’عجوبے‘

پیر 16 اگست 2021

Fahad Shabbir

فہد شبیر

برطانیہ کا شاہی خاندان اپنے شاہی اندازِزندگی ، رہن سہن اور انفرادیت کی وجہ سے صدیوں سے شہرت رکھتا آیا ہے۔ہمارے آباؤ اجداد بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب برصغیر پر انگریزوں کی حکومت تھی تو لفظ ’کوئین‘ کسی خدا سے کم نہیں ہوا کرتا تھا۔مائی لارڈ ، ہائنس جیسے الفاظ بھی برصغیر کو اسی دور میں وراثت میں ملے ہیں۔مشہور زمانہ ڈاکومنٹری فلم THE ARRIVALS کے ایک حصے BLOOD LINES میں بہت ثبوت دے کر یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ اس خاندان کا شجرہ نصب مصر کے ان فرعون خداؤں سے ملتا ہے جنہوں نے اپنے آپ کو خدا کہلوایا۔

مگر حضرت موسیٰ کے بعد ان کی بقایات یورپ میں بس گئیں ،پھر وہاں ’گریٹ رائل رومن ایماپائر‘ کی بنیاد پڑی اور پھر یوں یہ لوگ امریکہ کے وائٹ ہاؤس تک پہنچ گئے اور کل سے آج تک ان کا دنیا پر راج جاری ہے۔

(جاری ہے)

جب 1981 میں” فرانسس متراں “فرانس کا صدر منتخب ہوا تو مصر کی حکومت نے درخواست کی کہ وہ فرعون کی لاش کے لیبارٹری ٹیسٹ اور اس کے متعلق جائزہ لے۔

151فرعون اس زمین پر بدنام آمر تھا،جب اس کی لاش فرانس پہنچی تواس کا شاہانہ استقبال کیا گیافرانس کے صدر اور اسکے وزراء نے فرعون کی عزت میں اپنا سر جھکایا-’151 استقبالیہ‘ تقریب کا اختتام ہوا تو فرعون کی لاش کو ایک خاص آثار شناسی کے مرکز لے جایا گیافرانس کی شہرت یافتہ ماہر آثار شناسی اور لاش کے پوسٹمارٹم کے ڈاکٹروں کو بلایا گیا تاکہ اس عظیم حنوط شدہ لاش کا معائنہ کر سکیں اور اس کے چھپے ہوئے رازوں سے پردہ اٹھا سکیں ان سائینسدانوں کی ٹیم کے لیڈر پروفیسر موریس بوکائیل تھے سب ڈاکٹر اور سائینسدان فرعون کی لاش میں سدھار لانے کو کوشش کر رہے تھے جب کہ پروفیسر کو اس بات میں دلچسپی تھی کہ فرعون کی موت کی وجوہات کیا تھیں سائینسدانوں نے معائنہ کی فائنل رپورٹ رات کو تاخیر سے جاری کو جس کے مطابق لاش میں بچا ہوا نمک اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ لاش سمندر میں ہی رہی ہے اور لاش محفوظ کرنے کے لئے قلیل عرصہ کے دوران حنوط کر دیا گیاایک چیز حیرت انگیز طریقہ سے پروفیسر موریس کو پریشان کر رہی تھی کہ یہ لاش دوسری لاشوں کی نسبت زیادہ محفوظ تھی ۔

پروفیسر موریس اپنی فائنل رپورٹ لکھ رہے تھے اور اس کے متعلق ان کی یہ سوچ تھی کہ فرعون کی موت کے بعد اس کے لاش کو محفوظ کرنے اور حنوط کاری کے متعلق یہ ایک نیا انکشاف ہوگا۔اسی دوران موریس کے کان میں کسی نے سرگوشی کی کہ مسلمان فرعون کے غرق( ڈوبنے ) کے متعلق دعوی کرتے ہیں ابھی تک پروفیسر موریس نے اس سے پوری طرح انکار نہیں کیا تھا کہ یہ دریافت سائنس، جدید ترین سائنسی تجربہ گاہ، حساس آلات اور کمپیوٹر کی مدد سے ممکن ہوئی ہے پروفیسر کے لئے یہ حیرت کی بات تھی کہ جب اس کو یہ بتایا گیا کہ مسلمانوں کی ایک کتاب جس کا نام قرآن ہے اور یہ فرعون کے ڈوبنے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے جسم کی حفاظت کی یقین دہانی کراتی ہے تاکہ فرعون کی موت انسانیت کے لئے ایک نشانی رہے ۔

پروفیسر کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا اور وہ حیران ہونا شروع ہوگیایہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کتاب جن نے 1400 سال پہلے اس لاش کے متعلق بات کی جب کہ یہ لاش 1881 میں دریافت ہوئی؟یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے جب کہ مصری آثار قدیمہ کچھ عشرے پہلے دریافت کئے گئے اور ان کے متعلق کوئی نہیں جانتا تھا؟پروفیسر حیران تھا کہ مقدس کتاب لاش کے محفوظ ہونے کے متعلق بات نہیں کرتی تھی جب سائنسدانوں نے لاش کے متعلقہ کام مکمل کر لئے تو فرانس نے اس کو واپس مصر بھیج دیا لیکن پروفیسر موریس کو ایک لمحہ کا بھی چین نہیں تھا جب سے اس نے یہ سنا تھا کہ مسلمان اس لاش کے تحفظ کے متعلق جانتے ہیں تو اس نے سفر کرنے کا ارادہ کیا اور قدیم انسانی علوم کے ماہر مسلمان سائنسدانوں سے ملا اور اس نے وہاں لاش کی دریافت اور اس کی موت کے بعد سمندر میں تحفظ کے متعلقہ معاملات پر بات کی ایک مسلمان سائنسدان اٹھا اور قرآن مجید کھولا اور پروفیسر کی توجہ اس آیت کریمہ کی طرف دلائی:” سو آج ہم صرف تیری لاش کو نجات دیں گے تاکہ تو ان کے لئے عبرت ہو جو تیرے بعد ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے آدمی ہماری نشانیوں سے غافل ہیں“ (۲۹) یونس۔

اتنے سالوں کی تحقیق کے بعد پروفیسر موریس نے چند کتب لکھی جس نے تمام یورپ کو ہلا کر رکھ دیا ۔ان کتب کا نام’قرآن،توریت،انجیل اور سائنس ‘ اور ’مقدس کتب کا مطالعہ جدید سائنس کے تناظر میں‘ تھا۔ یہ کتابیں مختصر عرصہ میں ہاتھوں ہاتھ بک گئیں۔برٹش ایمپائر کا یہ خاندان اسی فرعون کی بقایات میں سے ہے۔
 چارلس ہنری ہیرڈ نامی 25 سالہ نوجوان نے1824ء میں دریائے تھیمز(لندن) کے جنوب میں ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا۔

جو ایک سبزیوں کا سٹور بنا اور آہستہ آہستہ ایک بڑی سپر مارکیٹ بن گیا۔آج لندن میں واقع Harrods دنیا کا سب سے مہنگا شاپنگ مال ہے جہاں شاپنگ کا سامان ڈالنے کے لئے شاپنگ بیگ کی قیمت بھی 27 پاؤنڈ ہے۔Harrods صرف ایک سٹور ہی نہیں ہے بلکہ فیشن اور سٹائل کو دنیا میں متعارف کرانے کے میں Harrods اولین مقام رکھتا ہے۔یہ جانوروں کی کھالوں کے ناجائز استعمال کے حوالے سے بھی دنیا بھر میں بدنام ہے۔

مصر کے مشہور امیر ترین تاجر الفائد کو اس کاروبار کی پاداش میں کئی بار تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔Harrods کو یہ مقام دلوایا فرعون کی اسی اولاد نے جو اب رائل برٹش ایمپائر کے وارث ہیں۔ شہزادہ چارلس ، ان کے بیٹے،ملکہ الزبط سب ایک سرنگ کے ذریعے محل سے اس سٹور کا رخ کرتے ہیں اربوں کی خریداری کی جاتی ہے اور واپس محل کا رخ کرلیا جاتا ہے۔اس دوران ہر خاص و عام کا داخلہ Harrods میں بند ہوتا ہے۔

رائل برٹش ایمپائر کے ان عجوبوں نے آج بھی کسی نہ کسی طرح خدائیت کو زندہ رکھا ہوا ہے۔Harrods ایک مثال ہے ، رائل برٹش ایمپائر نے ”برانڈ“ نام کی چیز کو جنم دیا اور دنیا آج اس لفظ کے پیچھے دیوانی ہے۔ بروک سٹریٹ لندن پر واقع 5 سٹار ہوٹل Claridge's میں رہنے کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ آپ کوئی نامی گرامی انٹرنیشل شخصیت ہوں۔اس کے بغیر آپ اربوں روپے دے کر بھی اس ہوٹل میں نہیں رہ سکتے کیونکہ یہ ہوٹل رائل برٹش ایمپائر کے استعمال میں رہتا ہے اور یہ عام لوگوں کے رہنے کی جگہ نہیں ہے۔

ایک بار سعودی شہزادے نے سعودی عرب کے ہلال ہرن کے گوشت کی فرمائش کردی توClaridge's نے اس مقصد کے لئے ایک ذاتی طیارے کا بندوبست کیا تاکہ روز اس شہزادے کی پسند پوری کی جاسکے کیونکہ وہ Claridge's کا مہمان تھا اور یہ ایک برانڈ ،رائل برٹش ایمپائر کی مہر والا ہوٹل تھا۔اسی قسم کہ شاہی طرز سے ان فرعونوں نے دنیا میںآ ج بھی اپنا مقام زندہ رکھا ہوا ہے۔

لیڈی ڈیانا کا تعلق اس ایمپائر سے ضرور تھا مگر وہ ان کی اولاد میں سے نہیں تھی۔یہاں بات کرتے ہیں لندن کے مشہور پاکستانی سرجن ڈاکٹر حسنات احمد خان کی جو جنوبی پنجاب کے ایک میڈیکل کالج سے ڈاکٹر بنے اور چند ہی سالوں میں لندن کے نامور ڈاکٹر بن گئے۔1995ء میں لندن کے رائل برامپٹن ہسپتال میں ڈیانا اپنی سہیلی کی دل کی سرجری کی کے بعد عیادت کرنے آئی تو وہ اس پاکستانی کے عشق میں گرفتار ہوگئی۔

تاریخ گواہ ہے کہ1997ء میں ڈیانا ، لاہور پاکستان اسی ڈاکٹر سے ملنے آئی تھی جسے انگلش میڈیا ’ Mr.Wonderful‘ کے نام سے جانتا ہے یہ نام بھی ڈیانا کے عشق کی ہی ایک نشانی ہے۔عمران کے ہسپتال کے لئے چندہ اکھٹا کرنا اور جمائما سے ملاقات ڈیانا کے 1997ء کے دورے کے بس چند لوازمات تھے ۔ 1997ء میں اسی رائل برٹش ایمپائر کی موت دھمکیوں کے بعد ڈاکٹر حسنات نے ڈیانا کو چھوڑ دیا تو لیڈی ڈیانا نے ڈاکٹر حسنات کو واپس حاصل کرنے کے لئے ڈوڈی الفائد سے عشق چلایا ۔

جی ہاں، یہ ڈوڈی الفائد اسی مصری الفائد کا بیٹا تھا جو Harrods کا مالک تھا اور کئی بار جانوروں کی کھالوں کے ناجائز استعال کی وجہ سے دنیا میں تنقید کا نشانہ بنا تھا۔31 اگست 1997ء کو ڈوڈی اور ڈیانا پیرس میں ایک روڈ کے حادثے میں مارے گئے۔ڈاکٹر حسنات اور ڈوڈی کے والد الفائد نے ہمیشہ یہ الزام لگایا کے ان کو قتل کیا گیا۔ رائل برٹش ایمپائر اور برٹش ایجنسیاں خاص کر M16 اس بات پے نالاں تھی کہ شاہی خاندان کی یہ شہزادی اور موجودہ خدائیت کے وارثوں کی ماں اور شہزادہ چارلس کی سابقہ بیوی صدیوں پرانی خدائیت کا تماشہ بن رہی تھی۔

ڈاکٹر حسنات کو ڈیانا کے حاملہ ہونے پر بھی حیرانی تھی کیونکہ ڈیانا ہمیشہ مانع حمل ادویات کا باقائدہ استعمال کرتی تھی ۔الغرض اس ایمپائر نے شاہی خاندان کے ایک مشہور باغی اور فرعونیت کے موجودہ وارثوں کی ماں کو ابدی نیند سلا دیا۔یہ رائل ایمپائر ،ان کا طرز زندگی سب عجوبہ ہے۔ یہ آج کی ماڈرن دنیا کی اکانومی پر بھی چھائے ہوئے ہیں اور انہوں نے مصری شاہانہ خدائیت کو بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔

ہم بھی ان فرعونوں کی پیروی کسی نہ کسی شکل میں تو کر ہی رہے ہیں۔ہم بازار جائیں گے تو برانڈ ہمارے سر پے منڈلا رہا ہوگا۔کھانے کے لئے کسی بڑے ہوٹل کا رخ کریں گے تو بھی اس لفظ کی تلاش میں قطاروں میں لگے ہوں گے۔گاڑی خریدنے نکلیں گے تو بھی اس لفظ کے حسار میں گرفتار ہوں گے۔حتی کہ بچوں کی نیپی سے لے کر پانی کی بوتل تک میں ہم اسی لفظ کی تاڑ میں ہوتے ہیں۔آج بھی جب میں لوگوں کو ’ برانڈز‘ کے پیچھے پاگل ہوتا دیکھتا ہوں تو دل میں صرف ایک آواز گونجتی ہے ’ عجوبے‘ْ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :