رشتے کیوں ٹوٹتے ہیں

منگل 21 ستمبر 2021

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

رشتہ چاہے میاں بیوی کا ہو یا ماں باپ کا,  بہن بھائیوں کا ہو یا دوسرے قریبی رشتہ داروں کا,  استاد اور شاگرد کے مابین ہو یا پھر دوستی کا, ہر روپ میں معاشرے کے مختلف خوشنما رنگوں کی عکاسی کرتا ہے. انسان اور انسانیت کا وجود باہمی رشتوں میں پائے جانے والے پیار اور اپنائیت کی ہی مرہون منت ہیں. ایک طرف رشتوں کا تقدس معاشرے کو پرکشش رکھتا ہے تو دوسری جانب رشتوں کی پامالی سے معاشرہ توڑ پھوڑ کا شکار ہوجاتا ہے اور رشتے بدنما روپ اختیار کر لیتے ہیں.

اس کی مثال اس طرح صادق آتی ہے کہ ایک گھر میں دو بھائی آپس میں ایک دوسرے سے متنفر ہوں گے تو وہ کسی حد تک ایک دوسرے کے خلاف قتل و غارت گری جیسے اعمال سے بھی گریز نہیں کریں گے یہاں تک کہ دشمنوں کا آلہ کار بن کر اپنی روح کی تسکین کے لیے اپنے ہی عزیزوں کو  نقصان پہنچانے کا موجب بھی ہوں گے. دراصل منافقت, موقع پرستی,ذاتی مفادات کا تحفظ اور بے جا توقعات رشتوں کی ڈور کو کمزور کرنے کی بنیادی وجوہات ہیں.

اور یہی وہ کمزوریاں ہیں جنہیں دشمن اپنے مفادات کے لیے استعمال کرسکتا ہے.
   دنیا بھر کے تمام غاصب اور مقتدر حلقوں  میں ایک بات مماثلت رکھتی ہے اور وہ ہے 'تقسیم کرو اور حکومت کرو' جس کی بنیاد ہی نفرت ہے . یہ چھوٹے پیمانے پر گھروں میں شروع کی جاتی ہے . جیسا کہ اگر ہم سیاست کے حوالے سے دیکھیں تو ایک ہی گھر میں مختلف پارٹیوں کے حامی افراد موجود ہوتے ہیں اور بعض دفعہ پارٹی کے لیے ان کی یہ محبت اپنوں کی محبت پر غالب آجاتی ہے.

اسی محبت کے پیش نظر  اکثر بات بحث مباحثوں سے لے کر تلخ کلامی کی نوبت تک پہنچتی ہے. اکثر اوقات تو رشتہ داروں میں سیاسی پارٹیوں کی خاطر مار پیٹ اور قتل و غارت گری جیسے مجرمانہ فعل بھی سرزد ہوجاتے ہیں جس کا براہ راست فائدہ پارٹیوں کو ہوتا ہے جب کہ متعلقہ افراد کے ہاتھوں صرف پچھتاوا رہ جاتا ہے. ایک قول ہے کہ جہاں رشتے بچانے مقصود ہوں وہاں بحث مباحثہ سے حتی الامکان کنارہ کشی کرنی چاہیے.

ایسے مواقع پر چاہے جیت نصیب ہو بھی جائے مگر رشتوں کی ہار ہوجاتی ہے.
     رشتوں میں دڑار پڑنے یا ٹوٹنے کی مزید وجوہات کا جائزہ لیں تو اس میں سیاست کے علاوہ ایک اور اہم ترین وجہ مذہبی تعلیمات اور فہم و فراست سے دوری بھی ہے. اگرچہ کہ سب سے بڑا مذہب انسانیت کا ہے مگر جب تک اپنے قریبی رشتوں کو لے کر محبت اور اپنائیت کا احساس پیدا نہیں ہو سکتا تب تک  انسانیت کے بلند معیار کو چھونا بھی مشکل ہے.

تمام مذاہب کے مطالعے سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بنیادی طور پر تمام مذاہب انسانیت کا درس دینے کے ساتھ ساتھ رشتوں میں محبت اور رواداری کے بھی قائل ہیں. مگر آج کل کے دور میں ان مثبت رویوں کا فقدان ہی رشتوں کی کمزوری کی سب سے بڑی وجہ ہے اور اس پر کاری ضرب خود پسندی, احساس برتری اور انا جیسے رویے لگاتے ہیں. یہ کسی بھی رشتے کو پنپنے نہیں دیتے اور آپس میں مفاہمت سے روک کر ان دراڑ زدہ رشتوں کو مزید کوکھلا کرنے کا سبب بنتے ہیں.

رشتوں کو درخت کی شاخوں سے تشبیہ دی جاسکتی ہے. ایک شاخ میں جتنی زیادہ لچک ہوگی اس کے ٹوٹ کر درخت سے جدا ہونے کے امکانات اتنے ہی کم ہوں گے. دوسری طرف یہی ٹوٹی ہوئی شاخ جلنے کے علاوہ اور کسی کام نہیں آتی.  یہی صورت حال رشتوں کو برقرار رکھنے پر منحصر ہے. رشتوں میں ہم جتنی لچک, رواداری, محبت اور  باہمی مفاہمت سے کام لیں گے رشتے اتنے ہی مضبوط اور پائیدار ہوں گے .
حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ,
سب سے جلدی جس چیز کا ثواپ پہنچتا ہے وہ نیکی کرنا اور رشتہ داری نبھانا ہے اور سب سے جلدی جن کا عذاب آتا ہے وہ بغاوت اور رشتہ داری توڑنا ہے.  ابن ماجہ 4212
بہت سے لوگ کانوں کے کچے ہوتے پیں بہت جلد دوسروں کی باتوں میں آکر بے اعتباری اور بد گمانی کا شکار ہو جاتے ہیں.

ان میں سے کچھ لوگ صبر اور متحمل مزاجی سے اپنے جذبات پر قابو تو پالیتے ہیں مگر ان کے دلوں میں ناراضگی کی ایک دراڑ ضرور پیدا ہوتی ہے جو مفاہمت  کی کوشش کیے بغیر وقت کے ساتھ گہری بھی ہوسکتی ہے , ساتھ ہی کچھ سخت مزاج اور جذباتی لوگوں میں  بے یقینی اور عدم برداشت کی یہ فضا  رشتوں کے مابین نفرت اور کدورت کا باعث بن جاتی ہے. اکثر اوقات غصہ اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ بات جھگڑوں اور خون ریزی تک بھی پہنچ جاتی ہے.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ,
ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے کوئی نصیحت فرمائیے  نبی پاک ﷺ نے فرمایا "غصہ نہ ہواکر"
انہوں نے کئی مرتبہ یہ سوال کیا اور نبی پاک ﷺ نے فرمایا "غصہ نہ ہوا کر"۔

(جاری ہے)

صحیح البخاری.  6116
رشتوں کے ٹوٹنے کے امر میں باقی عوامل کے ساتھ رشتوں میں توازن کا فقدان  بھی اہم وجہ ہے  اور یہ رشتوں کی نوعیت اور اہمیت پر منحصر ہے.

انسان کی خصلت میں ہے کہ جب بھی نیا رشتہ بننے جاتا ہے تو رشتوں کا عدم توازن بحران کو جنم دینے کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے جس کی وجہ سے نئے اور پرانے رشتوں میں بگاڑ شروع ہوتا ہے . جیسا کہ  شادی جیسے معتبر رشتے میں بندھنے کے بعد مرد اور عورت دونوں  کے لیے باقی رشتوں میں اعتدال برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے اکثر میاں بیوی کا رشتہ مضبوط ہوجاتا ہے تو والدین سے رشتہ متزلزل ہونا شروع ہوجاتا ہے اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ یہی رشتہ والدین کو اولڈ ایج ہاؤس تک پہنچانے کا ذمہ بن سکتا ہے.

دوسری صورت میں بہت چاؤ اور دھوم دھام سے کی گئی شادی کے بعد گھر بجائے خوشیوں کا گہوارہ بننے کے نفرت کی آماجاگاہ بن جاتا ہے اور جنت نذیر ہونے کے بجائے مثل دوزخ بنتا ہے. اکثر اوقات بات شکوک وشبہات کے دائروں سے نکل طلاق یا خلع تک منتج ہو جاتی ہے. بعض دفع یہی نئے رشتے بھائی بہنوں کے مابین اختلافات کی وجہ بن کر گھر کی بنیادوں کو ہلا دیتے ہیں ان سب عوامل کی ایک  وجہ رشتوں میں توازن کا فقدان ہونے کے ساتھ حقوق اور فرائض سے روگردانی اور مفاہمت و متحمل مزاجی کی کمی بھی ہے.

رشتوں کے مابین اختلافات کی ایک اور اہم ترین  وجہ جائیداد اور وراثت کی غیر منصفانہ تقسیم بھی ہے جس کے نتیجے میں تلخیاں جنم لیتی ہیں.  اس لیے جب جب رشتوں میں توازن بگڑے گا تب تب رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہیں گے .
اس امر کی چند مزید چیدہ چیدہ وجوہات بھی ہیں جن میں دوسروں کی زندگی میں بے جا مداخلت, موازنہ , حسد , ضد, مقابلے کا غیر ضروری رحجان, موبائل ,انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال قابل ذکر ہیں.

ساتھ ہی آج کل کے دور میں میاں بیوی کے رشتوں کے ٹوٹنے میں  سوشل میڈیا اور ڈراموں کی پھیلائی ہوئی غیر اسلامی فیمینزم کا بھی عمل دخل ہے.
ہمیں مندرجہ بالا قبیح اعمال کی آڑ لے کر  رشتوں کو ایک دوسروں کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہیے بلکہ آپس میں دوستی,صلہ رحمی, اعتبار, احساس , اور بھروسا  جیسے رویوں کو ترجیح دینی چاہیے. رشتوں کو مضبوط رکھنے کے لیے بغیر چھوٹے بڑے کی تمیز کے عزت و احترام اولین شرط ہے.
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں ہر مسئلے کا لائحہ عمل موجود ہے جن  پر عمل کرکے زندگی کی بہت سے مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے.

رشتوں کو بھی اسلام کے متعین کردہ حقوق و فرائض کی حدود و قیود میں رہ کر ہی حل کرنا چاہیے. اس طرح رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ بہت حد تک کم کی جا سکتی ہے. یاد رکھیں رشتے  قیمتی موتی کی مانند ہوتے ہیں. اگر کبھی موتی گر کر بکھر جانے پر ہم اٹھا لیتے ہیں بالکل اسی طرح بکھرے رشتوں کو بھی تھوڑا سا جھک کر انہیں سنھبالنے کی  ضرورت ہے.
نبی کریم حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ہے کہ
"اگر جھک جانے (یعنی عاجزی اختیار کرنے) سے تمہاری عزت گھٹ جائے تو قیامت کے دن مجھ سے لے لینا".مسلم , 784

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :