ماسک، معاش اور مفاد

منگل 21 اپریل 2020

Dr Samiullah

ڈاکٹر سمیع اللہ

آج کے انسان نے پہلی بار کسی ایسی وباۃ کو دیکھا ہے جس نے دنیا کے 200 سے زیادہ ممالک کا سسٹم اور معیشت تباہ کر دی ہے۔ اس کے علاوہ کرہ ارض کا ہر انسان زہنی اور معاشی طور پر کرونا کے خوف میں مبتلا ہے کیونکہ اس کا حملہ اور اثرات ہر رنگ، نسل، مزہب اور علاقہ پر برابر رہے ہیں۔ اس کو قابو کرنے کے لیے ابھی تک کوہی قابل اعتماد کامیابی نظر نھیں آی۔

اس کے علاوہ، کرونا کو قابو کرنے کے لیے ہر ملک اپنے مطابق قوانین بنا رہے ہیں تاکہ اس کے نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے۔ کرونا ایسی بیماری ہے جس نے غریب اور امیر ممالک کے فرق کو مٹا دیا ہے اور سب ایک جیسے لگ رہے ہیں۔ غریب ممالک قدرے بہتر محسوس ہو رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس کھونے کے لیے بہت کم ہے۔ دوسرے نمبر پر، غریب ممالک کے لوگ قدرے سخت جان اور مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اس سے ان کی قوت مدافعت نسبتا زیادہ ہوتی ہے اور آسانی سے کرونا کے ساتھ مقابلہ کر سکتے ہیں۔

(جاری ہے)


دنیا کے بہت سارے ممالک نے لاک ڈاون کر کے کرونا کے خطرے کو کم کیا ہے جس سے معاشی صورتحال زیادہ تشویش ناک ہو گہی ہے اور اگلے دنوں میں شاید بے روزگاری میں اضافہ بہت زیادہ ہو جاے۔ ترقی یافتہ ممالک کے پاس سوشل سکیورٹی کا سسٹم اور مضبوط اداروں کی موجودگی معیشت کے پہیے کو چلانے میں معاون ہونگے۔ دوسری طرف وہ غریب ممالک شامل ہیں جو اپنے لوگوں کو روٹی، مکان اور روزگار بھی نھین دے سکتے۔

لاک ڈاون کی وجہ سے ہر فرد متاثر ہو رہا ہے جس میں کاروباری لوگ اور نوکری پیشہ لوگ بھی شدید خطرے میں ہیں۔ حکومت اس پوزیشن میں نھیں کہ ان لوگوں کی مسلسل معاشی معاونت کر سکے۔
معاشیات کا ایک محاورہ ہے کہ مالی امداد ایک لعنت ہوتی ہے کیونکہ یہ کسی فرد یا ملک کو اپنے وساہل اور مہارت کو استعمال نھیں کرنے دیتی۔ جن افراد یا ممالک کو امداد دی جاتی ہے وہ اپنے وساہل اور زراہع پر محنت کرنا اتنا اہم نیں گردانتے۔

اس لیے زیادہ ترامیرممالک اپنے لوگوں کو مالی مدد کی بجاے ان کو کام کرنے میں کشش والے پیکج متعارف کروا دیتے ہیں جس سے ان کے لوگ مصروف ہو جاتے ہیں اور ملک کے لیے کارآمد شہری بن سکتے ہیں۔ پاکستان جیسے غریب ممالک میں آبادی کا دباو بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے حکومت کے لیے کسی قسم کی سپورٹ ممکن نھیں ہوتی اس لیے ہر فرد کو اپنی زمہ داری احسن طریقہ سے ادا کرنی چاہیے۔

پاکستان میں ہر فرد پر تقریبا 7 لوگوں کا معاشی بوجھ ہے اور اگر ایک فرد کام نھیں کرتا تو کم از کم 7 لوگوں کی زندگی خطرے میں چلی جاتی ہے۔
کرونا کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے حکومت نے لاک ڈاون کا فیصلہ کیا جس سے لوگ مالی طور پر کمزور ہو گے اور غیرقانونی طور پر اپنے اپنے کاروبار کو شروع کرنے کی کوشش کر رھے ہیں۔ جب حکومت کی طرف سے مالی تعاون نھیں ملتا تو لوگوں کو خود کفالت کے لیے خطرہ لینا پڑتا ہے۔

اس صورتحال میں ھمارا ملک لاک ڈاون کا متحمل نھیں ہو سکتا اور لوگوں کو گھروں میں رکھنا معاشی اور زہنی طور پر زیادہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ہماری آبادی زیادہ ھونے کی وجہ سے لوگوں کو چھوٹے گھروں میں بند رکھنا ممکن نھیں رہتا۔  اگر ھمارے ادارے، میڈیا، سول سوساہٹی اور عام لوگ مکمل تعاون اور جزبہ حب الوطنی کے تحت اس بیماری کو کم کرنے کی نیت کر لیں تو ان کی کامیابی کو کوہی نھیں روک سکتا۔


لوگوں کو معاشی معاملات کے آغاز سے پہلے احتیاطی تدابیر کی آگاہی کے لیے میڈیا، سوشل نیٹ ورک، سول سوساہٹی اور کمیونٹی لیڈرز (اساتزہ، امام مسجد، سیاسی نماہندے، ڈاکٹرز اور درد دل رکھنے والے)  کے زریع آگاھی دے تاکہ لوگ اپنے آپ کو محفوظ کر سکیں۔ دوسرے نمبر پر، ماسک کے استعمال اور فواید پر لوگوں کو بتایا جاے کیونکہ جان ہاپکن یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق، جن ممالک میں لوگ ماسک کا استعمال کرتے ہیں وہاں پر کرونا کا پھیلاو نسبتا بہت کم رہا اور اس گراف میں آپ اس واضح فرق کو دیکھ سکتے ہیں۔

تیسرے نمبر پر، ماسک کے استعمال سے کرونا کے علاوہ باقی بیماریوں سے بھی بچا جا سکتا ہے جن میں کھانسی، زکام اور سانس کی تکالیف شامل ہیں۔ اس سے کرونا کے علاوہ بھی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ چوتھے نمبر پر، ماسک کے لیے خرچا بہت کم ہے اور ہر بندہ آسانی سے خرید سکتا ہے۔ اور آخر میں یہ کہ اس کو استعمال کرنا بہت ہی آسان ہے۔  

  اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے اور لوگوں کو اپنے معاملات زندگی شروع کرنے سے پہلے، لوگوں کو ماسک کے استعمال اور افادیت پر مکمل آگاہی دی جاے۔

غریب ممالک کے پاس اتنے فنڈز نیں ہوتے کے وہ اتنی بڑی آبادی کی مالی معاونت کر سکے اور حکومت کرونا سے نمٹنے کے لیے سستا، بہترین، آسان اور مفید منصوبہ صرف ماسک کے استعمال سے ممکن ہو سکتا ہے۔ حکومت اپنی پالیسی میں یہ شامل کرے اور لوگوں کو میڈیا کے توسط سے ماسک کے استعمال، فواہد اور کرونا سے بچاو پر آگاہی دی جاے۔ لوگوں کو آگاہی دینے کے ساتھ، ماسک کی دستیابی اتنی آسان کر دی جاے کہ ہر بندہ آسانی سے استعمال کر سکے۔

پورے پاکستان کے لیے ماسک کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کسی بھی خیرخواہی رکھنے والے فرد سے آسانی سے بنواے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کو ترغیب دی جاے کہ خدمت اور عبادت سمجھ کر ماسک کے استعمال کو عام کیا جاے۔ اگرہر گلی کے چوک، دوکان، بیکری، کریانہ سٹور، مسجد، بک شاپ، یہاں تک کے سبزی کی دوکان پر ماسک کے پیکٹ دستیاب ہوں اور لوگ اپنے ملک کو بچانے کے لیے اس کو فری تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ترغیب بھی دیں۔


حکومت اپنی تمام وساہل کو استعمال کر کے یہ بات یقینی بناے کہ کہ فرد، بغیر کسی تفریق کے، ماسک کے بغیر گھر سے نہ نکلے، کام اور خریداری کے دوران، آسان الفاظ میں، اگر کوہی فرد ماسک استعمال نھیں کر رہا تو اس کو غیرزمہ دار فرد میں شمار کیا جاے۔ اس کے علاوہ، اگر حکومت ماسک کے استعمال کو کرونا کے خلاف بنی پالیسی میں شامل کرتی ہے تو ماسک کا استعمال نہ کرنے والے لوگوں کو جرمانہ بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔

ہر جگہ پر ماسک کے استعمال کی پالیسی میں ہم اپنے لوگوں کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی صحت کو بھی یقینی بنا سکتے ہیں جو کہ ہمارے لوگوں، معیشت اور ملکی مفاد میں بہت ضروری ہے۔ کرونا سے جنگ میں ماسک ایک ایسا ہتھیار ہے جو بیماری کو کنٹرول کرنے کے علاوہ سستا، آسان اور قابل عمل بھی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :