
"استاد اور معاشرتی رویہ"
منگل 5 اکتوبر 2021

ڈاکٹر راحت جبین
اس خلیج کی ایک بنیادی وجہ نئی نسل کے والدیں ہیں جن کے بقول اپنے بچوں سے صرف وہ محبت کرتے ہیں. پہلے اگر ایک استاد بچوں پر سختی کرتا تھا تو اس سلسلے میں والدین زیادہ مداخلت نہیں کرتے تھے. انہیں اس بات کا یقین ہوتا تھا کہ یہ سختی بچوں کو ایک اچھا انسان بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی مگر آج کل کے والدین کا اساتذہ کے ساتھ اس سلسلے میں رویہ نہایت خراب ہوگیا ہے. بچوں کی معمولی شکایت پر بھی فورا استاد کی ہی پیشی لی جاتی ہے کہ اس نے یہ کیوں کیا. اس طرح معلم, مجرم بن جاتا ہے اور یہی رویہ ان بچوں کے سامنے اس استاد کی عزت کو کم کرنے میں بہت حد تک معاون ثابت ہوتا ہے. اس سلسلے میں, میں نے ایک ایسی والدہ کو دیکھا ہے جس نے اپنے بچے کو سکھایا ہے کہ استاد تمہیں کچھ بھی کہیں, مجھے بتانا ہے. یہ محترمہ اپنے بچوں کی چھوٹی سے چھوٹی شکایت پر اسکول پہنچ جاتی ہیں اور ٹیچرز سے باز پرس کرتی ہیں. ایک بار تو انہوں نے اسکول ٹیچر کو اس حد تک کہہ دیا کہ میں اگر آپ کو بینچ پر کھڑا کروں یا مرغا بناؤں تو آپ کو کیسا لگے گا؟ میرا اس بات سے بالکل بھی اختلاف نہیں ہے کہ استاد بلاوجہ مار پیٹ کریں مگر یہ بھی ضروری ہے کہ جب ہم اپنے بچوں کو استاد کے پاس تربیت کے لیے بھیجیں تو ان پر مکمل بھروسہ بھی رکھیں .
پاکستان میں سرکاری سطح پر بھی اساتذہ کی وہ عزت نہیں ہے جو ہونی چاہیے اس لیے زیادہ تر لوگ کسی بھی شعبہ زندگی میں جانا پسند کرتے ہیں مگر معلم بننا اپنی توہین سمجھتے ہیں. کیونکہ اس شعبے میں نہ تو پرانی والی عزت بچی ہے اور نہ ہی ایک استاد اپنی تنخواہ میں گزارا کرسکتا ہے . خاص کر پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ جہاں ان سے معلم کا کام تو پورا لیا جاتا ہے مگر ان کی اجرت انتہائی کم ہوتی ہے بلکہ زیادہ تر ایک مزدور کی ماہانہ اجرت سے بھی بہت کم . پچھلے دنوں جس طرح کورونا اور لاک ڈاؤن نے باقی دہاڑی دار طبقے کو نقصان پہنچایا وہیں اس کا سب سے برا اثر پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ پر بھی پڑا. دکاندار یا مزدور پھر بھی ادھر ادھر ہاٹھ پیر مار کر گزارا کر رہے تھے مگر اساتذہ کے پاس اس قسم کا متبادل رستہ بھی نہیں تھا. کیونکہ ان کے پاس سوائے خوداریت کے دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا اپنی اسی خوداری کے پیش نظر وہ کسی کے سامنے دست دراز کرنے سے بھی گریزاں رہے اور کئی اساتذہ کے گھروں میں نوبت فاقوں تک پہنچ گئی. والدین سے فیسوں کی مکمل وصولی کے باوجود زیادہ تر پرائیویٹ اسکولوں میں اساتذہ کو برطرف کیا گیا. اتنی قربانیوں کے باوجود ان کے بچے فیس کی عدم ادائیگی کے باعث اسکولوں سے بھی نکال دیے گئے.
سرکار اساتذہ کے عزت اور احترام کے حوالے سے دعوے تو بہت کرتی ہے . اسی سلسلے میں پچھلے سال گورنمنٹ نے ایک سلوگن بھی جاری کیا کہ "استاد کو عزت دو" مگر پھر خود حکومتی اداروں نے یکے بعد دیگرے اساتذہ کی تحقیر کی. ہمارے ملک میں استاد کو عزت دینے کا نعرہ تو زور و شور سے لگتا ہے مگر عزت کے نام پر ہتھکڑیاں بھی پہنائی جاتی ہیں. اس کی مثال سرگودھا یونیورسٹی لاہور کیمپس کے انچارج میاں جاوید جو پیشے کے لحاظ سے معلم ہیں, دل کا دورہ پڑنے سے پولیس کسٹڈی میں انتقال کر گئے اور ان کی ہتھکڑی سے جکڑی لاش منظر عام پر آئی. شاید وہ یہ تذلیل برداشت نہ کرسکے تھے . ان کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر مجاہد کامران اپنے دوسرے پروفیسرز کے ساتھ ہتھکڑی لگا کے نیب میں پیش کیے گئے. ایک اور پروفیسر جمیل صاحب , جنہوں نے قائد اعظم یونیورسٹی سے فزکس میں ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے . انہوں نے جہلم ویلی کے ڈی سی صاحب کے دفتر میں جاکر پبلک ٹرانسپورٹ میں سگریٹ نوشی کیخلاف درخواست دی اور احتجاج کیا. مگر متعلقہ ڈی سی نے پولیس کے ذریعے اس عظیم اُستاد پر خوفناک تشدد کروایا اور انِہیں سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا . یہ صورت حال ان کے طلباء پر کس طرح اثر انداز ہوئی یہ ایک الگ بحث ہے مگر ان واقعات سے حکومت کی "استاد کو عزت دو" کی قلعی ضرور کھل گئی.اگر کسی بھی معاشرے میں ایک اُستاد کی یہ عزت ہو تو وہاں ایک سلجھی ہوئی اور ایماندار قوم کا پیدا ہونا مشکل ہے.
اسلامی حوالے سے اگر دیکھا جائے تو درس و تدریس ایک پیغمبرانہ پیشہ ہے. اسلام میں بھی ایک معلم کے کردار, اس کی عزت اور وقار سے اختلاف نہیں. اس لیے اللہ تعالی نے اپنے تمام پیغمبروں کو غیب کا علم دے کر اور معلم کا درجہ دے کر بھیجا. حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے "(ابن ماجہ۔
(جاری ہے)
229)
علم کے حوالے سے حضرت علی المرتضیؓ کا قول ہے کہ "جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا, میں اس کا غلام ہوں, خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے"۔(تعلیم المتعلم ۔21)
حضرت حسنؓ فرماتے ہیں کہ ’’اگر اساتذہ نہ ہوتے تو انسان جانوروں کی طرح ہوتے‘‘.
استاد کے ادب سے ترقی یافتہ ممالک بھی انکار نہیں کرتے کیوں کہ ان کے نزدیک کسی معاشرے کی ترقی استاد کی عظمت اور رفعت میں مضمر ہے.
ہمیں اساتذہ کے عالمی دن کو صرف ایک دن سمجھ کر نہیں منانا چاہیے بلکہ اساتذہ کے وقار کو زندگی کی ہر سطح پر ہمیشہ اونچا رکھنا پڑے گا. تب جاکر ہم بھی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں.
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر راحت جبین کے کالمز
-
"سرطان کا عالمی دن"
جمعہ 4 فروری 2022
-
"کیا ہم مردہ پرست قوم ہیں؟"
بدھ 13 اکتوبر 2021
-
"استاد اور معاشرتی رویہ"
منگل 5 اکتوبر 2021
-
لٹل پیرس کا گورنر ہاؤس
بدھ 29 ستمبر 2021
-
رشتے کیوں ٹوٹتے ہیں
منگل 21 ستمبر 2021
-
یوم آزادی، کیا ہم آزاد ہیں ؟
بدھ 11 اگست 2021
-
شریکِ جرم نا ہوتے تو مخبری کرتے
بدھ 28 جولائی 2021
-
"عید الاضحی کے اغراض و مقاصد"
جمعہ 23 جولائی 2021
ڈاکٹر راحت جبین کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.