہییے
ایڈیٹر کا کام یہی تو ہوتا ہے کہ کسی واقعہ بیان یا خبر کی تمام تفصیلات کو دیکھنے کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے کہ خبر کا کونسا حصہ شائع کرنا ہے اور کونسا نہیں--یا خبر شائع کرنی بھی چاہیے یا نہیں
اگر کسی خبر کے نشر کرنے سے کوئی فساد برپا ہوتا ہو یا قوم کی اخلاقیات بگڑنے کا امکان ہو تو وہ خبر نشر نہیں کی جاتی
میڈیا کا کام عوام کی رہنمائی کرنا بھی ہے
میڈیا کے دو کام ہوتے ہیں
1-خبریں پھیلانا
2-درست رہنمائی کرنا
میڈیا میں خبریں محض سن کر دیکھ کر فورا بلا سوچے سمجھے نشر نہیں کی جاتیں  بلکہ مذھبی اخلاقی اور ملکی قوانین کو مدنظر رکھ کر ہی مکمل ذمہ داری سے شائع کی جاتیں ہیں
کوئی بھی ادارہ کوئی بھی اخبار خواہ مخواہ خبروں کو سنتے ہی آگے فارورڈ نہیں کرتا
میڈیا کا کام عوام کی رہنمائی کرنا بھی ہے ہوتا ہے اسی وجہ سے اخبارات میں اداریہ بھی ہوتا ہے نیز مختلف ماہرین کے تجزیے تبصرے اور مضامیں اور کالم بھی شائع کیے جاتے ہیں اور ٹی وی پر ٹاک شوز بھی رکھے جاتے ہیں
غلط یا نامناسب خبر-جواب طلبی ہو سکتی ہے
ایک اور بات یاد رکھیے کہ اگر کوئی خبر ایسی شائع ہو جائے جسمیں کوئی سنگین غلطی یا خرابی ہو تو اسکے شائع کرنے پر متعلقہ ادارے کی جوابدھی بھی ہو سکتی ہے اور سزا بھی مل سکتی ہے
خبر اگر سچی بھی ہو تو اسے فورا کوئی بھی شائع نہیں کرتا --خبر کو پہلے دیکھا جاتا ہے اور پھر پھیلایا جاتا ہے
1--ایک بار 2012 میں ایک معروف اداکارہ مایا خان نے کراچی میں کسی خاص ہارک کا صبح صبح وزٹ کیا اور پروگرام ریکارڈ کیا --یہ اداکارہ پارک میں جونہی کسی جوان لڑکے یا لڑکی کو علیحدہ اکٹھے بیٹھا دیکھتی فورا اسکے قریب پہنچ جاتی اور فورا ان سے سوال وجواب شروع کر دیتی--یہ اداکارہ دکھانا چاہتی تھی اور لوگوں کو بتا رہی تھی کہ دیکھو معاشرہ میں کسقدر بے حیائی پھیلی ہے صبح صبح پارکوں میں لڑکے لڑکیاں سیر کرنے نہیں بلکہ ڈیٹ پر آتے ہیں--اور علیحدہ میل جول رکھتے ہیں
اب جونہی یہ پروگرام ٹی وی پر نشر ہوا تو لوگوں نے اس ٹی وی پر فون کر کے احتجاج ریکارڈ کروایا کہ کسی لڑکی کا کیا حق ہے کہ وہ کسی لڑکے اور لڑکی کے قریب فورا چلی جائے انکی پرائیوہسی متاثر کرے اور ان سے پوچھ گچھ کرے یہ احتجاج اسقدر بڑھا کہ آخر کار مایا خان کو ٹی وی پر آ کر ناظرین سے معافی مانگنا پڑی اور سماء ٹی وی نے ناظرین سے معافی بھی مانگی اس یقین دھانی کے ساتھ کہ آئیندہ ایسا پروگرام نشر نہیں کیا جائے گا
2-ایک بار ایک اخبار میں خبر نشر ہوئی جسمیں پولیس والے امتحانی سنٹر پر گئے انہوں نے دیکھا کہ اساتذہ کھلم کھلا نقل لگوا رہے ہیں پولیس والوں تو دو تین اساتذہ کو فورا مرغا بنا کر انکی تصاویر کھنچ لیں اور تصاویر اخبار میں شائع کروا دیں--اب یہ واقعہ سچا تھا مگر ان تصاویرکا اخبار میں چھپنا تھا کہ پورے صوبہ میں اساتذہ نے ہڑتال کر دی
اوپر والے دونوں واقعات سچے ہیں جو معاشرے میں ہو رہے تھے مگر انہیں نمایاں کر کے اخبار یا ٹی وی میں نشر کرنا سنگین غلطی ثابت ہوا
اسی طرح اگر کسی جگہ کسی کی نجی پارٹی ہو رہی ہو اسمیں کوئی عورت بے ہودہ لباس میں ڈانس کر رہی ہو تو اسکی نے ہودہ تصویر اخبار میں نشر کرنا بھی ازحد غیر اخلاقی حرکت ہوگی ---اسی طرح کسی سیاسی شخصیت یا عالم دین کا کوئی بیان ایسا ہو جو لوگوں کے جذبات کو ابھار کر فتنہ وفساد کا باعث بن سکتا ہو تو اخبار یا ٹی وی اس بیان کو بھی نشر نہیں کرتے--اسی طرح خبریں نشر کرتے وقت عوام کی ذاتی زندگی یا پرائیویسی کا بھی بھرہور خیال رکھا جاتا ہے
الغرض میڈیا کا کام صرف خبروں کو نشر کرنا ہی نہیں ہوتا بلکہ اخلاقی اور صحافتی قوانین کے تحت نشر کرنا ہوتا ہے--نیز عوام کی  درست سمت میں رہنمائی کرنا بھی ہوتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :