شریکِ جرم نا ہوتے تو مخبری کرتے

بدھ 28 جولائی 2021

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

آپ سب نے یہ  مشاہدہ کیا ہوگا کہ ملک کے معتبر حکمران طبقوں یا پھر سیکیورٹی کی جانب سے اکثر و پیشتر ہائی سیکیورٹی الرٹ جاری ہوتا ہے کہ کچھ مشکوک لوگ فلاں شہر کی حدود میں داخل ہوچکے ہیں, ان کے پاس مختلف قسم کے ہتھیار ہیں اور فلاں دن, فلاں جگہ پر مبینہ خود کوش حملے یا دہشت گردی کا خطرہ ہے. پھر اللہ کے حکم سے اور خبر کی مناسبت  سے کہیں نہ کہیں دہشت گردانہ خود کش حملہ بھی ہوجاتا ہے اور بہت سے بے گناہ لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں .

پیچھے یا تو لواحقین کی فریاد اور آہیں رہ جاتی ہیں  , یا پھر معتبر حلقوں کی جانب سے ان واقعات کی سرسری مذمت اور  اظہار ہمدردی کے جھوٹے اور کھوکھلے الفاظ رہ جاتے ہیں.

(جاری ہے)

مگر کوئی ان مخبری کرنے والوں سے پوچھے کہ جناب کیا آپ کا کام صرف خطرے سے ہائی الرٹ کرنا ہی ہے ,اس خطرے سے روکنا نہیں ہے جس کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے ہوئے بھی اسے روکنے کی ہمت نہیں .اس سے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مخبری کرنے والا یا تو خود ان کے ساتھ ملا ہوا ہے اور ان کے مفادات مشترک ہیں .

یا  وہ اتنا لائق و فائق  ہے کہ ہر خطرے کو بروقت محسوس کر لیتا ہے یا پھر اتنا نااہل ہے کہ اسے روکنے کی طاقت ہی نہیں رکھتا ہے.
اس کی ایک تازہ مثال ہمارے ایک درباری وزیر کی پیشن گوئی ہے جس میں وہ ملک میں دہشت گردی کی بو سونگھ کر صبح بڑی شان سے اپنی معلومات کا پرچار کرتا ہے اور اسی شام  ایک عظیم عالم دین اس دہشت گردی کا شکار ہو کر اپنی جان گنوا بیٹھتا ہے .


کوئی بھی اس معتبر شخص سے پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ بھلے آدمی تمہیں کیسے معلوم ہوا اور تمہارے ذرائع کیا ہیں . اور بل فرض کہیں سے بھنک مل بھی گئی کہ آج کی تاریخ میں کچھ غلط ہونے جا رہا ہے تو آپ ایک اعلی عہدے پر فائز ہونے کے باوجود بھی اسے کیوں نہیں روک نہیں پائے . آپ اسے ہمارے اداروں اور حکمرانوں کی پیشن گوئی یا مخبری کہہ لیں یا ان کی لائقی سے تعبیر کرلیں, لیکن میرے نزدیک یہ لائقی نہیں کہ ہم خطرے کی بو سونگھ کر اعلان عام کرتے ہیں بلکہ بدترین  نالائقی کے زمرے میں آتی ہے کہ اتنی وسیع معلومات کے باوجود ہم ممکنہ حملے کو روک نہیں پاتے.

ایسے واقعات سے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ
تمھیں سب خبر ہے لٹیروں کے ٹھکانوں کی
شریکِ جرم نا ہوتے تو مخبری کرتے
( شعر کچھ ترمیم کے ساتھ)
پاکستان جہاں قدرت کے حسین رنگوں کا امتزاج رکھتا ہے وہیں یہاں ظلم جبر تشدد , قتل, غارت گری, ڈاکہ , چوری , زنا ,  رشوت بدعنوانی , دہشت گردی, سائبر کرائمز اپنے عروج پر ہیں.


وہ کون سا جرم ہے جو یہاں نہیں ہوتا . کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں مگر حقیقت میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کا جو کفار سے ایک فرق ہے وہ بھی دن بدن معدوم ہوتا جا رہا ہے . ہم صرف نام کے مسلمان رہ چکے ہیں . لاکھوں روپے خرچ کرکے حج اور عمرہ پر جانے کی خواہش رکھتے ہیں اور اس بات کے منتظر ہیں کے کب بلاوا آئے گا . مگر ہمارے گھر کے قریبی مسجد سے روزانہ دن میں پانچ بار بلاوا آنے پر بھی جانا گوارا نہیں کرتے یا پر مسلک درمیان میں آجاتا ہے .

 
ایک وقت تھا جب تین سوتیرہ مسلمانوں نے ہزاروں کی تعداد میں کفار کے لشکر  پر  غلبہ پا لیا. اب ایک وقت یہ بھی ہے کہ مسلمان کفار سے کئی گنا ہونے کے باوجود مفلوج اور غلام ہورہے ہیں, اور بدترین زبوں حالی کا شکار ہیں, وجہ صرف اور صرف آپس میں پھوٹ پڑنا ہے .  ایک مذہب  سے تعلق ہونے کے باوجود ہم ایک نہیں رہے . اور ہمارے اصل چہروں کے پیچھے کئی اور چہرے  بھی چھپے ہیں جو کبھی نہ کبھی اپنی اصلیت دکھا ہی دیتے ہیں .

ہمارے ملک کا کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں جو رشوت, سفارش, بدعنوانی اور کرپشن کی زد سے بچ گیا ہو . اگر ہم سیاست کو لے لیں تو یہاں بدعنوانی اور کرپشن اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے مگر ہوتا کیا ہے کہ ہر الیکشن کے کچھ سال بعد ہی لیڈر شپ پر کرپشن اور بدعنوانی کا الزام لگا کر اسے بر طرف کردیا جاتا ہے اور نئی لیڈر شپ سامنے  لائی جاتی ہے مگر پیچھے ٹولہ  وہی لٹیروں کا ہی رہتا ہے .

اگر ایسا کہیں این آر او نہ دینے کا شور مچانے والے درپردہ انہیں این آر او دے کر باقیوں کے کرپشن کے راز تو اگلوائے جاتے ہیں  مگر پھر سے نت نئے طریقوں سے کرپشن شروع ہوجاتی ہے. اور یہ مخبری اور خوشآمد کرنے والا ٹولہ ہمیشہ کی طرح معتبر ٹھرتا ہے. کم و پیش یہی حال ہمارے پولیس کے نظام کا بھی  ہے . مجرموں کے ٹھکانوں کا معلوم ہوتے ہوئے بھی یا تو وہ آزاد گھومتے ہیں یا پھر اگر پکڑے بھی جائیں تو ان کے اصل کردار سامنے لائے بغیر ان کاؤنٹر کے نام پر ماورائے عدالت قتل کیے جاتے ہیں .
آج کل ایک اور جرم بھی بہت عام ہے اور وہ ہے عصمت دری آئے روز کوئی نہ کوئی عورت بچی یا پھر نو عمر بچہ  جنسی درندگی کا شکار ہو کر اپنی جان سے جاتا ہے یا پھر تاریکیاں اس کا مقدر بنتی ہیں .

مگر شکوک و شواہد ہونے کے باوجود مجرمان نہیں پکڑے جاتے . یا انہیں سزا نہیں ملتی . موٹر وے پر پیش آنے والا حالیہ واقعہ اسی  کی ایک کڑی ہے جس میں ایک عورت پولیس کو کال کرتی ہے مگر آدھی رات کو محافظوں کے بجائے لٹیرے اس سنسان سڑک پر آتے ہیں اور پولیس کی جانب سے اس واقعے کو لے کر بجائے مجرموں تک رسائی حاصل کی جائے . اس عورت کو مورد الزام ٹھرایا جاتا ہے کہ بی بی آپ اس وقت باہر کیوں نکلیں .  اس سلسلے میں  ہمارے این جی اوز کے بھی دو الگ چہرے سامنے آتے ہیں ایک چہرہ ان واقعات کی بھرپور مذمت کرتا ہے اور انہیں سزا دینے کا مطالبہ کرتا ہے  مگر دوسرا چہرہ  ان اسلامی سزاؤں کو ظالمانہ قرار دیتا ہے اور ان کے خلاف آواز بلند کرتا ہے جن کے نافذ کرنے کے بعد جرم کی شرح بہت حد تک کم کی جاسکتی ہے.


مگر یہاں ایک اہم  سوال یہ بھی ہے کہ ان سب کے علاوہ شریک جرم اور کون کون ہیں .
جی ہاں  ہم آپ اور اس معاشرہ کا ہر وہ فرد جو ظلم کے خلاف کچھ کہنے کی جرت نہیں رکھتا اور گواہ بننا پسند نہیں کرتا ,اسلامی سزاؤں کو ظالمانہ مانتا ہے اور وہ بھی جو ظلم کی  مکمل خبر رکھنے کے باوجو انہیں سزا دینے کی طاقت نہیں رکھتا . ہمیں بولنا ہوگا  ان کے خلاف جو جرم کے مرتکب ہوتے ہیں اور ان کے خلاف جو مخبری تو کرتے ہیں مگر ذرائع رکھنے کے باوجود اسے روک نہیں پاتے.
شریکِ جرم نا ہوتے تو......... مخبری کرتے
ہمیں سب خبر ہے لٹیروں کے ٹھکانوں کی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :