بے بسی کی انتہا

جمعہ 1 جنوری 2021

Erij Fatima

ارج فاطمہ

اللہ تعالیٰ کا دین، جسے رحمتِ دو عالم حضرت محمد کریمﷺ لے کر آئے اس کا نام اسلام ہے۔ ہم نے اسلام کے نام پر "اسلام آباد" بنایا، اس میں ایک چڑیا گھر بھی بنا دیا۔ یہاں ہاتھیوں کا ایک جوڑا رکھاجن کا نام “کاون اور سہیلی “تھا مگر کرپشن اور نااہلی نے ڈیرے ڈاللئے۔ بے حسی صرف انسانوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اب جانور بھی اس ظلم کا شکار ہو گئے ہیں۔

عدم توجہ، خوراک کی کمی اور کبھی گھٹیا خوراک کی وجہ سے جانور مرنے اور بیمار ہونے لگے۔سہیلی مر گئی اور کاون اداس رہنے لگا۔ بجائے اس کے کہ ایک ہتھنی لا کر دی جاتی، اسے زنجیروں کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ اب جب ہاتھیکے ساتھ ظلم و زیادتی کی خبر دنیا میں پھیلی تو جانوروں کی عالمی تنظیمیں حرکت میں آئیں اور پھر اس "کاون ہاتھی" کو جہاز کے ذریعے کمبوڈیالے جایا گیا جہاں اسے کئی ایکڑ رقبے پر محیط خصوصی فارم میں پہنچا دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

اس فارم میں اس کی نسل سے متعلق اور ہاتھی بھی ہیں۔مزید یہ کہ وہ چھ سو کے قریب ہاتھیوں کے ایک غول میں بھی انجوائے کر سکے گا، جہاں ایک بڑے جنگل میں قدرتی ماحول اسے میسر آئےگا۔ کاون کی سہیلی 2012ء میں مر گئی تھی، اس کے بعد 2016ء سے ایک امریکی پاپ گلوکارہ متواتر اس مظلوم کاون کی رہائی کی کوشش کرتیرہی۔ یہ کوشش چار پانچ سالوں بعد رنگ لے آئی۔

امریکی گلوکارہ جس کا نامCHER ہے، نے ایک سپیشل ہوائی جہاز کا بندوبست کیا جسمیں کاون کو کمبوڈیا پہنچا دیا گیا۔ حضرت محمد کریمﷺ کی ایک حدیث ہے ، جس میںآپﷺ نے اگلی امتوں کا ایک واقعہ بیان فرمایا تھا کہ "ایک کتا کنویں کے گرد چکّر لگا رہا تھا، قریب تھا کہ پیاس کی شدت اسے ہلاک کرڈالے۔ اس دوران اسے ایک عورت نے دیکھ لیا جو بنو اسرائیل کی ناچ گانا کرنے والیوں میں سے تھی۔

اس نے اپنا جوتا اتارا اسےکنویں میں رسی کے ذریعے ڈال کر پانی نکالا اور کتے کی پیاس بجھائی،چنانچہ اس عمل کی وجہ سے اس عورت کو مرنے کے بعد بخش دیاگیا"۔ (بخاری:3467)
اسلام آباد میں جانوروں کی دیکھ بھال جنت کے حصول کا ذریعہ تھی مگر آج ک حکومت نے بھی اپنی حکمرانی کے دوران مظلوم جانوروں کومرنے دیا اور ان کا کوئی خیال نہ کیا۔ موجودہ حکومت نے بھی گزشتہ اڑھائی سالوں میں جانوروں کی مظلومیت پہ کچھ نہ کیا۔

ہم وہ لوگ ہیںکہ جو جانوروں کے ماحول، ان کی خوراک اور ان کی صحت کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔ ہم اپنے ظلم و زیادتی کا مداوا کرنے کے بجائےجاندار کو زنجیرں میں جکڑ دیتے ہیں۔ دنیا اگر مظلوم، بے بس اور لاچار کاون کی مدد کو نہ آتی تو ہم نے ایک دن یہی خبر سننا تھی کہ زنجیروںمیں جکڑا ہوا کاون درخت کو ٹکریں مارتا مارتا مر گیا۔ چلو کاون تو ایک گلوکارہ کی وجہ سے بچ گیا مگر باقی کتنے ہی جانور، جو اس چڑیا گھر میں مرگئے ان کی جوابدہی کس کے ذمہ ہے؟ ہمارے پُر رحمت حضورﷺ نے ایک مسلمان عورت کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے آگاہفرمایا: "ایک خاتون کو بلی پر ظلم کرنے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کر دیا گیا۔

  اس وجہ سے کہ وہ اس کی خوراک وغیرہ کھا جاتی ہے اس نےبلی کو پکڑ کر باندھ دیا۔ وہ بندھی ہوئی مر گئی۔ وہ عورت مرنے کے بعد جہنم میں چلی گئی کیونکہ اس نے بلی کو قیدی بنایا اور نہ اسے کھلایا اور نہہی پلایا اور نہ ہی یہ کیا کہ کچھ دیر باندھ کر اسے چھوڑ دیتی کہ وہ زمین پر اپنی خوراک تلاش کر کے کھا لیتی۔ (بخاری: 3482، مسلم: 6657) لوگو! رحمت دو عالمﷺ کے انہی فرمودات کی وجہ سے ہی حضرت عمرؓ نے اس ڈر اور خوف کا اظہار کیا تھا کہ اگر فرات کے کنارےاونٹنی کا بچہ بھی مر گیا تو عمر سے پوچھا جائے گا۔

اے حکمرانو! اسلام آباد میں موجود چڑیا گھر تمہارے اقتدار سے کتنا دور ہے؟ ہم ظلم کےشکار جانداروں کو مرنے کے بعد کیا جواب دیں گیں؟ اللہ کی عدالت میں حاضری کے وقت ریچھوں، شیروں، ہرنوں، بندروں، ہاتھیوں اورپرندوں وغیرہ  کے بارے میں اپنے کیے ہوئے مظالم کے جواب کیسے دیں گے ؟                        
ہمیں بحثیت مسلمان ہونے کے ناطے دین اسلام کے اصولوں اور آپﷺ کے احکامات کو اپنانا چاہیے تاکہ ہم دنیا میں اور آخرت دونوں میں رسوا ہونے سے بچ سکیں ۔

کیونکہ خدا کی پکڑ بہت سخت ہے۔ تو چاہے ظلم وزیادتی انسان پر کی گئ ہو یا بے زبان  جانور پر پکڑ دونوں صورت میں ہو گی۔ ہم اپنی اسلامی تعلیمات کو بھولتے جا رہے ہیںجبکہ غیر اسلامی ممالک انہی تعلیمات کو اپنا کر آگے بڑھ رہے ہیں اور ترقی کی راہوں پر چل کر دنیا بھر میں اپنا نام بنا رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :