عوام کو کیسے بے وقوف بنائیں؟

جمعہ 30 اپریل 2021

Faraz Ahmad Wattoo

فراز احمد وٹو

فرض کریں آپ حکومت میں آ گئے ہیں۔ دنیا میں ہر سو برائی ہے اور جس معاشرے کا آپ حصہ ہیں وہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، فلسفیوں اور دانشوروں کی ہزاروں سالوں کی محنت اور کاوش کوئی رنگ نہیں لائی اور بطورِ سربراہِ مملکت آپ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کیا جائے؟ تو آئیں میں آپ کی راہنمائی کرتا ہوں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ذہن نشین کر لیں کہ آپ ایک معمولی ذہنی صلاحیت والی مخلوق ہیں، آپ کی قابلیت، صلاحیت اور توانائی کی ایک حد ہے اور اگر آپ انہیں ایک خیالی رومانوی دنیا کی تخلیق پہ وقف کرنے لگے تو آپ کا جینا حرام ہو جائے گا۔

دنیا کسی کی نہیں ہوتی سو آپ بھی دنیا جہان کے غم دل میں اکٹھے کرنے کی بجائے ایک کام کریں، سکون میں رہنے کی کوشش کریں۔

(جاری ہے)

یہ تبھی ممکن ہے جب آپ نظام کو ویسے ہی چلنے دیں جیسے یہ چل رہا ہے۔ بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئیں، اس کا رخ نہ موڑیں اور نہ ہی کوشش کریں کہ اس گنگا کی صفائی ستھرائی ہو جائے۔ اس سے آپ کی کرسی کی بنیاد مضبوط ہو جائے گی۔
اس کی بعد آپ ان لوگوں کا اعتماد حاصل کریں جو طاقت کا مرکز ہیں۔

اس سے کافی حد تک آپ بھی طاقتور ہو جائیں گے اور آپ کی طرف سے مطمئن ہو کر یہ طاقتور لوگ آپ پر پریشر ڈالنا یا آپ سے معاملات خراب کرنا بھی بند کر دیں گے اور سکون سے اپنے کاروباروں میں لگے رہیں گے۔
جب آپ یہ بھی کر لیں تو اپنی فیس امیج بہتر بنانے پر دھیان دیں۔ آپ قوم سے ہر خراب چیز کو بہتر بنانے کا وعدہ کریں کیونکہ طریقے کا آپ سے نہ عوام نے پوچھنا ہے اور نہ ان میں اتنی سمجھ کہ یہ آپ کے فراڈ کو سمجھ پائیں۔

سو ملک کو بالکل بدل دینے اور نیا بنانے کا اعلان کر دیں۔ ہر طبقے سے وعدے کریں۔ مثلاً سرمایہ دار طبقے کو خوش کرنے کے لیے نجکاری اور کاروبار میں آسانی دینے کا وعدہ کریں۔ ہر تقریر میں سماج کے پسے ہوئے طبقے کی آواز بنیں اور ان سے اظہارِ ہمدردی کرتے رہیں۔ یاد رکھیں غریب زخمی دل والا طبقہ ہے۔ ان کی قسمت میں ہی پسنا اور جلنا لکھا ہے سو اگر آپ ان سے خالی اظہارِ ہمدردی ہی کرتے رہیں تو یہ آپ کے فین رہیں گے۔

یہ کوئی پڑھے لکھے لوگ نہیں ہوتے اور ان کے پڑھے لکھے نوجوان بھی ایک دم سیدھے سادھے ہوتے ہیں۔ اب پوچھیں بھلا کیسے؟
موجودہ تعلیمی نظام کلرک اور روبوٹس پیدا کرنے کیلئے بنایا گیا تھا اور یہ ابھی ہوبہو ویسے ہی چلتا آ رہا ہے۔ سکول کے زمانے میں بچوں کو نوکری کیلئے تیار کیا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے ہمارے ٹیچرز اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر اچھا پڑھو گے نہیں تو اچھے اداروں سے اچھے ڈگری نہیں کر پاؤ گے جس کے نتیجے میں تمہیں کسی اچھی کمپنج میں کوئی اچھی نوکری نہیں ملے گی۔

اس سطحی مائنڈ سیٹ کی وجہ ہے غربت اور ریاست کی چِپ جو امتحانات اور نصاب کی صورت میں لگائی جاتی ہے۔ غریب دو چیزوں کی وجہ سے غریب رہتا ہے؛ ایک ڈر، دوسرا لالچ۔
نوکری کیلئے تیار کرنے والے تعلیمی ادارے کبھی بھی ذہنی نشوونما پر توجہ نہیں دے سکتے اور ایسا ذہن تیار کیا جاتا ہے جو ایمانداری سے یقین رکھتا ہے کہ سیاست، فلسفہ، تاریخ اور ادب کوئی ایسی چیزیں نہیں ہیں جن میں سالوں کی ڈگریاں کی جائیں۔

وہ ان شعبوں کو بڑا ہی معیوب سمجھتے ہیں اور سب سے مزے کی بات، یہ لوگ میرا یہ کالم بھی نہیں پڑھیں گے۔ اس کی وجہ ہی یہی ہے کہ انھیں کبھی مطالعے جیسے کام کی ترغیب و تربیت ملی ہی نہیں۔ مطلب یہ کام کرنے سے انھیں پیشہ ورانہ طریقے سے روکا گیا ہے۔
انھیں مذہب کی ایسی تشریح دی گئی ہے جس کے بعد ان کے ہاں اعمال کی بجائے عبادات اور تسبیحات زندگی کا اوڑھنا بچھونا ہیں۔

انھیں مذہب اور مذہبی شخصیات کے نام پر کچھ بھی کر دینے کیلئے تیار کیا جاتا۔ یہی عوام ہیں اور عوام کا حال بھیڑ بکری والا ہی اچھا لگتا ہے، جدھر چاہے لگا دو۔ دھرنوں اور جلسوں میں ان ہی کی ضرورت پڑتی ہے سو انھیں پروفیشنل روبوٹس بنایا جاتا ہے، ان کے جسم میں محب الوطنی اور مذہب کے نام پر ایسی چپ پیوست کی جاتی ہے جس کے بعد اپنے خیالات اور رجحانات پر ان کا کسی قسم کا کنٹرول نہیں ہوتا۔


سو بطورِ سربراہِ مملکت، آپ ایسے کروڑوں لوگوں کو ٹھیک کرنے نکلے تو آپ کا جینا حرام ہو جائے گا سو آپ ایک کام کریں، آپ بس ان کی ہمدردیاں سمیٹ لیں۔
آپ لاکھوں گھر، سیر گاہیں اور پناہ گاہیں بنوانے کا وعدہ کریں۔ ٹورزم کی پروموشن کا وعدہ کریں۔ نوکریاں پیدا کرنے اور تعلیمی شعبے میں اصلاحات لانے کا وعدہ کریں۔ سماجی برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنے، روڈز اور ایئرپورٹس بنانے کی سکیمیں تیار کروائیں۔

اربوں درخت لگانے اور نئے شہر آباد کرنے کی تصویریں لگوا دیں اور خارجہ پالیسی کے میدان میں جھنڈے گاڑھنے کا عندیہ دے دیں۔صرف وعدہ کر کے کچھ سوشل میڈیا تصاویر ہی تو اپلوڈ کرنی ہیں، بجٹ پر بحث کرنا اور یہ سب کرنے کیلئے درکار پیسہ پیدا کرنا کوئی قابل توجہ چیز نہیں کیونکہ آپ نے یہ سب واقعی کرنا تھوڑی ہے۔
 اس کے بعد میڈیا پر کچھ پابندیاں لگا دیں جیسے آپ فلاں ادارے پر تنقید نہیں کر سکتے، فلاں جوابدہی سے مبرا ہے، فلاں کی تقریر اور فلاں کی تصویر پر پابندی ہے۔

فلاں شوز میں دکھائی نہ دے اور فلاں چینل کا مالک پکڑ لو۔ اس سے میڈیا میں پریشر اور قیاس بڑھے گا۔ پھر کچھ میڈیا ہاؤسز کو اپنے ساتھ ملائیں، یوٹیبرز اور ٹویئٹر ایکسپرٹس ہائر کریں اور اپنی مرضی کا بیانیہ ہیش ٹیگز اور ٹرینڈز پر لگائیں۔ مخالفین کو اتنا بدنام کریں کہ انہیں گولی لگنے یا اغوا یا قتل کر دیے جانے سے بھی عوام کو مجموعی طور پر کوئی فرق نہ پڑے۔


 مذہب اور اس کی تشریحات اگرچہ ہر فرد کے ہاں مختلف ہوتی ہیں اور اسی لیے یہ ہر فرد کا نجی معاملہ ہوتا ہے لیکن آپ مذہب کو ملک کی بنیاد اور قوم کے اتحاد کا مرکز بنا دیں تا کہ جب بھی ضرورت ہو اس کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ خود مذہب کی عظیم ہستیوں کے دور کی سلطنت جیسا ملک بنانے کا وعدہ کریں تا کہ نہ کوئی آپ پر تنقید کرے اور نہ جواب طلبی ہو۔

اس کا ایک فائدہ ان پڑھ مذہبی طبقات اور ان کے سربراہان کی ہمدردی کی صورت میں ملے گا۔ ہر تقریر میں مذہب اور غربت کی آواز بنیں، آپ کی مخالف آوازیں دب جائیں گی۔
 ملک میں بد عنوانوں سے جنگ کا اعلان کریں اور ہمسایوں کے حوالے سے یہ عوامی رائے ہموار کریں کہ دنیا کے بد ترین ہمسائے ہمارے ہی ہیں۔ اگر ایسی خبریں آتی رہیں کہ بارڈر پر جھڑپیں چل رہی ہیں، دہشتگرد منظم ہو رہے ہیں یا اندرون خانہ جنگی کا خدشہ ہے تو حالات کی بدتری کا ذمہ دار آپ نہیں بنیں گے۔

قیاس ایک سیڑھی کی طرح ہوتا ہے جس میں افراتفری کا شکار ملک سے کچھ ذہین لوگ اپنے وہ مقاصد حاصل کر لیتے جو وہ ایک قانون اور ضابطے سے بندھے ملک میں حاصل نہیں کر سکتے، اس لیے جب بھی ضرورت پڑے ملک میں قیاس کی صورتحال پیدا کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی گروپ یا تنظیم تیار رکھیں۔ اتفاقیہ ہونے والے واقعات کا صحیح استعمال بھی کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔ ان ٹپس پر عمل کرنے کے بعد آپ کی حکومت ہر خطرے سے محفوظ رہے گی، بس آپ کبھی بے وقوف نہ بننے کی قسم کھا لیں کیونکہ حقیقی حکمرانی ایسے ہی کی جاتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :