حقوق العباد، ہم، اور سوشل میڈیا‎

بدھ 10 مارچ 2021

Faizi Dar

فیضی ڈار

آج کل لوگوں کی اکثریت دوسرے کی بھیجی گئی پوست کو پڑھنا گوارہ نہیں کرتی اور اکثر لوگوں کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پوسٹ شیئر کریں۔ حالانکہ بہت زیادہ پوسٹ کرنے کی بجائے آپس میں ایک دوسرے کی پوسٹ کو سمجھنا چاہئے۔ اپنی پوسٹ سینڈ کرنے سے پہلے ان  پوسٹ پر بھی ایک نظر ضرور ڈالنی چاہیے جو آپ کے لیے آپ کے ساتھیوں کی طرف سے بھیجی گئی ہیں۔


تاکہ ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع مل سکے، ایک دوسرے کے خیالات کو جانا جا سکے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں برابر شریک ہو سکیں۔
ہم نے اکثر واٹس ایپ پر ایسے گروپ دیکھے ہیں کہ جن میں کوئی ایک دوسرے کو جانتا ہی نہیں۔ اس میں صرف اور صرف پوسٹ ہی پوسٹ ہوتیں ہیں۔ اور روزانہ کی سو، سو پوسٹ ہوتی ہیں۔
اب اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو کیا ہم میں سے کسی ایک کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ ہم ان تمام پوسٹ کو پڑھ سکیں، دیکھ سکیں، سمجھ سکیں؟؟؟؟؟
اگر کسی پوسٹ کی سمجھ بھی آجاتی ہے تو ہم اکثر موبائل فون رکھتے ہی سب بھول جاتے ہیں۔

(جاری ہے)


بہت سے گروپس میں تو لوگ انتقال کی خبر بھی بھیج دیتے ہیں۔ لیکن اس خبر پر صرف چند لوگ ہی ایک دو الفاظ سے تعزیت کرتے ہیں۔ جبکہ اس گروپ کے اراکین کی تعداد 200 سے بھی زائد ہوتی ہے۔
مزید افسوس کی بات یہ کہ انتقال کرنے والا انسان اس گروپ کا رکن 2 یا 3 سال پرانا ہوتا ہے۔
ایسے انسان کی خبر چند ہی منٹ بعد مزید پوسٹ میں چُھپ کر رہ جاتی ہے۔


اور گروپ اراکین 2 یا 3 سال پرانے ساتھی کو چند منٹ بعد بھلا دیتے ہیں۔ اور گروپ میں وہی واہ واہ، گُڈ ہو گیا وغیرہ کے میسج۔
ذرا سوچئے!
ایسے گروپ کا کیا فائدہ جہاں لوگ آپ کو جانتے نا ہوں۔
یا جہاں لوگ آپ کی پوسٹ پڑھتے ہی نا ہوں اور نا ہی آپ کسی کی پوسٹ کو ٹھیک سے پڑھ سکتے ہوں، جہاں کوئی آپ کے دکھ سکھ میں شریک نا ہو سکے۔
ہم اپنے گھر، اپنے ہمسایہ، اپنے رشتےداروں سے بہت دور جا چکے۔


آج اگر ایک شخص فخر سے کہتا نظر آتا کہ فیس بُک پر یا ٹیوٹر وغیرہ پر اس کے دس ہزار دوست ہیں۔
تو ایسے دس ہزار دوست صرف نام کے اور باتوں کے ہی ہیں۔ وہ سب آپ کے دکھ سکھ کے ساتھی نہیں ہیں۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں،کڑوڑوں دوست بنانا بُرا نہیں۔ لیکن اگر ان لاکھوں، کروڑوں انجانے دوستوں کی وجہ سے انسان اپنے بہن، بھائی، والدین، رشتےداروں اور محلے داروں کو ہی بھول جائے تو یہ غلط ہے۔

رہی بات اپنوں سے اختلافات کی تو جتنا انسان دور ہوتا ہے اتنے ہی اختلافات بڑھتے چلے جاتے ہیں، رنجشیں بڑھتی جاتیں ہیں۔
اسی طرح اگر لاکھ رنجشیں ہوں، لاکھ اختلافات ہوں روزانہ رابطے میں رہنے سے سب رنجشیں سب اختلافات سب لڑائیاں ختم ہو جاتیں ہیں۔
اسی نظریہ کو مدنظر رکھ کر ہمیں علاقائی اور مقامی لوگوں کے گروپ بنانے کا سوچنا چاہیے۔

ایسے گروپ کہ جس میں ایک علاقے کے لوگ ایک جگہ رہ کر اپنی بات سب تک پہنچا سکیں۔
اور کوئی بھی خبر سن کر سب اک جگہ اکھٹے ہو سکیں۔
ایک دوسرے کا سہارا بن سکیں۔ اور ایک دوسرے کی خدمت میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ ایسا گروپ جس میں صرف ادب،احترام اور عزت ہی عزت ہو۔ اس گروپ کے سب اراکین سچے دل سے مل جل کر ایک دوسرے کی خدمت کے لیے تیار رہیں۔


آپ سب سے التجاء ہے کہ باقی سب گروپ کے ساتھ ساتھ ایک ایسا گروپ بھی ضرور بنائیں جہاں آپ سب محلے دار اکھٹے ہوں۔ ایک ایسا گروپ بھی بنائیں جہاں آپ سب رشتےدار اکھٹے ہوں۔ ایک ایسا گروپ بھی بنائیں جہاں ایک محکمہ کے سب افراد اکٹھےہوں۔ اس کے علاوہ جتنے گروپ بھی بنانا چاہتے ہیں آپ بنائیں۔ لیکن حقوق العباد کے بنیادی گروپ کا ضرور خیال رکھیئے۔
تاکہ جدید دور میں بھی ہم سوشل میڈیا کے ذریعے حقوق العباد سے غافل نہ ہوں۔
اللّٰہ پاک ہم سب کو مِل جُل کر حقوق العباد پورے کرنے کی اور خدمتِ خلق کی توفیق عطا فرمائے۔
اللّٰہ پاک ہم سب کو اور ہمارے اہل خانہ کو دونوں جہانوں میں ہمیشہ خوش اور کامیاب رکھے۔ آمین ثم آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :