"وبائیں ،انسانی زندگی اور تدارک"

جمعرات 4 جون 2020

Dr Mohammad Husnain

ڈاکٹر محمد حسنین

عالمگیر وبا ایک ایسی وبا یا مرض کو کہتے ہیں جو ایک سے دوسرے انسان کو ہوتے ہوئے کئی ملکوں میں پھیل جائے۔کرونا وائرس نے آج دنیا بھر میں زندگی بسر کرنے والے لوگوں کا طرز زندگی یکساں تبدیل کر دیا ہے۔لیکن تاریخ میں گزرنے والی وبائیں اس سےکہیں زیادہ بھیانک اور مہلک تھیں۔تمام تر اعدادو شمار کے باوجود یہ وائرس  اتنا خطرناک نہیں ہےجتنا اس سے پیدا ہونے والا خوف اور ماحول بڑا ہے۔

آپ اسے قانون فطرت کہہ لیں یا حضرت انسان کی اپنی غلطیاں اورکوتاہیاں کہہ لیں کہ تقریبا ہر سو سال کے بعدایک ایسی ہی خوفناک بیماری وبا کی صورت اختیار کر لیتی ہےکہ جس سے لاکھوں انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔یہ سب قدرت کی طرف سے حضرت انسان کوایک وارننگ ہوتی ہے کہ وہ اب بھی سنبھل جائے۔

(جاری ہے)

اپنی توجہ اپنے خالق حقیقی کی طرف کرے۔مگر انسان نہیں سنبھلتا ۔

شاید یہ اس کی فطرت میں شامل ہے۔اس کرونا وائرس سے قبل دنیا میں متعدد بیماریاں وباؤں کا روپ دھار چکی ہیں۔اگر آپ نےعالمی وبا ہسپانوی فلو کے بارے میں پہلے نہیں سنا تھا تو اب کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد غالبا مان گئے ہوں گے کہ بیسویں صدی کے اوائل میں بھی دنیا ایک مہلک وائرس کا شکار ہو چکی ہے۔عالمی وباؤں کے نام سے جانی جانے والی اس وبا کے ہاتھوں1918 ءسے  1920 ء محض دو برسوں میں پانچ کروڑ سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔

سائنسدانوں اور مؤرخین کا خیال ہے کہ دنیاکی  اس وقت ایک عشاریہ آٹھ ارب کی کل آبادی کاتیسرا حصہ اس وبا سے متاثر ہوا تھا۔"نیند کی وبا"کل ہلاکتیں15 لاکھ۔1915ء سے 1926 ءتک  بھڑکنے والی اس وبا کا باعث ایک جرثومہ تھا جو دماغ کے اندر جا کے حملہ کرتا تھا۔اس بیماری کو گردن توڑ بخار کی ایک  شکل سمجھا جا سکتا ہے اور اس کے مریض پر شدید غنودگی طاری ہو جاتی ہے۔

مرض کی شدت اس قدر تیز ہوتی ہے کہ مریض اس میں بت کا بت بنا رہ جاتا ہے۔"ایرانی طاؤن" ہلاکتیں 20 لاکھ سے زیادہ-ویسے تو طاؤن کی بیماری وقتا فوقتا سر اٹھاتھی رہی ہے لیکن 1972 ءمیں ایران میں ایک ایسی وبا پھوٹ پڑی جس کا اس زمانے میں کوئی علاج نا تھا۔ "ایچ آئی وی/ایڈز"ہلاکتیں تین کروڑ۔اس بیماری کا وائرس مغربی افریقہ میں چیمپنیز سےانسان میں منتقل ہوا اور پھر وہاں سے بقیہ دنیا میں پھیل گیا۔

"سیاہ موت" ہلاکتیں سات کروڑ سے بیس کروڑ۔انسانی تاریخ کبھی اتنے بڑے سانحے سے دو چار نہیں ہوئی۔1347 ء سے1351 ء تک طاؤن کی اس وبا نےدنیا کو اس قدر متاثرکیاکہ کہا جاتا ہے کہ اگر یہ وبا نہ آئی ہوتی تو اج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔1918 ء میں انفلوئنزا کی وبا پھیلی جس نے کم از کم5 کروڑ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا یعنی اس وقت دنیا کی ایک تہائی آبادی کو۔

بیسویں صدی نےابیولا اورنیپا وائرس جیسی وبائیں دیکھیں۔2000ء کی دہائی میں سارس اور مرس نے تقریبا 20 ممالک کو زد میں لیا۔یہ تمام معلومات بیان کرنے کا مقصد ایک تقابلی جائزہ پیش کرنا تھا کہ کرونا وائرس اس قدر خطرناک نہیں،اس کا مقابلہ کرنا ہو گا۔لاک ڈاؤن ہر مسئلے کا حل نہیں۔ہم ترقی پذیر ملک کا حصہ ہیں جہاں غربت کی فیصدی مقدار سب اہل علم جانتے ہیں۔

ہم سب اہل علم کو مل کر اب عوام کو یہ شعور دینے کی بے حد ضرورت ہے کہ ہماری قومی اور ملی ذمہ داریاں کیا ہیں؟قوموں کی بقا کا تعلق شعوروآگاہی سے ہوتا ہے۔یہ وائرس ہمارے ملک میں جڑ پکڑ چکا ہے اور ہمیں اس کے ساتھ تقریبا ایک سال سے زیادہ عرصہ رہنا ہو گا۔لاک ڈاؤن ایک سال کے لیے ناممکن ہے۔اب ہمیں خود سے ایک ذمہ دار شہری کی طرح اس وائرس سے لڑنا ہو گا۔

ہمیں قدیم طرز زندگی کی طرف جانا ہو گا۔خالص غذائیں،صاف آب و ہوا اور خالص تعلق باللہ ہی موجودہ وبا کا واحد حل ہے۔خود کو اینٹی بائیوٹک کے چنگل سے آزاد کریں۔آپ کو اپنی زندگی میں غذائیت سے بھرپور کھانے کی مقدار میں اضافہ کرنا ہو گا۔میں نے ستارہ امتیازپروفیسرڈاکٹرطلعت نصیر پاشا صاحب سے جب غذا کے بارے میں ایک دن دریافت  کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ کھانا بہترہے جو ہم کو ہمارے دادا، دادی دیا کرتے تھے۔

برگر،پیزا،کولڈ ڈرنکس جیسے فاسٹ فوڈ کو بھول جانا ہو گا۔ہمیں اپنے برتنوں کو تبدیل کر کےروایتی طرز کے برتنوں کواپنی زندگی میں جگہ دینی ہو گی۔ہمیں اپنے قدیم رسم و رواج کی طرف جانے کی ضرورت ہے۔نئی نسل کو یہ پیغام دینے کی بے حدضرورت ہے کہ ہم نے اب مل کر کرونا وائرس کا مقابلہ کرنا ہے۔ہر فرد کا اخلاقی ،قومی اور ملی فریضہ ہے کہ  حکومت کی حفاظتی تدابیر پر عمل کرے۔اگر ہم مل کر اس شعوری پیغام کو عام کریں اور عمل کریں تویقینی طور پر ہم اس وبا کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔احتیاط کریں ،عمل کریں اور زندہ رہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :