دھوکادہی اور فراڈ کا خاتمہ ناگزیر ہے!

ہفتہ 7 جون 2014

Ghulam Nabi Madni

غلام نبی مدنی۔ مکتوبِ مدینہ منورہ

محمدتصور کی عمر تقریبا ًاکیس سال ہے۔چار سال قبل وہ امیدوں کے سہانے خواب لیے روشنیوں کے شہر آیا۔چھ بہن بھائیوں اور غریب والدین کا سہارا بننے کے لیے اس نے اپنی تعلیم کو خیرباد کہد یا۔آٹھویں جماعت تک وہ اپنے والدین کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتارہا۔۲۰۰۹ء میں پہلی بار وہ اپنے ماموں کے ساتھ کراچی آیا تو اس کے ذہن میں محنت کرکے حلال روزی کمانے کے سوا کچھ اور نہ تھا۔

وہ شروع سے ایمانداری ،سچائی اور دوسروں کی خیرخواہی میں مشہورتھا۔جھوٹ ،دھوکہ دہی اور فراڈ سے اسے سخت نفرت تھی۔ اپنے سکول کے زمانہ میں وہ دودھ بیچتاتھا، لیکن مجال ہے کبھی اس نے ملاوٹ کا سوچا بھی ہو۔تقریباً چھ ماہ کے قلیل عرصے میں اس نے اپنے ماموں سے بریکرز،کنڈیکٹرز اور دیگر الیکٹریکل چیزوں کا ہنر باآسانی سیکھ لیا۔

(جاری ہے)

ڈیڑھ سال تک وہ اپنے ماموں کی دوکان پر کام کرتا رہا۔

اس دوران اس نے مارکیٹ کے تمام طورواطوار سے مکمل واقفیت حاصل کرلی۔ڈیڑھ سال بعد ماموں سے رخصت لے کر اس نے الگ سے اپنا کام شروع کردیا۔وہ شیرشاہ کراچی کے بڑے بڑے گوداموں میں روزانہ صبح کے وقت جاتا،وہاں سے پرانا مال خریدتا اوراسے ریپئیر کرکے دوکانداروں کو سپلائی کردیتا۔گزشتہ ڈھائی سالوں سے وہ یہی کام کررہاہے۔ان ڈھائی سالوں میں محمد تصور نے تقریباً پانچ لاکھ سے زائد رقم کمائی۔


چند دن قبل جب میری ملاقات محمد تصور سے ہوئی تو وہ بے چارہ بہت مضطرب اورپریشان دکھائی دیا۔”کیوں تصور بھائی! اللہ نے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا ہے، اب تو ماشاء اللہ گھروالے بھی بہت پرسکون اورخوشحال ہیں ،آپ بھی ماشاء اللہ اچھا کھاتے پیتے اور پہنتے ہیں،پھریہ پریشانی اور اضطراب کس بات پر؟میں نے اس کی پریشانی کی وجہ دریافت کی۔جواب میں محمد تصور نے اپنی درد بھری کہانی سنانا شروع کردی کہ” جناب!دنیامیں اصل مقصد پیسہ کمانا،کھانا پینا ہی نہیں ہے،آپ تو مجھ ان پڑھ سے زیادہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں۔

یہ بات ٹھیک ہے اللہ نے تھوڑے سے عرصے میں مجھے بہت کچھ دیاہے،لیکن جو سکون اوراطمینان مجھے اس کام سے پہلے تھاوہ سب ختم ہوگیا۔اب تو ہر وقت پریشانی،خوف اورذہنی دباوٴ سے دم گھٹنے لگا ہے“۔”آخر پتہ بھی چلے کہ پریشانی اور خوف سے کیوں آپ کا دم گھٹتاہے“۔میں نے استفسار کیا۔”جناب! سیدھی سی بات ہے گزشتہ ڈھائی سال سے میں جس کام میں لگاہواہوں یہ سارا کام دھوکا دہی اور فراڈپر مشتمل ہے۔

دونمبر چیز کو ایک نمبر بنا کر بیچا جاتاہے۔دوسوایمپئیر(Amp) کے بریکر ز( breakers)یا کنیکٹرز(contactor) کو ساڑھے تین سوایمپئیر(amp) کا بناکر گاہک کو بیوقوف بنایا جاتاہے۔اپنی طرف سے ”فیوجی“(fuji)اور”ٹیراساکی“(terasaki) جیسی مشہور کمپنیوں کے نام سے دونمبر چٹیں بنوا ئی جاتی ہیں پھر انہیں چائنیز یا لوکل پروڈکٹس پر چسپاں کرکے عوام کو دھوکہ دیاجاتاہے۔

اگر بل دس ہزار کا بناہے تو کسٹمرز کے کہنے پردوکاندار دس ہزارکی بجائے پندرہ ہزار کا بل بنادیتا ہے ،اس طرح وہ کسٹمرز اپنے گاہک یا مالک کوباآسانی چکر دیتاہے۔اس جیسی بیسیوں قسم کی دھوکہ دہی اور فراڈی بازیاں ہیں جو مارکیٹ میں سرعام کی جارہی ہیں۔مارکیٹ میں شاید ہے کوئی ایسا آدمی ہو جوان غلط حرکات سے بچاہواہو۔اب آپ ہی بتائیں کہ ان حالات میں آدمی کیا کرے؟نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں ان گندگیوں میں ہاتھ لت پت کرنا پڑتے ہیں۔

انہی باتوں کو سوچ سوچ کر میرا سکون اور اطمینان غارت ہوتا جارہاہے۔اب بس یہی سوچ رہا ہوں کہ کسی طرح اس دھوکہ دہی اور فراڈ والے دھندے سے جان چھوٹ جائے“۔
محمد تصور جیسے سینکڑوں لوگ ہمارے معاشرے میں رہتے ہیں، جو دھوکا دہی ،فراڈ،جھوٹ اور ملاوٹ جیسی گندگیوں کی وجہ سے نہ صرف پریشان اور مضطرب ہیں ،بلکہ ان الائشوں سے پاک ہونے کے لیے اپنی طرف سے کوششیں بھی کررہے ہیں۔

لیکن کیا کیاجائے ہماری اجتماعی بے حسی،ذہنی پستی اور غفلت کا ،جس کی وجہ سے آج پورے معاشرے میں اپنے مفادات اور خواہشات کی خاطر دوسروں کی جان ،مال ،عزت آبرو تک کو دھوکہ دی ،فراڈاور جھوٹ کے ذریعے پامال کرنے کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ہماری اس ذہنی پستی اور اجتماعی بے حسی کانتیجہ ہی ہے کہ آج پورے معاشرے میں بد امنی،بے سکونی اور بے آرامی کی وجہ سے اضطراب ،خلفشار اور لڑائی جھگڑے جیسے متعدی امراض پھیلتے جارہے ہیں۔

ہمارے لیے یہ کتنی عار اور شرم کی بات ہے کہ ہم ایک اسلامی جمہوری ملک کے مسلمان شہری ہونے کے باوجود اسلام اور اس کے بے نظیر اصولوں کو پاوٴں تلے بڑی جرات سے روند رہے ہیں۔آج معاشرے میں مہنگائی،بیروزگاری اور غربت کا جورونا رویا جارہاہے اس کے پیچھے اسلامی اصولوں سے بے اعتنائی کا بہت بڑا دخل ہے۔دھوکہ دہی ،فراڈ ،جھوٹ اور ملاوٹ کے ذریعے جس طرح ایک دوسرے کو بے وقوف بنانے کی عادت پڑگئی ہے اس سے پورامعاشرتی سسٹم درہم برہم ہوکر رہ گیاہے۔

آج ہماری مارکٹیوں میں جھوٹ دھوکہ دہی اور ملاوٹ اتنا رواج پاگیا ہے کہ کوئی بھی شخص مارکیٹ سے چیز خریدتے ہوئے اس کی اصلیت پر آسانی سے یقین نہیں کرتا،دوکاندار کو اپنی چیز کی اصلیت ثابت کرنے لیے قسمیں تک کھانا پڑتی ہیں۔حالاں کہ اگر غور کیا جائے تو اسلام ہمیں دھوکہ دہی،جھوٹ اورملاوٹ کی اجازت دیتا ہے،نہ قسمیں کھاکر خریدوفروخت کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

آپ ﷺ کا فرمان ہے ”جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے“ ۔معلوم ہواکہ دھوکہ دہی اور ملاوٹ کرنا مسلمانوں کا کام نہیں ہے۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج دنیا میں مسلمان ہی اس مرض میں کثرت سے مبتلا ہیں۔
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ جلداز جلد اس غلط عادت اور بری روش کو بدلنے کی کوشش کی جائے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ عوامی سطح پر مقتدراداروں اور علماء کرام کو آگے لایاجائے،تاکہ وہ لوگوں کی ذہن سازی کرسکیں۔

معاملات کو شرعی اصولوں پر چلانے کے لیے مارکیٹوں اور بازاروں کے قرب وجوار میں اسلامک سنٹرز بنائے جائیں ،جہاں ماہر علماء کرام عوام کو دین اسلام کی روشنی میں معاملاتی مسائل کی آگاہی فراہم کریں۔عوام پر بے جا ٹیکسز کا خاتمہ کیا جائے،تاکہ وہ غلط اور ناجائز راستوں کو تلاش کرنے سے باز آجائیں۔ دھوکہ دہی اور فراڈ پر مقرر سزاوٴں کو عملاًبحال کیا جائے تاکہ لوگ دوسروں کو چکر دینے سے پہلے ہزار بار سوچیں۔

مارکیٹ میں مانیٹرنگ سیل قائم کیے جائیں جو لوگوں کو فراڈ سے محفوظ رکھنے کے لیے آزادنہ کام کریں۔سب سے اہم بات یہ کہ ہر تاجر اور ہردوکاندار کو مناسب سہولیات دے کر اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ کسی بھی طرح ملاوٹ،جھوٹ ،فراڈ اور دھوکا دینے کی بالکل جرات نہ کرے۔ حکومتی سطح پراگر اس طرح کی تجاویز پر عمل کرلیا جائے تو بہت جلدمعاشرے سے دھوکہ دہی اور ملاوٹ کا تعفن دور ہوجائے گا ۔یوں معاشرے میں بسنے والا ہر محمد تصور جائز طریقوں سے حلال روزی کمانے اور خوشحال زندگی گزارنے کے قابل ہوسکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :