"استاد اور معاشرتی رویہ"

منگل 5 اکتوبر 2021

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

پانچ اکتوبر کو عالم اقوام میں اساتذہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے. اس دن کے حوالے سے میں نے اپنے اساتذہ کی ایک فہرست بنائی. مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ لسٹ اس وقت تو بہت تیزی سے آگے بڑھی جب میں نے اسکول  کے اساتذہ کے نام لکھنا شروع کیے, مجھے اپنے ایک ایک معلم کا نام , ان کے چہرے اور ان کا رویہ اچھی طرح یاد تھا مگر  پروفیشنل کالج کے اساتذہ تک پہنچتے پہنچتے , سوچنے کے باوجود کچھ اساتذہ کے علاوہ باقی سب کے نام یاد نہیں آئے اور تب مجھے اس بات کا افسوس بھی ہوا کہ ایسا کیوں ہے.

میں نے اس کی وجوہات کا جائزہ لینا شروع کیا. اس کے لیے مجھے اپنے بچپن میں جانا پڑا. بچپن میں شاید ہمیں اساتذہ بہت اچھے ملے تھے . جو اپنے پیشے سے مخلص ہونے کے ساتھ ساتھ  بچوں کے ساتھ  ہمدردانہ رویہ بھی رکھتے تھے  اور سارے بچوں کو ساتھ لے کر چلنے کے حامی تھے . ذہین اور کند ذہن دونوں کے ساتھ ایک جیسا اور مہربان رویہ ہوتا تھا. کند ذہن بچوں کو کہیں پر بھی اپنی بے عزتی محسوس نہیں ہوتی تھی مگر جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گئے اساتذہ اور طلباء کے مابین تعلقات میں خلیج نظر آئی.

اس کی سب سے بڑی وجہ شاید مادیت پسندی اور پروفیشنلزم ہے جو عمر کے ساتھ بڑے ہوتے بچوں اور اساتذہ میں وقت پیدا کرتا ہے . یہی مادیت پسندی ایک طرف اساتذہ اور طلباء کے رشتے میں دڑار کا باعث بنتی ہے تو دوسری جانب ان کے مابین عزت و احترام میں کمی کا ذریعہ بھی ہوتی ہے . مگر اب تو یہی رویہ اسکول کے بچوں کا اپنے اساتذہ کے ساتھ دیکھنے میں آرہا ہے.

پہلے اسکول یا مکتب ہم بچوں کے لیے بے حد مقدس جگہ ہوتی تھی جہاں ہمیں پڑھائی کے ساتھ کئی تعمیری غیر نصابی سرگرمیاں بھی کرنے کو ملتی تھیں . مگر اب ایسی سرگرمیوں کا فقدان ہو چکا ہے اور ان کی جگہ صرف ہلڑ بازی نے لے لی ہے اور حد تو یہ ہے کہ غیر نصابی سر گرمیوں کے نام پر ناچ گانے کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں, جو اسکول جیسے مقدس جگہ کے لیے باعث شرم بھی ہیں.
اس خلیج کی ایک بنیادی وجہ نئی نسل کے والدیں ہیں جن کے بقول اپنے بچوں سے صرف وہ محبت کرتے ہیں.

پہلے اگر ایک استاد بچوں پر سختی کرتا تھا تو اس سلسلے میں والدین زیادہ مداخلت نہیں کرتے تھے. انہیں اس بات کا یقین ہوتا تھا کہ یہ سختی بچوں کو ایک اچھا انسان بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی مگر  آج کل کے والدین کا اساتذہ کے ساتھ اس سلسلے میں رویہ نہایت خراب ہوگیا ہے. بچوں کی معمولی شکایت پر بھی فورا استاد کی ہی پیشی لی جاتی ہے کہ اس نے یہ کیوں کیا.

اس طرح  معلم, مجرم بن جاتا ہے اور یہی رویہ ان  بچوں کے سامنے اس استاد کی عزت کو کم کرنے میں بہت حد تک معاون ثابت ہوتا ہے. اس سلسلے میں, میں نے ایک ایسی والدہ کو دیکھا ہے جس نے اپنے بچے کو سکھایا ہے کہ استاد تمہیں کچھ بھی کہیں, مجھے بتانا ہے. یہ محترمہ اپنے بچوں کی چھوٹی سے چھوٹی شکایت پر اسکول پہنچ جاتی ہیں اور ٹیچرز سے باز پرس کرتی ہیں.

ایک بار تو انہوں نے اسکول ٹیچر کو اس حد تک کہہ دیا کہ میں اگر آپ کو بینچ پر کھڑا کروں یا مرغا بناؤں تو آپ کو کیسا لگے گا؟  میرا اس بات سے بالکل بھی اختلاف نہیں ہے کہ استاد بلاوجہ مار پیٹ کریں مگر یہ بھی ضروری ہے کہ جب ہم اپنے بچوں کو استاد کے پاس تربیت کے لیے بھیجیں تو ان پر مکمل بھروسہ بھی رکھیں .
پاکستان میں سرکاری سطح پر بھی اساتذہ کی وہ عزت نہیں ہے جو ہونی چاہیے اس لیے زیادہ تر لوگ کسی بھی شعبہ زندگی میں جانا پسند کرتے ہیں مگر معلم بننا اپنی توہین سمجھتے ہیں.

کیونکہ اس شعبے میں نہ تو پرانی والی عزت بچی ہے اور نہ ہی ایک استاد اپنی تنخواہ میں گزارا کرسکتا ہے . خاص کر پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ جہاں ان سے معلم کا کام تو پورا لیا جاتا ہے مگر ان کی اجرت انتہائی کم ہوتی ہے بلکہ زیادہ تر ایک مزدور کی ماہانہ اجرت سے بھی بہت کم . پچھلے دنوں جس طرح کورونا اور لاک ڈاؤن نے باقی دہاڑی دار طبقے کو نقصان پہنچایا وہیں اس کا سب سے برا اثر پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ پر بھی پڑا.  دکاندار یا مزدور پھر بھی ادھر ادھر ہاٹھ پیر مار کر گزارا کر رہے تھے مگر اساتذہ کے پاس اس قسم کا متبادل رستہ بھی نہیں تھا.

کیونکہ ان کے پاس سوائے خوداریت کے دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا اپنی اسی خوداری کے پیش نظر وہ کسی کے سامنے دست دراز کرنے سے بھی گریزاں رہے اور کئی اساتذہ کے گھروں میں نوبت فاقوں تک پہنچ گئی. والدین سے فیسوں کی مکمل وصولی کے باوجود زیادہ تر پرائیویٹ اسکولوں میں اساتذہ کو برطرف کیا گیا. اتنی قربانیوں کے باوجود ان کے بچے فیس کی عدم ادائیگی کے باعث اسکولوں سے بھی نکال دیے گئے.

 
سرکار اساتذہ کے عزت اور احترام کے حوالے سے دعوے تو بہت کرتی ہے . اسی سلسلے میں پچھلے سال گورنمنٹ نے ایک سلوگن بھی جاری کیا کہ "استاد کو عزت دو" مگر پھر خود حکومتی اداروں نے یکے بعد دیگرے اساتذہ کی تحقیر کی. ہمارے ملک میں استاد کو عزت دینے کا نعرہ تو زور و شور سے لگتا ہے مگر عزت کے نام پر ہتھکڑیاں بھی پہنائی جاتی ہیں. اس کی مثال سرگودھا یونیورسٹی لاہور کیمپس کے انچارج میاں جاوید جو پیشے کے لحاظ سے معلم ہیں, دل کا دورہ پڑنے سے پولیس کسٹڈی میں انتقال کر گئے اور ان کی ہتھکڑی سے جکڑی لاش منظر عام پر آئی.

شاید وہ یہ تذلیل برداشت نہ کرسکے تھے . ان کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر مجاہد کامران اپنے دوسرے پروفیسرز کے ساتھ ہتھکڑی لگا کے نیب میں پیش کیے گئے. ایک  اور پروفیسر جمیل صاحب , جنہوں نے قائد اعظم یونیورسٹی سے فزکس میں ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے . انہوں نے جہلم ویلی کے ڈی سی صاحب کے دفتر میں جاکر پبلک ٹرانسپورٹ میں سگریٹ نوشی کیخلاف درخواست دی اور احتجاج کیا.

مگر متعلقہ ڈی سی نے پولیس کے ذریعے اس عظیم اُستاد پر خوفناک تشدد کروایا اور انِہیں سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا . یہ صورت حال ان کے طلباء پر کس طرح اثر انداز ہوئی یہ ایک الگ بحث ہے مگر ان واقعات سے حکومت کی "استاد کو عزت دو" کی قلعی ضرور کھل گئی.اگر کسی بھی  معاشرے میں ایک اُستاد کی یہ عزت ہو تو وہاں ایک سلجھی ہوئی اور ایماندار قوم کا پیدا ہونا مشکل ہے.
اسلامی حوالے سے اگر دیکھا جائے تو درس و تدریس ایک پیغمبرانہ پیشہ ہے.

اسلام میں بھی ایک معلم کے کردار, اس کی عزت اور وقار سے اختلاف نہیں. اس لیے اللہ تعالی نے اپنے تمام پیغمبروں کو غیب کا علم دے کر اور معلم کا درجہ دے کر بھیجا. حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے "(ابن ماجہ۔

(جاری ہے)

229)
علم کے حوالے سے حضرت علی المرتضیؓ کا قول ہے کہ "جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا, میں اس کا غلام ہوں, خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے"۔(تعلیم المتعلم ۔21)
حضرت حسنؓ فرماتے ہیں کہ ’’اگر اساتذہ نہ ہوتے تو انسان جانوروں کی طرح ہوتے‘‘.
استاد کے ادب سے ترقی یافتہ ممالک بھی انکار نہیں کرتے کیوں کہ ان کے نزدیک کسی معاشرے کی ترقی استاد کی عظمت اور رفعت میں مضمر ہے.

استاد وہ مینار ہے جو اپنے شاگرد کو بلندیوں تک پہنچاتا ہے. استاد کی مثال ایک سڑک کی طرح ہے. استاد اپنی جگہ پر کھڑا رہتا ہے مگر اس سڑک کے مسافروں کو  منزل مقصود تک پہنچاتا ہے. اس لیے ان ممالک میں استاد کو تمام سہولیات زندگی میسر ہوتے ہیں اور اس کی تنخواہ باقی محکموں سے زیادہ رکھی جاتی ہے تاکہ لوگ اس پیشے کی اہمیت کو  سمجھ سکیں . مشہور رائٹر, مفکر, دانشور اور پروفیسر اشفاق احمد اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ’’ برطانیہ میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے مجھ پر جرمانہ عائد کیا گیا۔  مصروفیات کی وجہ سے چالان جمع نہ کرسکا تو کورٹ کا نوٹس ملا ۔ کمرہ عدالت میں جج کے استفسار پر میں نے کہا کہ میں ایک پروفیسر ہوں اور مصروفیت کی وجہ سے چالان جمع نہیں کرسکا۔  جج نے حیرت سے کہا" The Teacher is in the court" اور پھر جج سمیت سارے لوگ احترماً کھڑے ہوگئے۔ اسی دن میں اس قوم کی ترقی کا راز جان گیا‘‘۔  یہاں بھی ترقی یافتہ غیر مسلم ممالک ہم پر فوقیت لے چکے ہیں جہاں عدالت کا جج  ایک استاد کی تعظیم میں کھڑا ہوتا ہے .
ہمیں اساتذہ کے عالمی دن کو صرف ایک دن سمجھ کر نہیں منانا چاہیے بلکہ اساتذہ کے وقار کو زندگی کی ہر سطح پر ہمیشہ اونچا رکھنا پڑے گا.

تب جاکر ہم بھی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :