
جبر اور جمہوریت
پیر 17 ستمبر 2018

فرخ شہباز وڑائچ
(جاری ہے)
اس جگہ گزرے ہوئے تین دنوں میں ہر سیاسی پارٹی سے لوگ آئے ہیں،کارکنوں کو بیتاب دیکھا ہے وہ اپنے قائد کے غم میں برابر شریک ہونا چاہتے تھے مگر ان کی رسائی مشکل بنا دی گئی۔ اس سارے منظر نامے میں کئی دل تکلیف میں آئے تھے جب بیگم کلثوم کے بارے میں دکھ دینے والی زبان استعمال کی گئی تھی۔کسی ایک نے دل بڑا کے کے معافی بھی مانگ لی بہت سے ایسے ہیں جنہیں خداا نے شرمندہ ہونے کی توفیق نہیں دی۔ سیاست کو کس گھٹیا پن کی طرف دھکیل دیا گیا سوچ کر خوف آتا ہے۔ یہاں بیماروں پہ تہمتیں لگائی جاتیں ہیں۔ میں وہ سب یاد نہیں کرنا چاہتا،شاید یہ مناسب موقع نہیں۔
آج مجھے اس عظیم خاتون کو یاد کرنا ہے جسے 12اکتوبر کے دن نے بدل کر رکھ دیا تھا۔دنیا نے بیگم کلثوم کا یہ مزاحمتی روپ بھی دیکھا جس نے اس وقت کے آمروں کی نیند حرام کر دی تھی۔وہ شوہر کی محبت میں چار دیواری سے باہر آئیں اور اسی کی محبت میں چار دیواری میں واپس چلی گئیں۔ بیگم کلثوم نواز 12اکتوبر کے سیاہ دن کے بارے میں لکھتی ہیں۔
’’ایک عجیب سی بے کلی، انجانے اضطراب اور سمجھ میں نہ آنے والی بے سکونی کے باعث پریشان کن اندیشوں اور خدشات نے دل و دماغ کو گھیر رکھا تھا اور شاید آنے والے عجیب لمحات نے اپنے سیاہ پردوں کو پھیلانا شروع کردیا تھا۔ 11 اکتوبر کی صبح 8 بجے میاں نواز شریف اسلام آباد جانے کے لئے گھر سے نکلے تو جانے کیوں میں انہیں خالی خالی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ یوں گھر سے جانا تو ان کا معمول تھا۔ میں بظاہر ان کو رخصت کرنے کے لئے دروازے پر کھڑی تھی لیکن میرے دل و دماغ پر وسوسوں کا قبضہ تھا، میں دیکھ رہی تھی کہ میاں نواز شریف قرآن پاک کے نسخے کے نیچے سے گزرکرجارہے ہیں جو میں نے دروازے کے اوپر اس لئے رکھا ہوا تھا کہ گھر سے نکلنے والا ہر فرد کلام اللہ کے سائے میں سے گزرکرجائے اور آج یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ اس اچانک خیال نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔
ہاں یہ کیسا عجیب خیال تھا کہ جب کوئی انسان اپنے گھر سے نکلتا ہے تو اسے پتہ نہیں ہوتا کہ وہ پھر دوبارہ کب اور کتنی مدت کے بعد ملے گا؟ اس خیال نے میری روح تک کولرزاکے رکھ دیا۔ میں نے زور سے سرجھٹک کر اس پریشان کن خیال سے دامن چھڑایا، اسی اثناء میں میاں نواز شریف خدا حافظ کہہ کر روانہ ہوچکے تھے۔ مجھے یہ خیال کیوں آیا؟ اس وقت اس کی کوئی توجیہہ نہ کرسکی تھی اور اب سوچتی ہوں شاید میرے رب نے آنے والے لمحات سے مجھے خبردار کردیا تھا اور اگلے ہی روز یہ تمام وسوسے، اندیشے اور خدشات ایک بھیانک حقیقت بن کر سامنے آگئے۔
12 اکتوبر 1999ء کی شام تک وقت کے بے کیف لمحات ایک ایک کرکے گزرتے رہے، ٹیلی ویژن پر شام کے وقت خبریں سن رہی تھی کہ اچانک نیوز ریڈر کی تصویر غائب ہوگئی اور مجھے احساس ہوا کہ شاید کوئی گڑبڑ ہے۔ میں نے فوراً اسلام آباد وزیراعظم ہاؤس فون کیا، آپریٹر نے میری آواز پہچان کرکہا اچھا ابھی ملاتا ہوں لیکن کچھ دیر بعد نواز شریف صاحب نے خود مجھے فون کیا اور کہا ’’گھبرانے کی کوئی بات نہیں، تاہم اصل صورتحال یہ ہے کہ یہاں (وزیراعظم ہاؤس میں) آرمی آگئی ہے اور اس نے Take Over(قبضہ) کرلیا ہے‘‘
ایک دن جب بیگم کلثوم نواز کو ان کے سسر میاں شریف مرحوم کے پاس جاتی عمرہ جانے سے روکا گیا تو انہوں نے میجر سے کہا’’تم روک سکتے ہو تو روک لو، گولیاں چلانا چاہتے ہو تو شوق پورا کرلو‘‘
انہوں نے طے کر لیا تھا جو بھی ہو اس کا خندہ پیشانی سے سامنا کریں گی ۔بیگم کلثوم کو یقین تھا کہ ملک میں اس دفعہ جو مارشل لاء لگا ہے یہ تاریخ کا آخری مارشل لاء ہوگا۔ خدا ان کے یقین کو سلامت رکھے اور ہمیں آمریت کے جبر سے محفوظ رکھے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
فرخ شہباز وڑائچ کے کالمز
-
گلگت بلتستان میں کون حکومت بنائے گا؟
ہفتہ 14 نومبر 2020
-
لال حویلی سے اقوام متحدہ تک
اتوار 6 ستمبر 2020
-
مولانا کے کنٹینر میں کیا ہورہا ہے؟
پیر 4 نومبر 2019
-
جب محبت نے کینسر کو شکست دی
ہفتہ 19 اکتوبر 2019
-
نواز شریف کی غیرت اور عدالت کا دروازہ
ہفتہ 12 اکتوبر 2019
-
رانا ثنااللہ جیل میں کیوں خوش ہیں؟
جمعہ 11 اکتوبر 2019
-
مینڈک کہانی
منگل 1 اکتوبر 2019
-
اک گل پچھاں؟
اتوار 8 ستمبر 2019
فرخ شہباز وڑائچ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.