’BLACK‘

جمعرات 29 جولائی 2021

Fahad Shabbir

فہد شبیر

سیانے کہتے ہیں کالے رنگ پر کوئی دوسرا رنگ نہیں چڑھا کرتا۔افریکہ دنیا کا آبادی اور رقبے کے لحاظ سے دوسرا بڑا برِاعظم ہے۔آسان زبان میں افریکہ سیاہ فام غلاموں کا اس دنیا پے ٹھکانہ ہے۔انسان اپنی جنم بھومی سے دنیا کے جن علاقوں پر سب سے پہلے وارد ہوا ان میں افریکہ کا نام سرِ فہرست ہے۔افریکہ سے دریافت ہونے والے انسانی ہڈیوں کے پتھر تقریبا سترلاکھ سال پرانے ہیں۔

کالوں کے اس دیس میں ابدی غلامی، ظلم اور بربریت کے مظالم سہنے کی ایک تاریخ پنہاں ہے۔سیاہ فام غلاموں کی تاریخ مصر کے فرعون بادشاہوں سے بھی پرانی ہے۔مگر تاریخ کی کتابوں میں ان پر ڈھائے مظالم کی داستانیں احرامِ مصر کی تخلیق سے ہی شروع کی جاتی ہیں ۔مختلف علاقوں سے یہاں امراء آتے اور سیاہ فام مرد ، عورتیں،بچے خرید کر غلام بنا کر لے جایا کرتے۔

(جاری ہے)

یہی سیاہ فام انسانی سمگلنگ کی بنیاد بنے۔صحرائے سہارا کے اطراف ان کی سمگلنگ کی جاتی رہی اور یوں یہ پوری دنیا میں پھیل گئے۔یہ ایشیاء، یورپ اور امریکہ میں بہت بڑے پیمانے پے سمگل کئے گئے۔انہیں بڑے بڑے پنجروں میں قید کرکے لے جایا جاتا اور ان کے ساتھ وہ سلوک ہوتا جو دنیا شاید جانوروں کے ساتھ بھی نہیں کرتی۔افریکہ کا زیادہ تر حصہ جو پہلے سوڈان اور ایتھوپیا پر مشتمل تھا، اب تقریبا 54 ریاستوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔

ان میں کونگو، سوڈان ، ایتھوپیا، صومالیہ ،یوگنڈا، نیمیبیا،نائیجیریا،کینیا،شام،مصر اور ساؤتھ افریکہ سرِفہرست ہیں۔افریکہ کو جہاں دنیا نے کالے رنگ کی وجہ سے نفرت کی نگاہ سے دیکھا اور غلام بنایا۔وہیں قدرت بھی نے بھی افریکہ پر بیماریوں کی صورت میں عذاب نازل کئے۔ ریسرچ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ٹی بی، ملیریا، ایڈز سمیت اکثر بیماریوں کا مرکز افریکہ ہی تھا ۔

میڈیکل ماہرین بھی اس بات سے متفق ہیں کہ دنیا بھر کے خطرناک ترین Virus افریکہ ہی میں دریافت ہوئے ہیں۔ان میں انتہاہی جان لیوا کانگو وائرس اور ایچ آئی وی سرِ فہرست ہے۔جہاں افریکہ سیاہ فام غلاموں اور بیماریوں کی اماج گاہ ہے وہیں دنیا کے بدترین قحط بھی اسی علاقے پر ٹوٹے ہیں۔آج بھی افریکہ دنیا کا سب سے زیادہ قحط زدہ علاقہ ہے۔خاص طور پر ایتھوپیا،صومالیہ ، سوڈان میں انسانی زندگی سانس تو لیتی ہے مگر موت کو غنیمت مانتی ہے۔


5 دسمبر 2013ء کو دنیا سے ایک اور مارٹن لوتھر سیاہ فام غلاموں کو دنیا میں برابری کے حقوق دلانے کی جنگ لڑتا لڑتا زندگی کی بازی ہار گیا۔Apartheid نامی ایک نظام دوسری جنگِ عظیم کے بعد افریکہ میں رائج کیا گیا۔اس میں انسانوں کو گوروں،سیاہ فام، Colored اور انڈین نسلوں میں تقسیم کیا گیا۔اس نظام نے سیاہ فاموں کو ایک بار پھر مصر کے فرعونی دور میں دھکیل دیا۔

سیاہ فام پہلے بھی پوری دنیا میں شدید نسلی امتیاز کا شکار تھے مگر اس نظام کے بعد ہر انتہا پار ہوگئی۔اس کا اثر پوری دنیا پر نظر آنے لگا۔ اگر کوئی سیاہ فام غلطی سے گوروں کی بس میں سوار ہوجاتا تو اسے ماردیا جاتا۔نہ یہ ووٹ ڈال سکتے تھے اور نہ ہی کسی ایسے پارک یا سینما کا رخ کرسکتے تھے کہ جہاں گوروں کا راج ہو۔الغرض افریکہ سمیت پوری دنیا ہی ان کے لئے تنگ پڑگئی۔

نیلسن نے اس نظام کے خلاف لڑتے لڑتے اپنی پوری زندگی سیاہ فام نسل کے نام کردی۔نیلسن نے اپنی جوانی کے 27 سال اسیری میں کاٹے جن میںRobben Island کی قید کے 18 اذیت ناک سال بھی شامل ہیں۔نیلسن نے جیل کے اندر سے بھی اپنی جماعت African National Congress کی آبیاری جاری رکھی اور بالآخر 10 مئی 1994ء کو نیلسن جب ساؤتھ افریکہ کا صدر منتخب ہوا تو آخری سانسیں لیتا Apartheid نظام بھی دم توڑ گیا۔

سیاہ فام نسلوں کو پنجروں سے باہر ایک عزت دار زندگی دینے کا خواب دیکھنے والا مارٹن لوتھر امریکہ میں ہی قتل کردیا گیا تھا، اور Apartheid نظام کے خلاف نسلی امتیاز کی جنگ لڑتے لڑتے یہ نیلسن بھی آج سیاہ فام نسل کو لاوارث کرگیا۔ نیلسن کی عمر چودہ برس تھی تو معالجوں نے بتایا کہ اسے ہڈیوں کی ٹی بی ہے، اور زندگی بچانے کے لیے اس کی ٹانگ کاٹنا ضروری ہے۔

سترہ برس کی عمر میں اس کی ٹانگ کاٹ دی گئی۔ کرب و ملال کی اس کیفیت میں اس نے ایک نظم کہی جو برسوں بعد بھی زندہ ہے۔ انگریز شاعر ولیم ارنسٹ ہینلے اور ان کی مشہور زمانہ نظم "Invictus" میں بھی اس نظم کا تذکرہ ہے۔ اپنی کرب ناک بیماری سے لڑتے ، جیل کی سلاخوں کے پیچھے نسلی امتیاز کی مایوسی میں گھِرے نیلسن نے خود کو حوصلہ دینے کے لیے’ ناقابلِ شکست ‘کے عنوان سے ایک نظم لکھی۔

اس کے چند اشعار پوری سیاہ فام نسل کی ترجمانی کرتے ہیں۔
حالات نے اپنی گرفت میں جب بھی مجھے جکڑا
نہ تو میں گھبرایا اور نہ ہی بَین کیا
مقدر کی پیہم ضربوں تلے
میرا سر خون آلود ہے مگر جْھکا نہیں
ایتھیوپیا میں بھوک ، افلاس ، بیماری سے لڑتے سیاہ فام اور لندن کی گلیوں میں راہ زنی کرتے سیاہ فام ، سب آج بھی دنیا کی بے حسی کا ثبوت ہیں۔

یہ دنیا کتنی دوغلی ہے۔ یہ ایک طرف تو نیلسن کو نوبل انعام سے نوازتی ہے،ایک سیاہ فام مسلمان کو صدی کا بہترین کھلاڑی قرار دیتی ہے، ایک سیاہ فام کو دنیا کی سپر پاور کا صدر منتخب کر لیتی ہے۔ تو دوسری طرف یہ دنیا آج بھی سیاہ فام نسل کو نہ تو بیماری اور افلاس سے نکالنے کو تیار ہے اور نہ یہ سوڈان،ایتھیوپیا کے قحط میں بھوک سے بلبلاتے بچوں کے منہ میں نوالا ڈالنے کو تیار ہے۔

آج بھی سیاہ فام نسل کو لندن کی گلیوں میں اسی حقارت سے دیکھا جاتا ہے جیسا آج سے صدیوں پہلے ان کویورپ کی منڈیوں میں دیکھا جاتا تھا۔آج بھی انسانی سمگلنگ کے نام پر جسم فروشی کے لئے دنیا بھر کی سستی منڈیوں میں سمگل کی جانیوالی لڑکیوں میں زیادہ تعداد انہی غریب افریکی ممالک کی ہی ہے۔آج بھی اولمپکس میں جب کوئی سیاہ فام کسی گورے کو چیرتا میلوں آگے نکل جاتا ہے تو میرے والد ہمیشہ ہرن اور شیر کی مثال دہراتے ہیں کہ سیاہ فام ایک ہرن ہے جو زندگی کے لئے دوڑ رہا ہے۔

گورے کو تو شیر کی طرح صرف بھوک لگی ہے۔ آج نیلسن کے جانے کے بعد اس لاوارث سیاہ فام نسل کا مستقبل کیا ہوگا؟ ان گورے شیروں کے نسلی امتیاز کی بھوک کب ختم ہوگی ؟ کوئی نہیں جانتا۔ سیانے صحیح کہتے ہیں کالے رنگ پر کوئی دوسرا رنگ نہیں چڑھا کرتا۔کیوں کہ سیاہ فام چاہے امریکہ کا صدر منتخب ہوجائے یا ایتیھوپیا میں اسے بیماری اور بھوک کھا رہی ہو۔دنیا کی نظر میں آج بھی یہ کالے غلام ہی ہیں اور دنیا انہیں ایک ہی نام سے جانتی ہے ’BLACK‘۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :