
مری برا ہے نہ مری والے (ہم سب دیہاڑی دار )
بدھ 12 جنوری 2022

فیضی ڈار
میں کبھی مری نہیں گیا اور نہ ہی وہاں میرا کوئی عزیز رہتا ہے۔ہر سال دوست کہتے ہیں کہ کسی ویک اینڈ پہ گھومنے چلیں۔میں پوچھتا ہوں کہاں جائیے گا تو اکثر کا جواب ہوتا ہے۔مری چلتے ہیں۔اس سال جب سے برف باری سیزن شروع ہونے کی امید تھی تو بھی احباب کی طرف سے اس خواہش کا اظہار کیا جارہا تھا کہ گروپ کی شکل میں مری چلتے ہیں۔میں اکثر پوچھتا ہوں کہ آپ گھومنے پھرنے کے لیے مری ہی کو ترجیع کیوں دیتے ہو تو جواب ملتا ہے وہاں خوبصورتی بہت ہے درخت ہیں اور لوگ بہت آئے ہوئے ہوتے ہیں۔میں صرف اتنا ہی کہتا ہوں کہ جہاں پہلے ہی رش ہے وہاں جانے کی بجائے کسی اور طرف چلتے ہیں۔کشمیر کو چلتے ہیں،لاہور چلتے ہیں،جنوبی پنجاب،ملتان،بہاولپور یا کسی ندی کنارے کو چلتے ہیں۔
صاحبو!میں تو ایک مدت سے یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستانی قوم اکثریت میں ہے ہی دیہاڑی دار۔جس کا جہاں بس چلتا ہے وہ لمبی دیہاڑی لگانے کی کوشش کرتا ہے۔دیہاڑی لگانے والوں کو نہ خدا کا خوف ہوتا ہے اور نہ وہ کسی قانون کو خاطر میں لاتے ہیں وہ ہر حال میں موقع سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کی وجہ تلاش کرنا بلکل بھی مشکل نہیں ہے۔سادے لفظوں میں کہوں گا کہ ہمارا
یقین کمزور ہے اور اخلاقیات کی کمی ہے۔اس لیے ہر کوئی دیہاڑی لگانے کے چکر میں ہے۔ایک طر ف ہماری حکومتیں اپنے خرچ پورے کرنے کے لیے ہزار طرح کے ٹیکس لگائے چلی جارہی ہیں۔ تو پھر دوسری طرف کوئی مدرسوں کے نام پر فلاحی تنظیموں کے نام پر، ملک سنوارو قرض اتارو کے نام پر ،ہسپتالوں کے نام پر، پارٹی فنڈز کے نام پر، الیکشن میں ٹکٹ بیچ کر، اسمبلی اور سینٹ میں ووٹ بیچ کر اور کوئی اپنی قربانیوں کے نام پر دیہاڑیاں لگا رہا ہے۔باقی چھوڑئیے کوئی یہ بتا دے کہ بجلی کے بل میں جو پی ٹی وی کی فیس کی کاٹی جاتی ہے اس کا عوام کو کیا فائدہ ہے۔اتنے زیادہ ٹی وی چینل آنے کے بعد پی ٹی وی کتنے لوگ دیکھتے ہوں گے۔اور پھر آج کل پی ٹی وی کون سے انقلابی ڈرامے بنا رہا ہے کہ قوم کے خون پسینے کی کمائی ہر ماہ اس ادارے کو پالنے کے لیے دی جارہی ہے۔آج کل تو پی ٹی وی دوسرے ٹی وی چینلز اور غیر ملکی ڈرامے خرید کے اپنا کام چلا رہا ہے تو پھر عوام سے یہ پیسے لینے کا کیا مقصد ہے۔یعنی کسی نہ کسی طریقے سےمال بنایا جا رہا ہے۔
اب دوست پوچھتے ہیں کہ اس کا حل کیا ہے۔میرے خیال میں اس کا حل مشکل ہے ناممکن نہیں۔اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنے بچوں کی شروع دن سے تربیت کا خاص اہتمام کرنا ہوگا۔پرائمری سکول اور محلے کی مسجد میں انتہائی پڑھے لکھے،اچھے اخلاق والے،روایات کے امین،قول و فعل کے پکے اور زمانہ شناس لوگوں کو پر کشش تنخواہوں اور دوسری سہولتوں کے ساتھ تعینات کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔جو آنے والی نسل کے اندر انسانیت سے محبت کا جذبہ کرنے کی کوشش کریں ۔ملک سے محبت کا درس دیں۔اخلاقیات،اقدار اور روایات کی اہمیت بچوں کے ذہنوں میں نقش کردیں ۔اسکے بعد ہماری حکومت کو ملکی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر قانون سازی کی طرف جانا ہوگا۔پھر جیسے سرکاری نوکر ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال تک الیکشن نہیں لڑ سکتا ہے ویسے ہی پینشن لینے والے بندے کو اپنے ہی ملک میں رہنے کا پابند بنانا ہوگا۔اس کے بعد یہ بھی سوچنا ہوگا کہ جس ملک میں لاکھوں بے روز گار نوجوان ہیں اس ملک میں کیوں ہماری حکومتیں ریٹائر ہونے والوں کے لیے دوبارہ نوکریوں میں کوٹے رکھے ہوئے ہیں۔
(جاری ہے)
مجھے ویسے بھی پرانے قلعے،حویلیاں اور پرانی تنگ گلیاں اچھی لگتی ہیں۔لاہور سے محبت بھی اسی لیے ہے کہ وہاں جتنی بار چلیں جائیں لاہور ہر بار نئے انداز سے خوش آمدید کہتا ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ لوگ دو دن کے لیے سیر و تفریح کے نام پر مری جانے کو ہی کیوں ترجیع دیتے ہیں۔ اور پھر ہمارے لوگ یہ نقطہ کیوں نہیں سامنے رکھتے کہ مری جہاں صرف چار سے پانچ ہزار گاڑیاں پارک کرنے کی جگہ ہے وہاں اگر دس ہزار گاڑیاں پہنچ جائیں گی تو مسائل کا سامنے آنا فطری اَمر ہے لیکن جب چار پانچ ہزار والی جگہ پر لاکھ سے زائد گاڑیاں پارکنگ کے لیے پہنچنے لگیں گی تو مسائل کا انبار لگ جائے گا۔پارکنگ کی جگہ نہ ملے گی تو لوگ اپنی قیمتی گاڑیاں سڑکوں پر ہی روکے رکھنے پر مجبور ہوں گے۔جس سے پیچھے سے آنے والی گاڑیاں اپنے لیے جگہ تلاش کرنے کے چکر میں راستے بند کرتی چلی جائیں گی۔نتیجہ سڑکوں پر ٹریفک جام ہوجائے گی۔جو کہ ہوا۔ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ اگر گنجائش سے زیادہ لوگ مری پہنچیں گے تو رہائش کا بندوبست نہیں ہو سکے گا،اپنے گھر والوں کو برف دکھانے کے لیے لے جانے والو ں کو یہ بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ ان دنوں جبکہ مری میں موسم کافی سرد ہے،برف باری بھی ہورہی ہے تو ایسے میں اپنے پیاروں اور یاروں کی زندگیوں کو مشکلات سے بچانے کے لیے گھر سے نکلتے وقت ہوٹلز کی بکنگ کا اہتمام کر لیا جائے۔ہوٹل میں کمرہ بک کروائے بغیر ان دنوں کہیں نہیں جانا چاہیے۔کہا جاتا ہے کہ ساری دنیا میں سیزن کے دنوں میں جب سیاحوں کا رش ہوجائے تو ہوٹلز کے کرائے بڑھ جاتے ہیں۔لیکن میرے خیال میں دنیا میں پھر بھی یہ سب کچھ ایک نظام کے تحت چل رہا ہے کہ ہر کہیں ہوٹلز میں بکنگ کے لیے آن لائن سسٹم موجود ہوتا ہے۔پاکستانی حکومت ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے باتیں تو بہت کرتی ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ انہیں سیاحت کے فروغ کے لیے منصوبہ بندی کرنے کا کوئی خیال نہیں ہے۔صرف ٹی وی پر بیانات سے نہ سیاحت پنپ سکتی ہے نہ ملک میں انصاف کا بول بالا ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔اب لیکر پیٹنے سے کچھ نہیں ہو سکتا ہے بہتر ہے کہ سب سے پہلے بنیادی کام کرنے کی کوشش کی جائے۔پورے ملک میں سیاحوں کے لیے کوئی ایک ویب سائٹ یا پھر ٹی وی چینل لانچ کیا جائے۔جہاں ہر وقت ایک طرف ملک کے پر کشش مقامات سیاحوں کے سامنے پیش کیے جاتے رہیں اور دوسری طرف موسم کے حالات اور قیام و طعام بارے آگائی دی جاتی رہے۔ یعنی سیاحوں کی سہولت کے لیے ہوٹلز کو آن لائن بکنگ کی طرف لایا جائے۔کیونکہ ہوٹلز کو اگر آن لائن سسٹم سے منسلک کردیا جائے تو لوگ گھر سے نکلتے ہی اپنے لیے مناسب قیمت میں کمرہ بک کروا سکتے ہیں لیکن افسوس یا تو یہ سہولت میسر ہی نہیں ہے اور اگر ہے تو اس کی تشہیر نہیں ہورہی۔ایک اہم نقطہ تو یہ بھی ہے کہ ہمارے لوگوں کو سیاحت کا مفہوم ہی نہیں سمجھایا جارہا۔گھومنے پھرنے کے لیے ملک میں اور بھی بہت سے خوبصورت پہاڑی علاقے ہیں جہاں برف بھی پڑتی ہے۔ساتھ دریا بھی بہتے ہیں۔آبشاریں ہیں جھیلیں ہیں اور قدرت کے ہزار رنگ دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈالے نظر آتے ہیں۔لیکن لوگوں کی اکثریت ویک اینڈ گزارنے کے لیے مری جانے کے لیے ہی تیار نظر آتی ہے۔اب بات کر لیتے ہیں کہ چند دن پہلے مری میں کیا ہوا اور کیوں ہوا۔ جس کے بعدسوشل میڈیا پر مری والوں کو جی بھر کے برا بھلا کہا جارہا ہے۔قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد لوگوں کا یہ رد عمل فطری بھی تھا۔بے شک تصویر کا ایک رخ یہی تھا لیکن ہمیں تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کی بھی کوشش کرنا ہوگی۔ہم یہ کیوں نہیں سوچ رہے کہ جب کسی گھر ضر ورت سے زائد مہمان چلے جائیں تو انہیں سنبھالنا کتنا مشکل ہوجاتا ہے۔اور جب مہمان اتنے زیادہ ہوں کہ ان کے لیے گھر میں جگہ ہی نہ بچے اوروہ مہمان سڑکوں پر ہی قیام و طعام شروع کردیں اور رفع حاجت بھی سر عام کرنے لگیں تو میزبانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔کچھ مہینے پہلے پاکستان فیڈریشن آف کالمنسٹ کے ساتھ ہم ناران،کاغان اور جھیل سیف الموک کی سیر کو گئے تو میں نے ہر کہیں یہ دیکھا کہ مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان سے لوگوں نے وہاں ہوٹلز بنا رکھے ہیں۔اس لیے میرا خیال ہے بلکہ مجھے یقین ہے کہ مری میں بھی بہت سے لوگوں نے باہر سے آکے ہوٹل اور ریسٹ ہاوسسز بنا رکھے ہوں گے۔ہمارے ایک سینیر دوست نے کل سوشل میڈیا پر پوسٹ لگائی تھی کہ مری میں بہت سے ہوٹل میڈیا والوں اور صاحب حثیت لوگوں کے زیر سایہ چل رہے ہیں۔یہ لوگ نہ انتظامیہ سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی عوام کے لیے آسانیاں مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ صرف اور صرف دیہاڑیاں لگانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔انہیں معلوم ہوتا ہے کہ برف باری دیکھنے کے لیے نہ صرف پنجاب بھر سے بلکہ ملک کے دوسرے حصوں سے لوگ بنا کسی تیاری مری پہنچیں گے تو یہ اپنے آلہ کاروں کو انہیں گھیر کے لمبی دیہاڑیاں لگانے کے لیے تیار رکھتے ہیں۔ایسے میں صرف مری والوں کو قصور وارکہنے سے کام نہیں چلے گا۔ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہم بحثیت قوم اخلاقی پستی کا شکار ہو چکے ہیں۔صاحبو!میں تو ایک مدت سے یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستانی قوم اکثریت میں ہے ہی دیہاڑی دار۔جس کا جہاں بس چلتا ہے وہ لمبی دیہاڑی لگانے کی کوشش کرتا ہے۔دیہاڑی لگانے والوں کو نہ خدا کا خوف ہوتا ہے اور نہ وہ کسی قانون کو خاطر میں لاتے ہیں وہ ہر حال میں موقع سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کی وجہ تلاش کرنا بلکل بھی مشکل نہیں ہے۔سادے لفظوں میں کہوں گا کہ ہمارا
یقین کمزور ہے اور اخلاقیات کی کمی ہے۔اس لیے ہر کوئی دیہاڑی لگانے کے چکر میں ہے۔ایک طر ف ہماری حکومتیں اپنے خرچ پورے کرنے کے لیے ہزار طرح کے ٹیکس لگائے چلی جارہی ہیں۔ تو پھر دوسری طرف کوئی مدرسوں کے نام پر فلاحی تنظیموں کے نام پر، ملک سنوارو قرض اتارو کے نام پر ،ہسپتالوں کے نام پر، پارٹی فنڈز کے نام پر، الیکشن میں ٹکٹ بیچ کر، اسمبلی اور سینٹ میں ووٹ بیچ کر اور کوئی اپنی قربانیوں کے نام پر دیہاڑیاں لگا رہا ہے۔باقی چھوڑئیے کوئی یہ بتا دے کہ بجلی کے بل میں جو پی ٹی وی کی فیس کی کاٹی جاتی ہے اس کا عوام کو کیا فائدہ ہے۔اتنے زیادہ ٹی وی چینل آنے کے بعد پی ٹی وی کتنے لوگ دیکھتے ہوں گے۔اور پھر آج کل پی ٹی وی کون سے انقلابی ڈرامے بنا رہا ہے کہ قوم کے خون پسینے کی کمائی ہر ماہ اس ادارے کو پالنے کے لیے دی جارہی ہے۔آج کل تو پی ٹی وی دوسرے ٹی وی چینلز اور غیر ملکی ڈرامے خرید کے اپنا کام چلا رہا ہے تو پھر عوام سے یہ پیسے لینے کا کیا مقصد ہے۔یعنی کسی نہ کسی طریقے سےمال بنایا جا رہا ہے۔
اب دوست پوچھتے ہیں کہ اس کا حل کیا ہے۔میرے خیال میں اس کا حل مشکل ہے ناممکن نہیں۔اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنے بچوں کی شروع دن سے تربیت کا خاص اہتمام کرنا ہوگا۔پرائمری سکول اور محلے کی مسجد میں انتہائی پڑھے لکھے،اچھے اخلاق والے،روایات کے امین،قول و فعل کے پکے اور زمانہ شناس لوگوں کو پر کشش تنخواہوں اور دوسری سہولتوں کے ساتھ تعینات کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔جو آنے والی نسل کے اندر انسانیت سے محبت کا جذبہ کرنے کی کوشش کریں ۔ملک سے محبت کا درس دیں۔اخلاقیات،اقدار اور روایات کی اہمیت بچوں کے ذہنوں میں نقش کردیں ۔اسکے بعد ہماری حکومت کو ملکی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر قانون سازی کی طرف جانا ہوگا۔پھر جیسے سرکاری نوکر ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال تک الیکشن نہیں لڑ سکتا ہے ویسے ہی پینشن لینے والے بندے کو اپنے ہی ملک میں رہنے کا پابند بنانا ہوگا۔اس کے بعد یہ بھی سوچنا ہوگا کہ جس ملک میں لاکھوں بے روز گار نوجوان ہیں اس ملک میں کیوں ہماری حکومتیں ریٹائر ہونے والوں کے لیے دوبارہ نوکریوں میں کوٹے رکھے ہوئے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.