پنجابی کو جاگنا ہی ہو گا
بدھ 9 دسمبر 2020
انگریز سرکار نے 15 سال میں 20 لاکھ ایکڑ زمین پر کی گئی سرمایہ کاری واپس لینے کے علاوہ ہر سال کے 7 لاکھ روپے آبیانے کی مد میں وصول کیے۔
(جاری ہے)
اس سے کسانوں میں بے چینی پھیل گئی اور وہ سب سے پہلے کانگریس کے پاس گئے۔
کانگریس نے بل پاس ہو چکنے کے سبب بے بسی ظاہر کی۔ کسانوں نے اجیت سنگھ کی بھارت ماتا سوسائٹی کو قبول کر کے جلوس اور تحریکیں چلائیں۔اجیت سنگھ نے انگریز کے کالے بل کی سخت مخالفت کی۔ وہ اپنی تقریروں میں ایک تین فٹ کا ڈنڈا ساتھ لاتے تھے جس کے اوپر ترنگا جھنڈا لگا ہوتا تھا جو کہ تحریک کی علامت تھا۔ اجیت سنگھ کی تقریریں اور مقبولیت انگریز کے لیے دردِ سر بن گئیں۔ وہ اپنی تقریروں میں کہا کرتے تھے، ’’انگریجاں نوں ایسے سوٹے نال کٹاں گے‘‘ (انگریزوں کو اسی ڈنڈے سے ماریں گے)۔
تین مارچ 1907 کو ایک کسان ریلی میں بانکے دیال نے شہرۂِ نظم ’’پگڑی سنبھال او جٹا‘‘ لکھی۔ پوری نظم کچھ یوں تھی:
لٹ گیا مال تیرا، لٹ گیا مال اوئے
اوئے توں ساری دنیا دا داتا، تیریاں جیباں نے خالی
تیرے سر وچ پہ گیا ہنیرا، لوکاں کری دیوالی
تیرے بچے دُدھوں ترسن ،توں گاواں دا پالی
تیری دنیا وچ گلامی ، توں ایں باغاں دا مالی اوئے
پگڑی سنبھال او جٹا ۔۔۔
قیامِ پاکستان کے بعد ملک سمتیں بدلتا، نظام بدلتا، طبقاتی تقسیم کا شکار ہوتا، دایاں بازو تڑواتا، سوپر پاور بننے کے خواب دیکھتے ہوئے دلدلوں میں گرتا اس مقام پر پہنچ گیا کہ نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کے خلاف تقاریر میں ایک نیا نعرہ ایجاد کیا اور یہ تھا، ’’جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ۔‘‘۔ یہ نعرہ آج کے غدار، کل کے محبِ وطن اور تین دفعہ کے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کا تھا۔
کمال کی بات یہ ہے کہ اس وقت کے رطب اللسان آج ان کے مخالف بن چکے ہیں اور اشتہاری سے نیچے کسی سزا پر راضی بھی نہیں ہیں۔ اب جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگانے والے یہی شریف لوگ ہیں جو ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی اور موجودہ ہائبرڈ نظام سے نجات کیلئے کوشاں ہیں۔ دیکھیے کہ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
نجانے کیوں ہمارے بہت سے عقلمند حضرات تک بھی یہ سوچ کر نون لیگ کے حامی ہیں کہ خان عبدالولی خان نے فرمایا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آخری لڑائی ایک پنجابی خاتون لڑیں گی۔ اس سے مراد مریم نواز ہوتی ہیں۔ دل یہی کرتا ہے کہ Game of Thrones کی سرخ خاتون کی پیشین گوئیوں کی مثال دینے کے بعد مریم صاحبہ کی سیاسی بصیرت پر بھی تبصرہ کیا جائے لیکن خوف آتا ہے اس وقت سے جب اس تبصرے کو تبدیلی سرکار کی حمایت مانا جائے۔ ہم خود تبدیلی سرکار کی پالیسیوں سے ناراض بلکہ ناامید ہیں لیکن ہم اس پرانے پاکستان کے بھی حامی نہیں ہیں۔
پاکستان کو نیا یا پرانا کہنا ہی زیادتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیوں میں کسی حقیقی تبدیلی لانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے اور توڑ پھوڑ سے کسی۔مسٔلے حقیقی حل نہیں ہے۔ اصل تبدیلی تب آئے گی جب پنجابی جاگے گا۔ میں یہ رائے بنا کسی جذباتی کیفیت میں آئے دے رہا ہوں۔ جس دن پنجابی نے جذبات کی بجائے تحقیق سے کام لینا شروع کر دیا، ملک کے سارے مسائل کے پیچھے چھپی خلائی مخلوق بے نقاب ہو گئی، پنجابی کو پشتونوں کا خون، بلوچوں کی آہ و زاریاں اور کشمیر اور گلگت سے آتی آہ و پکار سنائی دینے لگی، ملک میں مجرمانہ سیاست کے پیچھے کارفرما معاشی ڈھانچہ صاف صاف دکھ گیا، اس دن وفاق کی پنجاب سے منتخب ہوتی 181 سیٹوں پر وہی بیٹھیں گے جو حق دار ہوں گے اور حکومت وہی کرے گا جو عوامی سیاست کرتا ہوا۔ پنجاب آدھا پاکستان ہے، بڑا بھائی ہے۔ اسے شعوری سفر طے کر کے ملک کے وسیع تر مفاد میں عوامی سیاست کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی۔ پنجابی کو جاگنا ہی ہو گا، ورنہ باقی صوبے بھی چپ اور بے بس ہی رہیں گے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
فراز احمد وٹو کے کالمز
-
اگر بن لادن شہید ہے۔۔۔!
جمعہ 2 جولائی 2021
-
وہ کیوں عمران خان اور عوام کے بیچ میں آتا؟
جمعرات 24 جون 2021
-
تم عمران خان اور جنرل باجوہ سے کیا چاہتے ہو؟
بدھ 19 مئی 2021
-
عوام کو کیسے بے وقوف بنائیں؟
جمعہ 30 اپریل 2021
-
خلافت کی مانگ کے پسِ پردہ فکر
پیر 15 فروری 2021
-
امیر باپ، غریب باپ
پیر 28 دسمبر 2020
-
سینئر صحافی طارق صاحب سے جڑی کچھ یادیں، کچھ باتیں
جمعہ 18 دسمبر 2020
-
پنجابی کو جاگنا ہی ہو گا
بدھ 9 دسمبر 2020
فراز احمد وٹو کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.