ایک بدو کے ویژن کی کہانی

جمعرات 26 اگست 2021

Fahad Shabbir

فہد شبیر

یہ دبئی اور ابوظہبی کے درمیان ایک جزیرہ ہے۔ دنیا کے خوبصورت جزائر کی بات کی جائے تو اس کا نمبر شائد پہلے دس بارہ خوبصورت جزیروں میں مل جاتا ہے ، مگر یہ سارا انسان کا تخلیق کردہ حسن ہے۔ دبئی کے سفر کے بعد ، میری اگلی منزل یس جزیرہ تھی۔ امارات نے جس طرح سیاحوں کو یہاں اکٹھا کرنے کے بہانے ڈھونڈ رکھیں ،وہ دیکھ کر انسان دھنگ رہ جاتا ہے۔

ریگستان کو جس طرح آباد کیا گیا ہے ،یہ سب انسانی ہاتھ کا معجزہ ہے،آپ اسے قدرت کا شاہکار نہیں کہہ سکتے۔زاید بن سلطان النہیان نامی ایک شہزادے کے ویژن نے صحرا کو جنت نظیر میں بدل دیا۔ یہ صرف ایک سوچ تھی۔ ابوظہبی کی ریت میں جب اس بدو کو اختیار ملا تو اس نے النہیان قبیلے کے باقی شہزادوں کی طرح کنیزوں اور دیگر عیش کو نظر انداز کرتے ہوئے، ریت ،کجھوروں ،اونٹوں اور چند خیموں پر مشتمل اپنے علاقے کی بہتری کا سوچا،یہی وجہ ہے کہ زاید بن سلطان کو آج امارات میں پوجا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ شخص 33 سال امارات کا حکمران رہا، فوربز جریدے نے کئی بار اس کو دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں نمبر 1 کا درجہ دیا۔ زاید کو اپنے والد کی وفات کے بعد بڑے بھائی نے حکمرانی میں حصے کے طور پر ابو ظہبی کے مغربی علاقے کا گورنر بنا دیا۔ 1958 ء میں امارات سے تیل کا دریافت ہونا اور اس وقت تک زاید بن سلطان کا ابو ظہبی کے ایک بڑے علاقے پر حکمران مقرر ہو جانا آج کے ماڈرن ورلڈ کی بنیاد رکھ گیا۔

تیل کی دریافت کے بعد اسلام آباد کی طرح شیخ زاید نے بھی ایک شہر کی از سرِ نو بنیاد رکھ دی۔ایک جاپانی نقشہ ساز Dr.Katsuhiko Takahashi کو بلوایا گیا اوردنیا کا سب سے جدید شہر دبئی آباد کردیا گیا۔1968ء میں ابوظہبی کے امیر شیخ زاید اور دبئی کے امیر شیخ راشد کے درمیان امارات کو فیڈیریشن بنانے کا معاہدہ طے ہوا۔1971ء میں خلیج فارس کے جنوب مشرق میں واقع ’ امارات الساحل ‘ کے نام سے جانی جانے والی 6 ریاستیں دبئی ، ابوظہبی، شارجا، اجمان، ام ال قوین ،فیوجیراہ ، متحدہ امارات بن کر دنیا کے نقشے پر ابھر آئیں۔

یوں برطانوی راج میں PIRATE COAST کے نام سے جانے والی یہ سات ریاستیں 2 دسمبر 1971ء کو آزاد ہو گئیں۔ ساتویں ریاست راس الخیمہ 10 فروری ، 1972 ء کو امارات کی فیڈیریشن کا حصہ بن گئی۔ اگر آپ انگریزی کہاوت ’Divide and Rule ‘ کی مردہ شکل کو ’ Get Unite and Rule‘ کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں ،تو زاید بن النہیان کے ویژن کی پہلی منزل کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ وہی بوڑھے کسان کی بیٹوں کو چند لکڑیاں ، اکٹھا کرکے لانے والی کہانی، فیڈیریشن کا اصول بھی بس اتنا تھا۔

جو ریاستیں الگ الگ صحرا تھیں، جن کے شہزادوں کو گوروں نے عیاشیوں میں ڈالا تھا،اکٹھی ہوئیں ،تو آج یہ گورے اپنی عیاشی کے لیے ان کی ریاستوں کا محتاج ہیں اور وہ ان کے پیسے سے اپنی معشیت کو عروج پر پہچانے میں گامزن ہیں۔ شیخ زاید کو 1971ء میں پورے امارات کا صدر بنا دیا گیا۔یہ وہی وقت تھا،جب بنگلہ دیش ہم سے علیحدہ ہوا تھا۔1960 ء کی دہائی کو سامنے رکھ کر آپ اپنے پانچ صوبوں اور ان سات ریاستوں کا موازنہ کرنے لگیں تو حقیقت جان کر دل خون کے آنسو روتا ہے، جب ایک صحرا ، جنت بن رہا تھا، وہیں ایک جنت صحرا میں تبدیل ہورہی تھی۔

ہم سے ادھار طیارے لے کر ان ریاستوں کے لیے ائیر لائن کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ شیخ زاید کے ویژن کی دوسری منزل تھی۔ اس نے سات ریاستوں کو اکٹھا کیا،ان میں ماڈرن ترقی کی روح پھونک دی، تیل کے پیسے کو اپنی عیاشیوں پر لگانے کی بجائے ،جدید ترین سڑکیں، سکول ،ہسپتال قائم کیے،روزگار کے لیے بہترین انجینئرز کو دبئی کے درمیان میں لاکر بہترین مستقبل کے تحفے دیے گئے اور بدلے میں اس شہر کو ایسے مرکز میں تبدیل کرنے کو کہا گیا جو آنے والی دنیا پر راج کرے۔

ویژن کی دوسری منزل امارات کی سٹراٹیجک حیثیت سے فائدہ اٹھانا تھا۔ PIRATE COAST کے نام سے جانے والی یہ ریاستیں، دنیا کے لیے تجارت کا سنٹرل پوائنٹ بنائی جاسکتی تھیں۔ یوں جاپان ،کوریا سے لے کر امریکہ اور کینیڈا تک، دنیا بھر کے ہوائی اور بحری جہازوں کو دنیا کے وسط میں جدید ترین ائیرپورٹس اور بندرگاہیں دے دی گئیں۔ یوں پوری دنیا میں مغرب اور مشرق کے درمیان نقل و حرکت کا سنٹرل پوائنٹ امارات بن گیا اور آج یہ اسی وجہ سے پوری دنیا کا سب سے بڑا تجارتی مرکز اور ٹورسٹ پوائنٹ ہیں۔

زاید بن سلطان کے ویژن کی تیسری منزل حیران کن طور پر صحراؤں سے ابھرے اس مسیحا کی عقل کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتی، دبئی اور امارات کی اس قدر ترقی کے بعد یہ عین ممکن تھا،کہ یہاں معاش کے لیے جب باہر سے اتنی زیادہ تعداد میں انسانی فورس داخل کی جائے گی تو آنے والے وقتوں میں یہا ں کے مقامی افراد یعنی وطنی یا لوکلز کہیں ان لوگوں کی وجہ سے بہت پیچھے نہ رہ جائیں اور وہ آکر امارات کی ترقی کے حکمران نہ بن جائیں۔

زاید بن النہیان نے بہت سخت پالیسیاں اور قانون بناتے ہوئے،امارات کی شہریت اختیار کرنا کسی بھی غیر ملکی کے لیے مکمل ناممکن کردیا اور یہاں کے شہریوں کو سہولیات سے مالا مال کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر آپ امارات کا رخ کریں تو آپ کو ٹورسٹ ، سٹڈی یا ورک ویزا کے علاوہ ویزہ نہیں دیا جاتا،اور ورک ویزا کے لیے بھی آپ وہاں کے وطنیوں کی کفالت میں ہوتے ہیں۔

یوں دو تین دہائیوں میں ایشیاء سے انڈین ، پاکستانیوں، نیپالیوں ، سری لنکنز،بنگالیوں اور فلپینی شہریوں کی بہت بڑی کھیپ’ ورک اینڈ گو‘ کی پالیسی پر امارات درآمدکی گئی۔ اس کھیپ کے ساتھ آج کے ماڈرن امارات میں جو قصور ہو رہا ہے،اس پر اپنے حکمرانوں پر ندامت کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔ فلپائن،جو کہ پوری دنیا میں پہلے ہی انسانی جسم کے کاروبار کا سب سے بڑا مرکز ہے،امارات آکر بھی یہی کاروبار جاری رکھے ہے اور اس میں ایشیاء کے باقی ممالک کے باشندوں کو بھی شامل کردیا گیا ہے۔

یوں یورپ سے چند میل کے فاصلے پر ،دنیا کے بہترین سیاحت کے مقام امارات میں سیاح کو سب ملتا ہے۔ سچ پوچھیں تو دبئی جا کر ایسا لگتا ہے ،کہ مشرق غلام ہے، مغرب آقا اور یہ وطنی اپنی جگہ کی ترقی کے باعث ان دونوں کے شہنشاہ بنے ہوئے ہیں۔ زاید بن النہیان کے ویژن میں چوتھی منزل یہاں ٹورزم کو بطور انڈسٹری آباد کرنا تھا، یوں یہاں دنیا کے بہترین فائیو اور سیون سٹار ہوٹلز کے ساتھ ساتھ، نائٹ کلب، ساحل سمند ر کے بہترین بیچز اور دنیا بھر کے سب سے مہنگے برانڈز کے ورلڈ کلاس شاپنگ مالز کی کثرت نظر آتی ہے۔

ان مالز میں جہاں آپ کو دس سے پچاس لاکھ مالیت تک کے جوتے اور کئی ارب مالیت کے جواہرات برانڈز کا پاگل پن نوچتے نظر آتے ہیں ،وہیں ان مالز کی دکانوں پر پوری دنیا کی حوس سہتی فلپینی لڑکیوں کی بھی بھرمار نظر آتی ہے۔ شو پیس میں سجائی گئی یہ مسکین خواتین ، پورا مہینہ اربوں روپے کی مالیت کے برانڈ پروڈکٹس ہاتھوں سے اِ دھرا’ دھر کرنے کے باوجود مہینے میں اتنا بھی نہیں کما پاتیں کے خود اس مال کی کسی اچھی دکان پر بیٹھ کر اپنے پیسوں سے کافی کے ایک کپ کی چسکی ہی لگالیں۔

زاید بن النہیان کی زندگی کو جتنا پڑھ لیں، ماڈرن ترقی کے اتنے باب کھلتے چلے جاتے ہیں۔ میرے آنکھوں کے سامنے دنیا کی سب سے بڑی اور خوبصورت ترین مسجد شٰخ زاید گرینڈ مسجد کے ساتھ ملحقہ ایک شاندارمقبرہ موجود تھا۔ یہ شخص آج سے ایک دہائی پہلے گزر گیا،مگر گزری ہوئی چند دہائیوں میں اس قبر میں سوئے شخص کا کام کرتا ویژن ، صحرا ؤں میں بھٹکتے ان بدؤں کو آنے والی کئی دہائیوں تک ،شاد باد کر گیا۔

مساجد، ان کے احاطوں میں سوئے یہ بڑے لوگ ،اور ان کے ویژن، ایسے ہی ایک شخص نے پاکستان کا خواب سوچا تھا، کاش اس خواب کی تکمیل کے لیے ، زاید بن سلطان مسجد جیسا کوئی اور مقبرہ ہی میرے ملک کو نصیب ہوجاتا تو آج گوادر کے گرم پانی ، دنیا کا حقیقی سنٹرل تجارتی مرکز ہوتے، ہماری قومی ائیر لائن، آج بھی امارات کو جہاز ادھار دیتی نظر آتی اور پنجاب،سرحد،بلوچستان اور سندھ پر مشتمل یہ PIRATE COAST پوری دنیا کی سب سے ترقی یافتہ فیڈیریشن ہوتی۔

آج ٹی وی پر چلتی خبروں پر جب بھی اس ملک کے کسی شہزادے کی شادی اور طلاق کی خبریں سنتا ہوں تو مجھے شیخ زاید کی سات بیویاں یاد آنے لگتی ہیں، جن کے نام بھی وطنی نہیں جانتے،وہ ایک فیڈیریشن سے جڑی قوم ہیں،جو اس شخص کو دیوتا مانتی ہیں اور اس کے ویژن کی پوجا کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کی تمام برتری فقط ایک بدو کے ویژن کی کہانی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :