لاک ڈاؤن میں نرمی اورہمارافرض

جمعرات 14 مئی 2020

Dr Mohammad Husnain

ڈاکٹر محمد حسنین

پنجاب حکومت نے جزوی لاک ڈاؤن میں مزید نرمی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے جس کے مطابق کھولے گئےکاروبارطے کردہ ضابطہ کار کے تحت ہفتے میں چاردن کام کریں گے۔نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ان چار دنوں میں سیلونز، حجام کی دکانیں اورجمنازیم بھی ضابطہ کار کے مطابق کھولے جا سکیں گےصوبائی حکومت کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ  تعلیمی ادارے، شادی ہالز،شاپنگ مالز اور پبلک ٹرانسپورٹ بند رہے گی۔

پاکستان میں کئی ہفتوں سے جاری کرونا وبا سے ایک بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے ہاں تباہی زیادہ سنگین  یا خوف ناک نہیں جتنی امریکہ اور یورپی ممالک میں دیکھی گئی۔ہمارے ہی خطے میں چین اور ایران میں جو ہلاکتیں دیکھی گئیں  ان کی تعداد پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان میں تعداد کم ہونے کی جو بھی طبی ،سیاسی،مزہبی یا سماجی توجیہہ بیان کی جائے یا اسے ٹیسٹوں کے کم ہونے سے تدابیر کیا جائےلیکن اصل بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں کرونا سے اموات کی تعداد 700 سے زائد ہیں جبکہ برطانیہ میں ایک دن کی تعدادپاکستان کی کل تعداد سے بھی زائد ہے۔

امریکہ کی مثال اگر ہم سامنے رکھیں توا عدادوشمار کےمطابق وہاں ہر 100 ٹیسٹ میں16 افراد میں کرونا کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ وہاں اموات کی شرح تقریباچھ فیصد ہے۔اسی طرح بھارت میں ہر100 میں سے تین افراد میں کرونا کی تصدیق ہوئی ہےاور اموات کی شرح بھی تقریبا تین فیصد ہے۔اگر بنگلہ دیش کے اعدادوشمار کو دیکھا جائے تو وہاں ہر 100 میں 12 افراد میں کرونا کی تصدیق ہوئی ہے۔

سعودی عرب کی مثال اگر ہم لیں تو وہاں پر ہر 100 میں تقریبا نو افراد میں کرونا کی تصدیق ہوئی ہےاور اموات کی شرح 0،6 فیصد ہے۔یورپ میں دیکھا جائے توسپین کے ہر100 میں 10 افراد میں کرونا کی تصدیق جبکہ اموات کی شرح 3،4 فیصد ہے۔پاکستان کے موجودہ اعدادوشمار پر اگر نظر ڈالی جائے تو پاکستان میں ہر100 میں تقریبا 10 افراد میں کرونا کی تصدیق ہوئی ہے مگر شرح اموات کم ہے۔

ان اعدادوشمار سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان میں کرونا کیسز اسی رفتار سے آگے جا رہے ہیں جس رفتار سے دنیا کے دیگرممالک  میں جا رہے ہیں۔لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ درست ہے یا غلط اس کا فیصلہ آنے والا وقت یاایام ہی بتا ئیں گے۔مگر ایک سما جیا    ت  کے طالب علم ہونے کے ناطےمیرے خیال میں یہ فیصلہ درست نہیں ہے۔مگر یہ بات بھی  حقیقت ہے کہ حکومت صرف ایک مخصوص مدت کے لیے لاک ڈاؤن کر سکتی ہے۔

حکومت بھی اتنی سختی کا مظاہرہ نہیں کرے گی کیونکہ حکومت  نے عوام کو آگاہ کر دیا ہے کہ اس بیماری کا واحدحل صرف احتیاط ہے۔اب پاکستانی عوام کو نئے معمولات کو جاننےاور اس پر عمل کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔ظاہری بات ہے کہ حکومت وقت 24 گھنٹے،365 دن ہماری حفاظت نہیں کر سکتی اور نہ کرے گی۔اب پاکستانی عوام کا مستقبل ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد احتیاط کیسے کرنی ہے۔

لاک ڈاؤن میں نرمی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اچانک کرونا ختم ہو گیا ہے اور ہم پہلے کی طرح زندگی گزارنا شروع کر دیں ۔نہیں بالکل نہیں۔وائرس ہمارے ملک میں جڑ پکڑ چکا ہےاور ہمیں اس کے ساتھ تقریبا ایک سال رہنا ہو گا ۔لاک ڈاون ایک سال کے لیے نا ممکن ہے۔اب ہمیں خود سے ایک ذمہ دار شہری کی طرح اس وائرس سے لڑنا ہو گا۔ہمیں سینکڑوں سال قدیم طرز زندگی کو اپنانا ہو گا۔

خالص غذا کھائیں،خالص مصالحہ کھائیں،آملہ،ایلوویرا،ادرک،کالی مرچ،لونگ وغیرہ پر بھروسہ  کریں اور استعمال میں لائیں۔خود کو اینٹی بائیوٹکس کے چنگل سے آزاد کریں۔آپ کو اپنی زندگی میں غذائیت سے بھرپور کھانے کی مقدار میں اضافہ کرنا ہو گا اور پیزا،برگر،کولڈ ڈرنکس جیسے فاسٹ فود کو بھول جانا ہو گا۔ہمیں اپنے برتنوں کو تبدیل کرناہو گا۔

اپنی غذا میں دودھ،دہی،گھی اور انڈے کی مقدار بڑھانا ہو گی۔مذہب فراموشی کو ختم کرنا  ہو گا۔کائنات کی اطاعت اور اس کے نظام کو دل و جان سے قبول کرنا ہو گا۔کیونکہ قدرتی آفات میں خدا  فراموشی زہر قاتل کی طرح ہوتی ہے۔ہمیں اپنی قدیم رسوم ورواج کی طرف جانے کی بے حد ضرورت ہے۔نئی نسل کو یہ پیغام دینے کی بے حد ضرورت ہے کہ ہم نے اب مل کر اس وبا کا مقابلہ کرنا ہے۔یہ سب کچھ کم از کم ایک  برس کے لیے کرنا ہو گا۔تب ہی ہم زندہ رہ سکیں گے اور جو نہیں بدلیں گے وہ مشکل میں ہوں گے۔ان تمام اموار  پر عمل کرنا ہمارا دینی و اخلاقی فرض ہے۔ہماری زندگی ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے۔احتیاط کریں، عمل کریں اور زندہ رہیں۔رب تعالیٰ ہمارے وطن عزیذکا حامی و ناصر ہو۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :