ذمہ دار کون؟

بدھ 1 جولائی 2020

Dr Mohammad Husnain

ڈاکٹر محمد حسنین

جب سے میں نے اس وطن عزیز میں حوش سنبھالا ہر حکومت اور حکمرانوں سے کچھ باتیں ضرور سنی۔ملک نازک صورت حال سے گزر رہا ہے۔ملک کو بہت سے خطرات کا سامنا ہے۔ملک کا خزانہ خالی ہے۔پاکستان کے ہر باشندے کومشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔معاشی صورت حال کی ذمہ دار پچھلی حکومت یا حکومتیں ہیں۔تحریک انصاف کی موجودہ حکومت جس کاالیکشن میں  یہ دعویٰ تھا کہ ہم 90 دن میں سب کچھ تبدیل کر دیں گے۔

وفاقی وزیر اسد عمر تو یہاں تک کہتے تھے کہ اگر  میں ایسا نہ کر سکا  تو سیاست اور سیاسی زندگی سے استعفٰی دے دوں گا۔بدقسمتی سے اس بات میں دورائے نہیں کہ ہمارے ہاں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اکثریت قومی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد کو سامنے رکھ کر جذباتی فیصلے کرتےہیں ۔ جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔

(جاری ہے)

لیکن حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کی موجودہ کیفیت اور بد حالی میں جہاں  حکمرانوں  اور مختلف با اثر اداروں نے اس کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی وہی اس ملک میں رہنے والے لوگوں نے بھی اس کی بربادی میں حصہ ڈالا ہے۔

معاشرے کی ہر اکائی اور شعبہ پاکستان کی موجودہ صورت گری میں برابر کا قصور وار ہے۔پاکستان کی معاشی حالت انتہائی کمزور ہے۔برطانیہ میں قائم اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ(ای آئی یو) نے پیش گوئی کی ہے کہ کووڈ-19 عالمی وبا کے اثرات کو سامنے رکھیں تو پاکستان کی جی ڈی پی موجودہ مالی سال 20-2019 میں 1.6 فیصد تک کم ہو جائے گی اور اگلے سال 2021 میں 2.1 فیصد تک بڑھے گی۔

جبکہ آئی ایم ایف اور دیگر کثیرالجہتی اور دو طرفہ ڈونرز کے قرضوں سے2020 - 24اور اگلے چند سالوں میں توازن ادئیگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔کرنٹ اکاؤنٹ 21-2020 میں خسارا رہے گا۔عالمی وبا سے متاثرعالمی معاشی سست روی  کے باعث 2020 میں بیرون ملک مقیم ورکرز کی ترسیل میں تیزی سے کمی ہو گی۔موجودہ  مالی سال میں بےروزگاری کی شرح کا تخمینہ 3.9 تا 14.7 فیصد لگایا گیا ہے۔

پاکستان روپے کی قدر ریجن میں سب سے زیادہ گر چکی ہے۔روپے کی قدر گرانے سے ایکسپورٹ تو بڑھی نہیں  الٹا مہنگائی نا قابل برداشت ہو چکی ہے۔
آج ہمارا معاشرہ جس کسمپرسی کا شکار ہےاس میں ہم سب کا انفرادی اور سماجی کردار برابر کا ذمہ دار ہے۔سماجی کردار کسی بھی قوم کا بنیادی اساس ہوا کرتا ہے۔جب سماجی رویے اور  اقدار کسی بھی معاشرے اور ملک کے تبدیل ہو جائیں تو وہاں آسمان سے ایسی ہی بلائیں نازل ہوتی ہیں ۔

المیہ یہ ہے کہ اس ملک کا ہر شہری ایک دوسرے کی آنکھوں میں دھول جھوکنے اور دھوکہ دینے میں مصروف ہے۔یہ ہمارا انفرادی کردار ہے۔زندگی کا کوئی شعبہ اٹھا لیں ڈاکٹر ہو یا انجنیئر،وکیل ہو یا منصف،عالم ہو یا استادہر شخص کا سماجی کردار معاشرے کے لیے سودمند نہیں۔اس وبا میں بھی پرائیویٹ سکول پوری فیس اور  وقت پر ادا نہ کرنے پر  فیس کے ساتھ جرمانہ بھی وصول کر رہے ہیں۔

عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والوں کا کردار بھی ہم سب کے سامنے ہے،جمہور کے لیے قائم ہونے والے اس ملک میں جمہوریت کا جو حشر کیا گیا سب جانتے ہیں کہ اس جمہوریت کے عمل کو بار بار کون سی قوتیں برباد کر رہی ہیں۔آج ملک میں عمران خان کی حکومت ہے۔ایک ایسی حکومت جو معاشرے میں حقیقی تبدیلی لانا چاہتی ہے۔عمران خان کی نیت پر کوئی شک نہیں۔مگر ہم من حیث القوم اپنے سماجی رویے کو تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ۔

کہا جاتا ہے کہ رائے عامہ وہ راگ ہے جس کو ہر شخص اپنے طور پر برے طریقے سے الاپتا ہے اور اس طرح ہزاروں سُروں پر مشتمل ایک بے ہنگم راگ بن جاتا ہے۔ یہ بے ہنگم راگ موجودہ حکومت کے لیے زہر قاتل سے کم نہ ہو گا۔اب تو پی ٹی آئی کے ورکرز کی  طرف سے بھی حکومت کے اقدامات پر تحفظ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔وزیر بھی اس حکومت کی کرداری پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

فواد چوہدری نے تو میڈیا پر اس بات کا اقرار کیا ہے کہ حکومت کی کرداری قابل اطمینان نہیں۔جبکہ عوام کی طرف سے یہ شدید رد عمل سامنے آرہا ہے کہ  اس ایمان دار حکومت سے چور حکومت لاکھ درجے بہتر تھی۔رائے عامہ اور وفاقی وزیروں کی اس بدلتی ہوئی صورت حال کو اگر حکومت نے سنجیدگی سے نہ لیا توحکومت کے لیے مزید مسائل بڑھ سکتے ہیں ۔اگر کرونا وائرس کے حوالے سے  مزید ہلاکتیں سامنے آتی ہیں تو ڈر ہے کہ کہیں یہ کرونا وائرس اسی حکومت کو بھی ساتھ نا لے جائے۔
اگر ہم سب اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور اس کو درست کر لیں انفرادی سطح  پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی تو پاکستانی قوم ایک عظیم قوم بن کر دنیا کے سامنے آسکتی ہے۔رب تعالٰی ہمارے اعمال اور حالات کا حامی و ناصر ہو۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :