وسطی ایشیائی ممالک۔ہمارے گہرے دوست

پیر 23 نومبر 2020

Engineer Mohammad Abbas Khan

انجینئر محمد عباس خان (تاشقند)

 تاشقند سوویت یونین کے انتشار کے بعد اس علاقے میں چھ نئے اسلامی ممالک وجود میں آئے۔ ان تمام ممالک کو پاکستان اس کی سڑکیں اور اس کا سمندر چاہیے۔ اسی طرح ہمیں بھی اپنے شمال اور شمال مشرق و شمال مغرب میں نئی ابھرنے والی مارکیٹیں چاہیے۔ ہماری خوش فہمی ہے کہ تمام کے تمام چھ اسلامی ممالک ہمارے بالکل نزدیک میں اور ہم زیادہ سے زیادہ ایک ملک کراس کرکے ان تک پہنچ سکتے ہیں۔

آج دنیا کے گلوبل بزنس میں یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ دنیا کئی کئی ممالک اور سمندر کراس کرکے ایک دوسرے کے ساتھ کامیاب کاروبار کر رہی ہے۔ یہ چھ ممالک ازبیکستان،ترکمانستان،تاجکستان،کرخیزستان، قزاقستان اور آذربائیجان ہیں۔ یوں تو یہ نئے ممالک ہیں اور جیسے کہ عموماً دنیا نئے آزاد ہونے والے ملک کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی لیکن ایک ایسی حقیقت ہے جو مقناطیس کی طرح دنیا بھر کو ان کی طرف کھینچ رہی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں انرجی کے وسائل بہت زیادہ ہیں،یعنی یہاں گیس،تیل،یورینیم،سونا،کاٹن، ڈرائی فروٹ،زیر زمین معدنیات وافر مقدار میں ہیں۔

(جاری ہے)

یہاں کی مین پاور سو فیصد تعلیم یافتہ ہے۔ اور یورپ کے مقابلے میں سستی ہے۔ یہاں زندگی میں تنظیم،صفائی اور محنت کا تصور عملی شکل میں موجود ہے۔ تب ہم دنیا میں اعلان کرتے ہیں کہ پاکستان وسطی ایشیا کا گیٹ وے ہے۔ اگرچہ اس گیٹ وے کی دونوں اطراف کو ضرورت ہے لیکن مغرب بالکل نہیں چاہتا کہ پاکستان ان چھ ممالک کے مالی قریب ہو جائے لہٰذا اٹھائیس سال گزر جانے کے باوجود ہم ان ممالک سے نہ تو عملی طور پر تجارت ہی بڑھا سکے ہیں اور نہ ہی کوئی ایسا رشتہ جو عملی طور پر اطراف کے لئے بشت نتیجے سامنے لے کر آئے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ان تک پہنچنے کے لئے ہمیں چین،افغانستان یا ایران کو کراس کرنا ہوتا ہے اور ہمارے خارجہ پالیسی کا یہ المیہ ہے کہ یہ تینوں ممالک ہمارے انتہائی قریبی دوست ہمسایہ ممالک میں اتنے گہرے دوست ہیں کہ ہم ان سے کوئی بات بھی طے نہیں کر سکتے۔
مغرب افغانستان میں عملی طور پر اپنے تمام تیر و تفنگ کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے،مغرب نے ایران پر پابندیاں لگا کر ہمیں یعنی پاکستان کو اپاہیج کیا ہوا ہے اور مغرب ہمیں چین کے ساتھ بھی کوئی طاقتور معاشی کام کرنے نہیں دیتا۔

ہاں مغرب جو کہ ہمارا دوست ہے اور ہمارا آقا ہے۔ اور ہم دعویدار ہیں کہ ہم امریکی صدر سے اچھی انگریزی بول کر اپنی مرضی کے فیصلے کشمیر پر کروا لیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم روز ویلٹ ہوٹل سے جان چھڑوا رہے ہیں۔ روس کی طرف سے بنائی جانے والی پاکستان اسٹیل ملز بھی ہم کسی عربی یا ویسٹرن گروپ کے حوالے کر دیں گے۔ اگرچہ کہ ہم جانتے ہیں کہ جو بھی ہم سے اسے کوڑیوں کے بھاؤ لے گا وہ اسے چلانے کے لئے پھر روس کے پاس ہی جائے گا تو آخر ہم میں اتنا دم کیوں نہیں ہے کہ ڈائریکٹ روس سے بات کریں اور پھر یہ کہ روس اسپر تیار ہے کہ کراچی لاہور گیس پائپ لائن پروجیکٹ تعمیر کرے لیکن ہم میں اتنی ہمت نہیں کہ یہ مسئلہ حل کر سکیں۔


اب تو صورتحال یہ ہے کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے دور میں پاکستان نیشنل بینک کی وہ برانچیں جو کہ ہم نے بشکک (کرخیزستان) الماتی(قزاقستان)دو شینے(تاجکستان)عاشق آباد(ترکمانستان)اور باکور( آذربائیجان) میں کھولی تھیں اور جو کہ اب ان ممالک میں پاکستان کی معاشی نمائندگی کرتی ہیں۔ اتنے سالوں سے کامیاب کاروبار کر رہی ہیں۔ اور یہ کہ پاکستان نیشنل بینک کی ان برانچوں نے پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔

بلکہ اب تو اللہ کے فضل سے ساری برانچیں فائدہ مند کاروبار کر رہی ہیں۔ لہٰذا میں پاکستان کا یہ فائدہ اور یہ روشن نام ایک آنکھ نہیں بھاتا لہٰذا پاکستان نیشنل بینک اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کی اعلیٰ بیوروکریسی نے انتہائی خاموشی سے ان بینکوں کو بندکرنے کا حکمانہ جاری کر دیا ہے۔ ظاہر ہے ان برانچوں کو بند کرنے اور ان کی پراپرٹی کو اونے پونے بیچنے کے لئے بھی وقت چاہیے۔

ایک عام اندازے کے مطابق اس مارے پردیس میں چھ ماہ تک لگ جائیں گے۔ پھر یہ کہ کئی کمپنیوں اور افراد نے ان بینکوں سے قرضے لیے ہوتے ہیں ظاہر ہے وہ کیے یہ رقم فوراً ادا کریں گے جو کہ انھوں نے کاروبار میں لگائی ہوتی ہو گی۔ افواہ یہ ہے کہ یہ قدم فیٹف کے ظالمانہ دباؤ کی وجہ سے اٹھایا جا رہا ہے۔ یعنی مغرب کو بالکل پسند نہیں کہ ہم اس علاقے میں کاروبار کریں۔


بینک کی ان برانچوں کا کردار آجکل تو اہم ہے ہی لیکن مستقبل کی ہماری تجارت جو کہ قدرے شمال کی طرف رخ اختیار کر رہی ہے اس کے لئے یہ بینک انتہائی ضروری ہیں۔ کرخیزستان، قزاقستان،تاجکستان ،ترکمانستان اور آذربائیجان میں کام کرتی ہوئی نیشنل بینک آف پاکستان کی برانچیں بند کرنے کے ساتھ ساتھ ازبیکستان کے دارالحکومت تاشقند میں قائم NBPکا رابطہ آفس بھی بند کر دیا گیا ہے۔

یہ آفس اور مذکورہ پانچ برانچیں بڑی مشکلات و تگ ودو کے ساتھ قائم کی گئی تھیں اور ان ممالک میں رہنے والی پاکستانی کمیونٹی بیشتر پاکستانی سفارتخانوں نے اس مقصد کے لئے بہت دوڑ دھوپ کی تھی۔ لیکن آج انتہائی خاموشی سے پاکستان کے اہم تجارتی مستقبل کا مغرب کے مفادیں قتل عام کیا جارہا ہے۔ کیا نئے پاکستان کے راہنما اس اہم مسئلے پر غور کرکے اس ظالمانہ اقدام کو روکنے کے لئے کوئی کردار ادا کریں گے۔ یہ سوال آج ہمارے معاشی مستقبل کے لئے اہم ترین حیثیت کا حامل ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :