
ہماری دانشمندی اور ضائع کیا گیا کھانا
جمعرات 13 جنوری 2022

فیضی ڈار
بچپن سے ہمارے گھرانوں کی یہ روایت رہی ہے کہ ہم رزق ضائع نہ ہونے دینے پہ بچوں کی تربیت کرتے ہیں۔ ایک چیز جو ہمیں سکھائی جاتی ہے وہ یہ کہ پلیٹ میں جتنا نکالا ہے پورا ختم کرنا ہے۔ دوسری یہ کہ بچا ہوا کھانا ڈسٹ بن میں نہیں پھینکنا بلکہ کسی بھوکے کو دینا چاہیے۔ کسی فقیر، گھر میں کام کرنے والی یا گائے اور پرندوں وغیرہ کو۔
دانشمندی سے اور بنیادی مسئلے کو سمجھ کر اور بچوں کو سمجھا کر کھانا بچانے پہ توجہ دی جائے تو یہ ایک اچھی عادت ہے۔ جو کہ ایک متوسط اور اس سے بھی نچلے معاشی حالات رکھنے والے گھرانوں میں مددگار بھی ہے لیکن وہ نکتہ جو یہاں سرمایہ دارانہ ذہنیت کا شکار ہو گیا وہ یہ کہ ہم نے تمام تر توجہ پھینکنے کے قابل کھانے پہ مرکوز کرلی۔ یعنی ہم وہ کھانا جسے ڈسٹ بن میں پھینکنے کے قابل سمجھتے ہیں وہ کسی بھوکے کو دے دیتے ہیں اور اسے ثواب اور نیکی سمجھتے ہیں۔
اکثر تقاریب میں یہ چلن بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پلیٹوں میں بچا کھانا جس میں مہمانوں کے منہ کی نچی ہوئی ہڈیاں بوٹیاں اور تھوک تک شامل ہوتا ہے وہ سمیٹ کر کام کرنے والیوں اور فقیروں کو دے دیا جاتا ہے اور انتہائی ثواب ثواب محسوس کیا جاتا ہے۔ جیسے جنت میں مکان کنفرم کرا لیا ہوا۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دنیا میں بڑھتی ہوئی بھوک بنیادی طور پہ یہ اس کئی ہزار ٹن غذا کی ذخیرہ اندوزی سے ہوئی ہے جس پہ بھوکے اور غریب کا حق ہے جسے اگایا ہی اس نے ہے لیکن اس تک اسی کی رسائی نہیں ہے۔ یا جو دکانوں پہ سجی تو ہے لیکن غریب کی قوت خرید سے باہر ہے۔
یہ سوچ متوسط اور غریب گھرانے کے افراد کو اس احساس جرم میں مبتلا کرتی ہے کہ کسی وجہ سے کھانا پھینکنا پڑ رہا ہے اور دور دراز کسی جگہ کوئی بھوکا ہے تو یہ آپ کی ہی غلطی ہے۔ نظام اور ریاست کا غیر منصفانہ چلن پہلے سے غریب کو ہی مزید احساس گناہ وہ شرمندگی میں مبتلا کرتا ہے جس کے لیے یہ سب سے مضبوط ہتھیار یعنی مذہب کو استعمال کرتے ہیں۔ جس طبقے کے لیے حکمران طبقے سے برسر پیکار ہونا ہوتا ہے کہ بنیادی ضروریات تک اس کی رسائی ہو، اس کی تنخواہ میں اضافہ ہو ایک دن میں کم از کم ایک بار پیٹ بھر کے کھانا کھا سکے۔ اسے ممبر پہ بیٹھ کے یہ سبق سکھایا جاتا ہے کہ تمہاری جیب میں جو دو روپے بچے ہیں وہ بھی خدا کی راہ میں دے دو۔.
دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو مینیمم ویجز کو کم سے کم رکھنے کے لیے ہر تین دن بعد ہڑتال کر کے بیٹھ جاتا ہے۔ جو اپنے حصے کا سیلز ٹیکس بھی کسٹمر سے وصول کرتا ہے اور وہ بھی حکومت کو ادا نہیں کرتا۔ لیکن آپ شاذ و نادر ہی کسی مذہبی رہنما کے منہ سے ان کے لیے کوئی نصیحت سنیں گے۔ اور سنیں گے بھی تو وہ صدقہ و خیرات سے متعلق ہوگی محنت کش کو اس کا حق دینے کے حوالے سے نہیں ہوگی۔
یہ بات ذہن میں رکھیے اگر آپ خود نوکری پیشہ ہیں اور اپنے گھر کے خرچے بمشکل تمام پورے کر پاتے ہیں تو سڑک کنارے بیٹھے ہر بوڑھے سے چند روپے کا سامان لے لینے سے، بچا ہوا کھانا کام والی کو دے دینے سے، پرانے کپڑے غریب رشتہ دار کو دے دینے سے ان کی غربت ختم نہیں کر سکتے۔ صرف انہیں ایک مثبت جذباتی سہارا دے سکتے ہیں جس میں عزت کا عنصر ہونا بنیادی شرط ہے۔ کام والی کو کھانا دینا ہی ہے تو اپنے ساتھ تازہ کھانا ہی کھلا دیجیے۔ غریب ٹھیلے والے سے دو روپے کی کمی بیشی پہ اس کی بے عزتی مت کیجیے۔ یا کسی کی غربت کا خیال کر کے اس سے کچھ خرید رہے ہیں یا مدد کر رہے ہیں تو جتایے مت اور وڈیوز بنا کے تشہیر نہ کیجیے۔
یہاں بات ختم کرتے کرتے ایک نکتہ ذہن میں آیا تو سوچا اس پہ بھی بات ہو ہی جائے اکثر افراد یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ آپ کو نہیں پتا یہ ٹھیلے والے بہت چالاک ہوتے ہیں غلط منافع کماتے ہیں آپ کی نظر بچا کے خراب سامان دے دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کیا یہ واقعی صرف ان چھوٹے چھوٹے ٹھیلے والوں کا مسئلہ ہے۔ آپ جو چار ہزار کی نائٹ کریم خرید کے لاتے ہیں اور بڑے سے ڈبے میں سے ننھی سے ڈبیا نکلتی ہے جس میں چائے کے چمچ برابر کریم چپکی ہوتی ہے کیا وہ منافع خوری نہیں؟ ٹھیلے والے کی چالاکی سے آپ کا زیادہ میں زیادہ بیس تیس کا نقصان ہوا۔ جب کہ برانڈڈ پراڈکٹس پہ آپ ہزاروں کا نقصان سہتے ہیں۔
لیکن پھر بھی یہ اگر کہا جائے کہ روز کی بنیاد پہ یہ دھوکہ بہت ناگوار گزرتا ہے تو اس کا آسان حل یہ ہے کہ چند چالاک ٹھیلے والوں سے روز لڑ جھگڑ کے برا سامان لینے سے بہتر ہے کہ اردگرد نظر دوڑائیں کئی ایماندار لوگ ملیں گے سامان ان سے خریدیے۔ اور سامان لیتے ہوئے کچھ نظر خود بھی رکھیے۔ لیکن ایسے میں ہوتا یہ ہے کہ ایسا سیدھا اور ایمان دار ٹھیلے والا مل جائے تو وہ تو آپ کو کیا ٹھگے گا۔ وہ بچارا مفت کا ہرا مصالحہ دیتے دیتے لٹ جاتا ہے۔ اور یہ ہمیں اپنا حق لگتا ہے۔ جیسے ہرا دھنیا اور ہری مرچیں اس کے ابا کے کھیت کی تھیں یا آپ کے ابا کے کھیت کی تھیں اور آپ نے واپس لے لیں۔
دانشمندی سے اور بنیادی مسئلے کو سمجھ کر اور بچوں کو سمجھا کر کھانا بچانے پہ توجہ دی جائے تو یہ ایک اچھی عادت ہے۔ جو کہ ایک متوسط اور اس سے بھی نچلے معاشی حالات رکھنے والے گھرانوں میں مددگار بھی ہے لیکن وہ نکتہ جو یہاں سرمایہ دارانہ ذہنیت کا شکار ہو گیا وہ یہ کہ ہم نے تمام تر توجہ پھینکنے کے قابل کھانے پہ مرکوز کرلی۔ یعنی ہم وہ کھانا جسے ڈسٹ بن میں پھینکنے کے قابل سمجھتے ہیں وہ کسی بھوکے کو دے دیتے ہیں اور اسے ثواب اور نیکی سمجھتے ہیں۔
(جاری ہے)
کئی قسم کے اشتہارات اور اصلاحی تحاریر یہ بتانے کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ یہی دو چار نوالے بچا کے آپ دنیا کی بھوک ختم کر سکتے ہیں۔
اکثر تقاریب میں یہ چلن بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پلیٹوں میں بچا کھانا جس میں مہمانوں کے منہ کی نچی ہوئی ہڈیاں بوٹیاں اور تھوک تک شامل ہوتا ہے وہ سمیٹ کر کام کرنے والیوں اور فقیروں کو دے دیا جاتا ہے اور انتہائی ثواب ثواب محسوس کیا جاتا ہے۔ جیسے جنت میں مکان کنفرم کرا لیا ہوا۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دنیا میں بڑھتی ہوئی بھوک بنیادی طور پہ یہ اس کئی ہزار ٹن غذا کی ذخیرہ اندوزی سے ہوئی ہے جس پہ بھوکے اور غریب کا حق ہے جسے اگایا ہی اس نے ہے لیکن اس تک اسی کی رسائی نہیں ہے۔ یا جو دکانوں پہ سجی تو ہے لیکن غریب کی قوت خرید سے باہر ہے۔
یہ سوچ متوسط اور غریب گھرانے کے افراد کو اس احساس جرم میں مبتلا کرتی ہے کہ کسی وجہ سے کھانا پھینکنا پڑ رہا ہے اور دور دراز کسی جگہ کوئی بھوکا ہے تو یہ آپ کی ہی غلطی ہے۔ نظام اور ریاست کا غیر منصفانہ چلن پہلے سے غریب کو ہی مزید احساس گناہ وہ شرمندگی میں مبتلا کرتا ہے جس کے لیے یہ سب سے مضبوط ہتھیار یعنی مذہب کو استعمال کرتے ہیں۔ جس طبقے کے لیے حکمران طبقے سے برسر پیکار ہونا ہوتا ہے کہ بنیادی ضروریات تک اس کی رسائی ہو، اس کی تنخواہ میں اضافہ ہو ایک دن میں کم از کم ایک بار پیٹ بھر کے کھانا کھا سکے۔ اسے ممبر پہ بیٹھ کے یہ سبق سکھایا جاتا ہے کہ تمہاری جیب میں جو دو روپے بچے ہیں وہ بھی خدا کی راہ میں دے دو۔.
دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو مینیمم ویجز کو کم سے کم رکھنے کے لیے ہر تین دن بعد ہڑتال کر کے بیٹھ جاتا ہے۔ جو اپنے حصے کا سیلز ٹیکس بھی کسٹمر سے وصول کرتا ہے اور وہ بھی حکومت کو ادا نہیں کرتا۔ لیکن آپ شاذ و نادر ہی کسی مذہبی رہنما کے منہ سے ان کے لیے کوئی نصیحت سنیں گے۔ اور سنیں گے بھی تو وہ صدقہ و خیرات سے متعلق ہوگی محنت کش کو اس کا حق دینے کے حوالے سے نہیں ہوگی۔
یہ بات ذہن میں رکھیے اگر آپ خود نوکری پیشہ ہیں اور اپنے گھر کے خرچے بمشکل تمام پورے کر پاتے ہیں تو سڑک کنارے بیٹھے ہر بوڑھے سے چند روپے کا سامان لے لینے سے، بچا ہوا کھانا کام والی کو دے دینے سے، پرانے کپڑے غریب رشتہ دار کو دے دینے سے ان کی غربت ختم نہیں کر سکتے۔ صرف انہیں ایک مثبت جذباتی سہارا دے سکتے ہیں جس میں عزت کا عنصر ہونا بنیادی شرط ہے۔ کام والی کو کھانا دینا ہی ہے تو اپنے ساتھ تازہ کھانا ہی کھلا دیجیے۔ غریب ٹھیلے والے سے دو روپے کی کمی بیشی پہ اس کی بے عزتی مت کیجیے۔ یا کسی کی غربت کا خیال کر کے اس سے کچھ خرید رہے ہیں یا مدد کر رہے ہیں تو جتایے مت اور وڈیوز بنا کے تشہیر نہ کیجیے۔
یہاں بات ختم کرتے کرتے ایک نکتہ ذہن میں آیا تو سوچا اس پہ بھی بات ہو ہی جائے اکثر افراد یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ آپ کو نہیں پتا یہ ٹھیلے والے بہت چالاک ہوتے ہیں غلط منافع کماتے ہیں آپ کی نظر بچا کے خراب سامان دے دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کیا یہ واقعی صرف ان چھوٹے چھوٹے ٹھیلے والوں کا مسئلہ ہے۔ آپ جو چار ہزار کی نائٹ کریم خرید کے لاتے ہیں اور بڑے سے ڈبے میں سے ننھی سے ڈبیا نکلتی ہے جس میں چائے کے چمچ برابر کریم چپکی ہوتی ہے کیا وہ منافع خوری نہیں؟ ٹھیلے والے کی چالاکی سے آپ کا زیادہ میں زیادہ بیس تیس کا نقصان ہوا۔ جب کہ برانڈڈ پراڈکٹس پہ آپ ہزاروں کا نقصان سہتے ہیں۔
لیکن پھر بھی یہ اگر کہا جائے کہ روز کی بنیاد پہ یہ دھوکہ بہت ناگوار گزرتا ہے تو اس کا آسان حل یہ ہے کہ چند چالاک ٹھیلے والوں سے روز لڑ جھگڑ کے برا سامان لینے سے بہتر ہے کہ اردگرد نظر دوڑائیں کئی ایماندار لوگ ملیں گے سامان ان سے خریدیے۔ اور سامان لیتے ہوئے کچھ نظر خود بھی رکھیے۔ لیکن ایسے میں ہوتا یہ ہے کہ ایسا سیدھا اور ایمان دار ٹھیلے والا مل جائے تو وہ تو آپ کو کیا ٹھگے گا۔ وہ بچارا مفت کا ہرا مصالحہ دیتے دیتے لٹ جاتا ہے۔ اور یہ ہمیں اپنا حق لگتا ہے۔ جیسے ہرا دھنیا اور ہری مرچیں اس کے ابا کے کھیت کی تھیں یا آپ کے ابا کے کھیت کی تھیں اور آپ نے واپس لے لیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.