یوم آزادی، کیا ہم آزاد ہیں ؟

بدھ 11 اگست 2021

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

چودہ اگست یعنی پاکستان کا یوم آزادی, ایک عام تاریخ ہی نہیں بلکہ ایک ایسی عظیم الشان یاد ہے جس نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو ان کے اصل قومی تشخص سے روشناس کرایا اور  انہیں غلامی کی زنجیروں سے نکال کر آزاد فضاؤں میں سانس لینے کا حقدار قرار دیا. اس تاریخ نے مسلمانان پاک و ہند کو ایک ایسے دیس کا باسی بنایا جہاں وہ مکمل آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی فرائض اور رسومات ادا کرسکیں.

یہ تاریخ نا صرف ہمیں آزادی کا بھر پور احساس دلاتی ہے بلکہ ہمارے آباؤ اجداد کی عظیم قربانیوں کی یاد بھی اسی سے وابستہ ہے.
کہاں ہیں آج وہ شمع وطن کے پروانے
بنے ہیں آج حقیقت انہیں کے افسانے
یہ وہ عظیم دن ہے جب  چہتر سال پہلے آج ہی کے دن قائد اعظم کی قیادت میں ایک کارواں کا جہد مسلسل کا سفر کامبابی سے ہمکنار ہوا اور نقشے میں ایک ایسا ملک ابھرا جس کی بنیاد صرف اور صرف دو قومی نظریہ تھی مگر اب یہ دو قومی نظریہ کٹیر الاقوامی نظریے کی شکل دھار چکا ہے اور سونے پے سہاگہ کہ مذہب اسلام  کے مختلف فرقے بھی اس خطے میں اتنے زیادہ ہو چکے ہیں کہ اب تو بہتر کی گنتی بھی دور نہیں .
یہ صرف ایک تاریخ  ہی نہیں بلکہ ایک عہد ہے مگر ہم نے اسے صرف ایک ایسے دن سے موسوم کر لیا ہے جب اسکول, کالج اور مختلف سرکاری مقامات پر آزادی کے حوالے سے مختلف تقریبات منعقد کی جاتی ہیں , قومی جھنڈے لگاتے ہیں.

قومی ترانہ اور ملی نغمے گائے جاتے ہیں , لہو کو گرما دینے والی تقاریر ہوتی ہیں  اور دن کے اختتام پر انہی جھنڈوں کو پاؤں تلے روند کر سب دوبارہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں گم ہوجاتے ہیں , جہاں ان قربانیوں سے آشنائی کا ذرہ بھر بھی احساس نہیں ملتا. ہمارے ہاں چودہ اگست ہر سال نئے جوش اور ولولے کے ساتھ آتا ہے اور جاتے ہوئے کئی سوالات چھوڑ جاتا ہے.

کیا ایک پاکستانی ہونے کی حیٹیت سے ہمارے فرائض صرف یہیں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں کہ ہم ہر سال یوم پاکستان , چودہ اگست اور چھ ستمبر کے حوالے سے نئے نئے قومی نغمے بنائیں, جھنڈے لگائیں اور خوش ہوں اور اگلے دن اپنے تمام فرائض بالائے طاق رکھ کر اپنی پرانی ڈگر پر چلیں.
آج المیہ یہ ہے کہ  ہمارا ملک اس مقام پر کھڑا ہے جہاں  تعلیم, معیشت, سیاحت, صحت کوئی بھی ایک ایسا تعمیری  شعبہ نہیں جہاں ہماری ایک الگ پہچان ہو.  ہم نا تو اسلامی حوالے سے ایک مکمل مسلمان ہیں اور نا ہی ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ایک محب وطن پاکستانی.

اگر ہماری کوئی پہچان ہے تو وہ ہے دھوکہ دہی, الزام تراشی, قتل و غارت گری, عصمت دری, جسم فروشی, رشوت, نا انصافی , ظلم و ستم, اغوا برائے تاوان, چوری, ڈاکازنی, ٹارگٹ کلنگ , مذہب کے نام پر دھماکے , ریاست مدینہ کے  نام پر لوٹ مار . ہر طرح کی برائیاں اپنے دامن میں سمیٹ کر  ہم چلیں ہیں نیا ریاست مدینہ بنانے لیکن اگر آج کے اصلی ریاست مدینہ کی بات کی جائے تو وہ بھی اب پچھلے دور والا ریاست مدینہ نہیں رہا.
پاکستان وہ ملک ہے جہاں صرف ایک روپے تنخواہ لینے والے پہلے گورنر جنرل  قائداعظم محمد علی جناح سے کھربوں کی کرپشن کرنے والے حکمران آئے.

یہ وہ ملک ہے جہاں قائد اعظم نے اپنی کابینہ کو سرکاری خرچے سے ایک پیالی چائے بھی پینے کی اجازت  نہ دی اور اب اسی کابینہ میں صرف چائے پانی کے نام پر ہی سالانہ اربوں روپے  ہضم کیے جارہے ہیں . یہ وہ ملک ہے جہاں اربوں اور کھربوں کے کرپشن اور چوری  کرنے والے,  دوسرے ممالک میں  عیاشی کی زندگی گزارتے ہیں اور ایک بھوکا بچہ روٹیاں چرانے کی پاداش میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہوجاتا ہے .
اگر ہم تاریخ کے حوالے سے دیکھیں تو ہمیں آزاد ہوئے چہتر سال ہورہے ہیں اور ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے ممالک میں چین بھی شامل ہے مگر آج چین اور ہماری ترقی میں زمین و آسمان کا فرق ہے .

بنگلہ دیش جو کبھی ہمارے ہی وجود کا حصہ ہوا کرتا تھا . آج ہر میدان میں ہم سے آگے ہے. جاپان نے ایٹم بم اپنے سینے پر کھا کر دوبارہ خود کو ہر میدان میں مضبوط کرلیا. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے لیے ہی ترقی کرنے اور خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے لیے ساڑھے سات دھائیوں کا عرصہ کم کیوں ہے. ہم کسی بھی مخصوص قوم کو فخر سے بھکاری کا خطاب دے کر یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاکستان آوائل آزادی میں جرمنی جیسے ملک کو امداد دینے والے ممالک کی صف میں شامل تھا مگر اب وہی ملک نادیدہ کشکول لیے آئی ایم ایف اور دیگر ممالک سے امداد لینے والوں کی صف میں سب سے نمایاں ہے اور اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ یہاں پیدا ہونے والا بچہ بچہ مقروض ہے.
کیا ہم واقعی آزاد ہیں یا پھر مکمل ذہنی غلام کیونکہ ہم انگریزوں اور ہندوؤں سے نجات حاصل کرنے کے باوجود بھی اپنے ذہن کو ان کی غلامی سے نہیں نکال پائے .مشرق میں پروان چڑھنے کے باوجود مغرب کی زبان بولنا, ان کا لباس زیب تن کرنا باعث فخر سمجھتے ہیں.

قومی اور روایتی لباس میں ملبوس, قومی اور علاقائی بولی بولنے والا ہر شخص ہمیں جاہل نظر آتا ہے . جس مذہب نے والدین کو اعلی مقام دیا اسی مذہب کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں  والدین کو عدالتی کٹہرے میں کھڑے کرنے کا قانوں لاگو کیا جارہا ہے . جس مذہب نے شراب کو حرام قرار دیا اسی مذہب کے پیرو کار ہو کر شراب کے لائسنس تقسیم کیے جا رہے ہیں .

جس مذہب نے فحاشی عریانی اور موسیقی کو حرام قرار دیا اسی مذہبی ملک میں ہر جگہ فحاشی, عریانی اور موسیقی کے مراکز قائم کیے جارہے ہیں اور سینما گھروں کو پروموٹ کیا جارہا ہے .
کسی بھی ملک کو اس کی قوم سنوارتی ہے مگر آج بحیثیت قوم ہم کہاں کھڑے ہیں؟  حلقہ اقتدار کی طرح ہم بھی اپنی آنکھیں موندھے بیٹھے ہیں. ہمیں جو دکھایا اور بتایا جاتا ہے ہم اسی پر ایمان لاتے ہیں.

ہماری آنکھوں پر پٹیاں اور زبان پر تالے ہیں . ہم چپ رہتے ہیں اس وقت جب کسی گاڑی کا بدمست جوان کسی بھی راہگیر کو روندھتا ہوا گزرجاتا ہے. ہم چپ رہتے ہیں اس وقت بھی جب قانوں کے رکھوالے اور قوم کے محافظ موت کا فرشتہ بن کر سامنے آتے ہیں اور اس وقت بھی جب ہوا  کی معصوم بیٹیاں اپنی گڑیوں سے کھیلنے کی عمر میں  ابن آدم کی ہوس کا نشانہ بنتی ہیں اور توجیح یہ پیش کی جاتی ہے کہ  مختصر کپڑے ان کی عصمت دری کی وجہ بنے اگر ایسا ہے تو مغرب میں راہ چلتے ریپ ہونے چاہیئں.

جب کہ اسی ملک کے کسی کونے میں  بنت ہوا برقعے میں ملبوس ہونے کے باوجود بھی سڑکوں پر رسوا کردی جاتی ہے یا پھر بوسیدہ رسم و رواجوں کی آڑ میں  آج بھی ستی یا ساہو کاری کی نذر کی جاتی ہے یا پھر جائیداد سے بے دخل کرنے کے لیے قرآن سے اس کی شادی کردی جاتی ہے.  آج بھی بنت ہوا اپنی عزت کو تار تار ہونے سے نہیں بچا پاتی. یا تو زندہ درگور کی جاتی ہے یا پھر اس کے جسم کے ٹکڑے ملتے ہیں یا تن سے جدا سر یا پھر مردوں کے اس معاشرے میں عورت کا تیزاب سے مسخ شدہ چہرہ یا پھر جہیز کی آڑ میں بہو کی جلی ہوئی لاش ملتی ہے.

یہاں آج بھی نام نہاد ترقی پسند خواتین سوشل ورک اور "میرا جسم میری مرضی" کے نام پر معصوم عورتوں کا استعمال و استحصال کرتی نظر آتی ہیں یا لیونگ اسٹیٹس جیسی مذہبی اور انسانی حوالے سے نا قابل قبول زندگی گزارتی ہیں.
ایک آزاد ملک میں عام پاکستانی پر زندگی تنگ کردی گئی ہے, جہاں آزادی کا سانس لینے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے. فرقہ واریت کی بنا پر لوگ مر رہے ہیں.

صوبائی عصبیت کی بنا پر ہم اپنی لاشیں گرتی دیکھ رہے ہیں.
یہاں سچ بولنے اور سچائی کا ساتھ دینے والے صحافی یا تو قتل کردیے جاتے ہیں یا پھر  تشدد کا نشانہ بنتے ہیں . یہاں آج بھی  خاندانی رنجشوں اور غداری کے نام پر ماورائے عدالت قتل کا بازار سر گرم ہے پانی مہنگا اور خون نہایت ہی سستا ہوچکا ہے.
اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا
ماضی تو سنہرا تھا ، مگر حال کھو گیا
جغرافیائی لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارے نقشے میں کئی تبدیلیاں آرہی ہے.

یہاں "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کی پالیسی کئی دہائیوں سے رائج ہے. ایک قوم کو دو اقوام میں تقسیم کیا گیا, مشرق پاکستان  الگ سرحدیں رکھنے والا بنگلہ دیش بن گیا پھر  کارگل اور اب ہماری شہ رگ کشمیر کی صورت. ہمارے موجودہ حالات نے تو ان حقیقی داستانوں اور قربانیوں کو بھی شرما دیا ہے جو ہمارے آباؤ اجداد نے دیں .ہم شرمندہ ہیں ان قائدین سے جن کے شاید وہم گمان میں بھی نہ ہوگا کہ یہ قربانیاں یوں رائیگاں جائیں گی مگر ہم وہ عظیم قوم ہیں جنہوں نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے بھی کچھ نا سیکھا اور اپنے اسی پرانے ڈگر پر چل رہے ہیں .

جہاں باقی ممالک  اقتصادی , معاشی, تعلیمی , اور صحت کے  میدان مار رہے ہیں ہم اپنے وجود کے حصے گنوا رہے ہیں.
وائے ناکامی متاع کاروان جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
اگر اب بھی ہم نے اپنی یہ روش نہ بدلی تو وہ وقت بھی دور نہیں  کہ ہمارا حال بھی شام, عراق , فلسطین, افغانستان اور یمن کی مانند  ہو ,مارے لیے کوئی جائے پناہ نہ ہو اور خدانخواستہ اس شعر کی تعبیر نہ بن جائیں .
یہ کہہ رہی ہے اشاروں میں گردش گردوں
کہ جلد ہم کوئی سخت انقلاب دیکھیں گے
اب ہمیں خواب غفلت سے جاگنے اور اپنا معیار زندگی بدلنے کی اشد ضرورت ہے.

ذاتی خواہشات سے ہٹ کر اجتعماعی سوچ کو پروان چڑھانا ہوگا. ایک قوم بن کر  ملک کو ترقی کے دھارے میں شامل کرنا ہمارا اہم ترین فریضہ ہونا چاہیے. ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے سونا , تیل , گیس , قدرتی ذخائر , پہاڑ, دریا, سمندر ,چار موسم اور سب سے بڑھ کر شخصی طاقت جسے صرف اور صرف اتحاد, تنظیم اور یقین کے سہارے کی ضرورت ہے اور یہی ترقی کی ضامن اور چابی ہے�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :