طاقت کے پجاری

منگل 29 ستمبر 2020

Faraz Ahmad Wattoo

فراز احمد وٹو

’’انسان چند چیزوں سے متاثر ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ ان چیزوں کو حاصل کرے تاکہ ایک دنیا کو وہ ان سے متاثر کر سکے اور لوگ چاہیں کہ کاش ہم اس کی جگہ ہوتے۔ ان چیزوں میں سے ایک طاقت بھی ہے۔ دنیا کے سارے گندے کھیل طاقت کے حصول کیلیے ہی کھیلے جاتے ہیں۔‘‘
وہ ایک بزرگ تھے جنہیں مشکلات اور خطرات کے باعث اپنا ملک چھوڑنا پڑا تھا۔

طالبِ علم ان سے ایک یونیورسٹی میں ملا تھا اور اب وہ اس مشکل پسند کے ذہن میں الجھی گتھیاں سلجھا رہے تھے۔
’’طاقت ایک ایسی چیز ہے کہ یہ لوگوں کے دلوں پر آپ کا رعب طاری کر دیتی ہے۔ لوگ آپ سے مرعوب ہوتے ہیں۔ تم نے کبھی دیکھا ہے کہ لوگ چڑھتے سورج کے پجاری ہیں۔ یہ طاقتوروں کے گن گاتے ہیں اور ان کی حاکمیت کو از خود قبول کرلیتے ہیں۔

(جاری ہے)

کبھی سوچا ہے ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘‘ انہوں نے سوال کر دیا تھا اور میں اب وہ الفاظ ڈھونڈنے لگا تھا جو میری جاہلیت کو چھپا جائیں۔


’’ اس لیے کہ وہ متاثر ہو گئے ہوتے ہیں؟‘‘ میں نے آخرکار الفاظ کا چناؤ کر لیا تھا۔ وہ تفصیل کی طرف بڑھے ’’ عام لوگوں کیلیے حاکمیت کو تسلیم کرنے اور طاقت کے گن گانے میں ایک مزا ہوتا ہے۔ یہ مزا بڑا مسحور کن ہوتا ہے۔ لوگ جب خود کو شہری کی بجائے رعایا تسلیم کر لیتے ہیں تو انہیں اپنے حکمران کی غلطی بھی حق لگتی ہے اور اس کے لوگوں پر ستم بھی صحیح لگتے ہیں۔

وہ مان چکے ہوتے ہیں کہ بس اب یہ شخص، خاندان، طبقہ یا ادارہ ہی ان کا، ان کی زمین کا اور ان کے مذہب، روایات اور تہذیب کا رکھوالا ہے۔ یعنی وہ ہر شے پر اپنے حاکموں کی Monopoly مان لیتے ہیں۔‘‘
’’ ایسا کیسے ہوتا ہے؟ لوگ طاقت کی پرستش تو کر سکتے ہیں لیکن وہ کیسے کسی کو اپنا حاکم مانیں گے؟ اور وہ بھی یوں کہ وہ مذہب اور کلچر پر بھی ان کی اجارہ داری تسلیم کریں اور خود اس کی تاویلیں تک کریں؟‘‘ طالبِ علم نے سوالات کی فہرست رکھ دی تھی۔


’’ یہ پرانے وقتوں سے چلا آ رہا ہے۔ تاریخِ انسانی میں انسان نے ہمیشہ Idealism کو چھو کر دیکھنے کی خواہش کی ہے۔ اس کی خواہش حقیقت میں پوری نہ ہوئی تو اس نے ایک رومانوی دنیا بنا لی جہاں ہمیشہ Happy Ending ہوتی ہے اور Fairy Tales بنتی ہیں۔ اس سے اس نے غیر حقیقی سہی لیکن حسن اور طاقت کا وہ بت تراشا جسے اس نے پھر حقیقت کی دنیا میں بھی تلاشنا چاہا۔

اسے ملے گا یا نہیں، یہاں یہ زیرِ بحث نہیں ہے۔ نقطہ یہ ہے کہ اس نے بت تراش لیا۔ تمہیں پتہ ہے بت پرستی میں بھی کتنا مزا ہوتا ہے؟‘‘ انہوں نے مجھے پھر گفتگو میں شامل کرنا چاہا۔ ’’ یہ تو بت پرست ہی جانے‘‘ میں نے محفوظ گلی سے نکلنا چاہا۔ وہ سمجھ گئے تھے۔ خود ہی تفصیل کرنے لگے۔
’’بت پرستوں کو بھی اتنا ہی مزا ملتا ہے جتنا کسی بھی صوفی یا عابد کو ملتا ہو گا۔

وہ بھی کوئی کم عبادت نہیں کرتے اور نذرانے بھی بہت دیتے ہیں۔ سو طاقت کے پجاریوں کا بت ہر وہ شخص بن سکتا تھا جو ان کے ذہن میں موجود حاکم یا بادشاہ کے اس خاکے سے جا ملے جو ان کے ذہن میں محفوظ تھا۔ یہ پرانے وقتوں کی بات ہے۔ اب حاکمیت منوانے کیلیے رومانوی دنیا کے خاکے کی بجائے اسی دنیا کے زمینی حقائق کے استعمال سے خاکہ بنایا اور حاکمیت منوانے کیلیے استعمال کیا جاتا ہے۔

لوگ اگر چیلنج کریں تو انہیں باقی موجود سب آپشنز کا ستیا ناس کر کے دکھایا جاتا ہے اور ان کے ذہن میں یہ بات بٹھائی جاتی ہے کہ ہم ناگزیر ہیں۔ ہمارے مقاصد عظیم ہیں اور موجودہ نقصانات دیکھ کر اگر تمہیں لگ رہا ہے کہ ہم کچھ غلط کر رہے ہیں‘ تو یاد رکھا عظیم مقاصد کے نتائج بھی غیر معمولی ہوتے ہیں۔ لہٰذا غربت، امن و امان کی خراب صورتِحال، انصاف کے انمول ہونے اور کرپشن اور بری گورننس سے تنگ ہو کر ہمارے وجود اور کردار پر شک مت کرنا۔

اس سے اگر کوئی تباہ ہو گا تو وہ تم عام لوگ ہو گے جن کے حاکم ہم ہیں۔‘‘ وہ میرے سوالات کی تشفی کر کے ذرا رکے تھے۔ میں چپ رہا۔
’’ اس سب کے نتیجے میں ایک رائے عامہ بنتی ہے جو کہ بتاتی ہے کہ حاکمیت قائم ہو گئی ہے یا مزید اقدامات کی ضرورت باقی ہے۔ پرانے زمانے میں تو جابر حکمران بھی حاکمیت منوا لیتا تھا کیونکہ تلوار اور بندوق ہی فیصلہ کرتی تھیں۔

لوگ طاقت کے سحر میں مرعوب ہو کر مان ہی جاتے تھے۔ پتہ ہے نا انگریز ہندوستان پر حاکم ہو بیٹھا تھا اور مغل لوگوں کے ذہنوں سے ہی نکل گئے تھے۔ اب ان طریقوں کی بجائے وہ چیلنجز اور مقاصد پارٹی، شخص یا ادارے کی حاکمیت کا فیصلہ کرتے ہیں جن کی تصویر عوام کے سامنے رکھی جاتی ہے۔‘‘ میں سمجھ گیا تھا کہ ان کی گفتگو کا مقصد کیا ہے۔ میں نے سوال کیا‘ ’’تو ایسا کیوں ہے کہ پاکستان میں ایک ادارے کی حکومت رہی ہے اور بھارت میں سیاسی پارٹیوں کی؟
’’دراصل بھارت کی سیاسی پارٹی کانگریس پاکستان کی سیاسی پارٹی مسلم لیگ سے زیادہ بہتر تھی۔

ان کے وزیرِاعظم جواہر لال نہرو کئی سال وزیرِاعظم رہے۔ انہوں نے آئین کی توقیر اور سول بالادستی کو ہی بھارت میں حاکمیت دی۔ بھارت میں اب کانگریس کمزور ہو چکی ہے اسی لیے بھارت اب مودی اور RSS کی کنٹرول میں ہے۔ یہ بھارت کے پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگوں کے ساتھ ایک انہونی ہوئی ہے۔
پاکستان میں قائدِاعظم سال بعد ہی انتقال کر گئے تھے۔

وہ آئین مکمل نہیں کر سکے تھے اور ان کے بعد کے سیاستدان کمزور تھے۔ جب سیاستدان قیادت فراہم کرنے میں ناکام رہے تو فوج نے قیادت پیش کر دی اور وہ بعد میں بھی کرتے آئے ہیں۔ فوج کی حاکمیت کو ہر پاکستانی مانتا بھی ہے اور ان کے گن بھی گاتا ہے۔ عام آدمی فوج کے فردِ واحد کی کرپشن یا سیاست میں انوالومنٹ پر بھی تنقید برداشت نہیں کرے گا۔ کسی ایک یا دو جرنیلوں پر تنقید کو افواجِ پاکستان کے عزت دار ادارے یا اس شخص کی کمانڈ کے انڈر موجود پروجیکٹ کے خلاف سازش سمجھا جائے گا اور عام عوام کی طرف سے ہی غدار کا سرٹیفیکیٹ مل جائے گا۔

اگر تمہیں یہ جاننا ہے کہ کسی ملک کا حکمران کون ہے تو پتہ کرو کہ اس ملک میں کس پر تنقید کرنا غیر اعلانیہ طور پر منع ہے۔‘‘
 وہ اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور بات ختم کرتے ہوئے کہنے لگے ’’انسان غلطی کا پتلا ہے۔ اگر تمہیں لگے کہ حکمران ادارہ یا انسان کوئی فرشتہ نہیں ہے لیکن عوام اسے انسانوں والی Definition سے دور کر چکے ہیں تو سمجھ لو وہ ایک بت تراش چکے ہیں۔ اس کے بعد یہ اندازہ لگانا تمہارے لیے آسان رہے گا کہ طاقت کی پرستش کتنی عام ہے۔‘‘ وہ گڈ بائے کہہ کر اٹھ گئے تھے لیکن ان کے جانے کے بہت دیر بعد بھی میں یہی سوچنے لگا کہ کیا ہمیں کم از کم اپنے لیے ایک بت شکن کی ضرورت نہیں آن پڑی؟ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :