"مصنوعی مستقبل"

بدھ 9 دسمبر 2020

Emaan Malik

ایمان ملک

اس حاضر زندگی میں وہی انسان سر اٹھا کے چل سکتا ہے جس کے پاس موبائل فون نہیں۔ اس بات میں کوئ شک نہیں ہے کہ ٹیکنالوجی ہماری زندگی میں سہولیات لاتی ہے مگر بڑے منظر میں اس میں ہمارا فائدہ ہے یا نقصان یہ تو وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں خود ہی سمجھ آجاۓ گا۔ مطلب کے ایک زمانے میں گاڑی کا شیشہ ہاتھ کے زور سے کھلتا تھا, مشکل تو ہوتا تھا لیکن خیر، جب ایلیویٹر نہیں ہوتا تھا، ہمیں سیڑیاں چڑھنی پڑتی تھی ایک طرح سے ورزش کے بہترین مواقع فراہم ہو جاتے تھے، جس زمانے میں ہم خط لکھتے تھے، ہماری زبان میں کیا خوب نکھار ہوتا تھا، جب کتابیں پڑھتے تھے تو ہماری توجہ اسی پر منحصر ہوتی تھی، ساتھ ساتھ یاداشت کا نظام بھی کیا خوب تھا، فیض احمد فیض یا علامہ اقبال کے اشعار ہماری توجہ کا مرکز تھے، ان سب کا ایک طرف فائدہ اور دوسری طرف نقصان بھی ہے۔

(جاری ہے)

کیاArtificial intelligence نے ہماری پُرانی زندگی کو اپنے رنگون میں ڈھال دیا ہے، جیسا کہ 2015 میں UK کی کمپنی نے انائونس کیا کہ ان کی Artificial Intelligence خود گیم سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانی دماغ کے علاوہ بھی ایک اور دماغ کی پیدائش ہوتی ہوئ نظر آتی ہے، اس کو ہم ڈیجیٹل دماغ بھی کہ سکتے ہیں۔امریکی اور برطانوی میڈیا کے مطابق معروف امریکی کمپنی مائیکرو سافٹ نے اپنی ایم ایس این ویب سائٹ کے لیے درجنوں صحافیوں کی جگہ خودکار نظام کے استعمال کا منصوبہ بنایا ہے جس کے ذریعے خبروں کو منتخب اور شائع کیا جائے گا۔

خبر رساں اداروں کی کہانیوں کو نئے انداز میں کہنے، ان کے انتخاب کا کام اور ان پر شہ سرخیاں لگانے کا کام اب تک ایم ایس این کی سائٹ کے لیے صحافی کیا کرتے تھے۔سیئٹل ٹائمز کی خبر کے مطابق اب یہ سارے کام مصنوعی ذہانت کے تحت انجام دیے جائیں گے۔۔امریکہ کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’تمام دوسری کمپنیوں کی طرح ہم اپنے کاروبار کا مستقل طور پر جائزہ لیتے ہیں۔

’اس کے نتیجے میں کچھ جگہوں پر سرمایہ کاری میں اضافہ ہو سکتا ہے اور وقتاً فوقتاً دوسری جگہوں پر تعیناتی کی جا سکتی۔ یہ فیصلے موجودہ وبائی بیماری کا نتیجہ نہیں ہیں۔ مائیکروسافٹ کچھ دوسری ٹیکنالوجی کمپنیوں کی طرح اپنی ویب سائٹ کے مواد کے لیے خبر رساں اداروں کو پیسے دیتی ہے۔کیا مصنوعی زہانت نے ہماری پُرانی زندگی کو اپنے رنگون میں ڈھال دیا ہے، جیسا کہ 2015 میں UK کی کمپنی نے انائونس کیا کہ ان کی Artificial Intelligence خود گیم سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانی دماغ کے علاوہ بھی ایک اور دماغ کی پیدائش ہوتی ہوئ نظر آتی ہے، اس کو ہم ڈیجیٹل دماغ بھی کہ سکتے ہیں۔

ایک طرح سے ہمارا فائدہ کچھ یوں ہے کے کیلکیولیٹر نے ریاضی کے حساب و کتاب کے جنجھٹ سے آزاد کرا دیا ہے، اسی طرح AI ہمارے اور بھی بہت سے کاموں میں مدد دیتی ہے۔ جلد ہی ہم کہ سکیں گے کہ ہم نے انسانی دماغ سے بہتر دماغ بنا لیا ہے، جو کہ آگے اور بہتر ہوگا اور یوں ہی زندگی کا کارواں چلتا جاۓ گا، کچھ لوگوں کا ڈر ہی Artificial intelligence ہیں کہ یہ ہماری جگہ لے لیں گے جیسے کے گاڑیوں نے گھوڑوں کی جگہ لے لی، موبائل فون نے خط و کتابت کی جگہ لے لی، یہ ممکن ہے کہ 1915 میں گھوڑوں کی آبادی اپنے عروج پر پہنچی اور گاڑی ایجاد ہونے کے بعد انکا عروج اونچائ سے نیچھے کی طرف آتا گیا، تو سوال اٹھتا ہے کیا ڈیجیٹل دماغ ہمارے دماغوں کے ساتھ بھی کھیل رہی ہے اور ہو بھی سکتا ہے ٹیکنالوجی ہم سے آگے ہر شعبے میں نظر آۓ بلکہ بہت سے شعبوں میں یہ آپنا بہترین کردار سرانجام دے رہی ہے۔

آئیے آپ کو کچھ ایسے ناولوں کے بارے میں بتاتے ہیں جن میں ناول نگاروں نے ڈرا دینے والی حد تک ایسی ٹیکنالوجی کے بارے میں پیش گوئی کی تھی جو ہم آج استعمال کر رہے ہیں۔سنہ 1953 میں اپنے ناول فارن ہائیٹ 451 میں رے بریڈبیری نے ایک ایسی دنیا کے بارے میں لکھا جسے انھوں نے ’تھیمبل ریڈیوز‘ کہا تھا۔ انھیں ’چھوٹے سی شیلز‘ یعنی سیپیاں کے طور پر بھی بیان کیا گیا تھا جو ایسی پورٹیبل آڈیو ڈیوائسز تھیں جو نصف صدی بعد بنائے جانے والے وائرلیس ہیڈ فون سے زیادہ مختلف نہیں تھیں۔

آج ہر گھر میں موجود 4 جی نیٹ ورک اور براڈ بینڈ کی دنیا میں، انٹرنیٹ کے بغیر دنیا کا تصور کرنا مشکل ہے۔ سنہ1984 میں شائع ہونے والے ولیم گبسن کے ناول ’نیورومینسر‘ میں دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ ورلڈ وائڈ ویب، ہیکنگ اور ورچوئل رئیلٹی کی بھی پیش گوئی کی گئی تھی۔ آج جو انٹرنیٹ ہم استعمال کر رہے ہیں اس کی پیشن گوئی بھی تقریبا ایک دہائی پہلے کر دی گئی تھی۔

سنہ 1968 میں لکھے گئے ناول ’2001: اے سپیس اوڈیسی‘ (پہلے ٹیبلٹ کمپیوٹر کی ایجاد سے 30 سال قبل)، آرتھر سی کلارک نے ایک الیکٹرانک پیپر یا ’نیوز پیڈ‘ کے بارے میں لکھا جسے اس دنیا کے لوگ پڑھتے تھے۔ انھوں نے آواز سے چلنے والے سپر کمپیوٹر ایچ اے ایل 9000 کا تصور بھی پیش کیا جو آواز سے چلنے والے ان ورچوئل اسسٹنٹس سے زیادہ مختلف نہیں ہے جو آج کل بہت سے گھروں اور کاروباری اداروں میں باقاعدہ استعمال ہو رہے ہیں۔

اس کے علاوہ انھوں نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے خطرات سے خبردار بھی کیا تھا۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو اب بھی سائنس فکشن میں باقاعدگی سے زیرِ بحث آتا ہے۔
قارئین آج کے آرٹیکل میں ہم نے مصنوعی ذہانت کا مختصر تعارف پیش کیا- اس شعبے سے کافی انقلابی تبدیلیوں کی امید کی جا رہی ہے- مستقبل قریب میں اس کی وجہ سے بہت ساری امور خودکار ہو جایؑں گے جس کی وجہ سے کافی نوکریاں خطرے میں ہوں گی۔

بحیثیت قوم ہمیں اس تبدیلی سے آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے اور اس سے نبرد آزما ہونے کی تیاری بھی کرنا بہت اہم ہے- اس بات کا قوی امکان ہے کہ مستقبل کی جنگیں بھی روبوٹ کے ذریعے لڑی جایؑں گی لہذا قومی سطح پر اس شعبے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔جیسا کہ ٹرانسپورٹ میں انسانی آمدورفت کے سلسلے میں ہمیشہ ڈرایئور کی ضرورت رہی ہے، یہ گھوڑوں کے زمانے میں بھی رہا ہے مگر اب کمپیئوٹڑ بھی گاڑی چلانے لگ گیا ہے اور انسانوں کے مقابلے میں وہ بہتر کردار ادا کررہے ہیں، نہ ہی وہ سوتے ہیں نہ بیمار ہوتے ہیں۔ کیا AI کی وجہ سے ہم غریب ہو جائیں گے یا امیر؟ کیا اس کی وجہ سے ہماری زندگی متاثر ہوگی کہ ہمیں خود کام نا کرنا پڑھے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :