انسان اور یقین

جمعہ 26 مارچ 2021

Hadi Akhtar

ہادی اختر

دنیا میں لاکھوں لوگ یہ سوچ کر اپنی عمر گزار دیتے ہے کہ یہ کام میرے لئے مشکل ہے ۔جب بھی کسی دوسرے شخص کو دیکھتے ہیں جو اپنے کام میں کامیاب ہے تو یہ سوچتے ہیں کہ وہ شخص بہت قابل ہوگا ۔یہ سوچ کر وہ خود کو كم تر سمجھ لیتا ہے اور کبھی بھی کچھ بڑا نہیں سوچتا ۔وہ انسان جو خود کو كم تر سمجھتا ہے وہ یہ نہیں سوچتا کہ اللّه نے ہر انسان کو برابر بنایا ہے بس فرق صرف انسان کی محنت ،کوشش اور یقین ہے ۔

ہر انسان نے اس فانی دنیا سے رخصت ہونا ہے لیکن ایسے بہت کم لوگ ہی ہوتے ہیں جو اپنی اس چھوٹی سی زندگی میں بہت کچھ کر کے چلے جاتے ہے یہ اس انسان کی محنت اور سب سے بڑھ کر اللّه کی ذات پر یقین ہے۔
آئن سٹائن کہتے ہیں  "میرے اندر کوئی بھی مہارت نہیں تھا بس میرا شوق انتہائیوں پر تھا "۔

(جاری ہے)

اللّه نے ہر انسان میں ایک خوبی رکھا ہوا ہوتا ہے جس کو علامہ اقبال نے" خودی  " کا نام دیا ہے ۔


انسان ہمیشہ کسی دوسرے کو دیکھ کر اس کی طرح بننے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس چیز کو کرنے سے پہلے آپ اپنے آپ سے سوال کریں کہ کیا واقع یہی چیز آپ کا ہنر ہے اگر یہی ہنر ہے تو اسی کام کو آغاز سے انجام تک پہنچائے اور اگر آپ کو لگے کہ یہ ہنر آپ کا نہیں تو اس کام میں اپنا وقت برباد نہ کریں ۔
انسان کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے یہی وقت انسان کا رتبہ بلند کرتا ہے ۔

اکثر ہمارے نوجوان اپنے کام میں سستی کا مظاہرہ پیش کرتے ہیں لیکن یہ سستی بعد میں اس نوجوان کو بہت نقصان پہنچاتا ہے اس لئے ہر چیز کو دل لگا کر کرنے کی ضرورت ہوتی ،دل لگا کے کرنا یعنی اس کام کو شوق سے کرنا ہے اور انسان کا شوق ہی اس کو کامیاب بناتا ہے۔
اللّه تعالی نے انسان کو لا محدود صلاحیتوں کے ساتھ خلق کیا ہے اور اللّه کی ذات نے اس دنیا میں انسان کے لئے ہر وہ وسائل مہیا کر دیے ہیں جو انسان کو کامیابی کے حصول کے لئے درکار ہیں ۔

یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللّه نے کسی کو کم تر پیدا نہیں کیا۔
آج نوجوانوں میں سب سے بڑی محرومی رہنمائی کی کمی ہے ۔انھیں سب کچھ مل رہا اور ماشاللہ سے بہت ہنر مند بھی ہے لیکن ان کو اپنائیت کا احساس نہیں مل رہا ۔دنیا کی سب سے بڑی طاقت احساس ہے ایک دوسرے کو اپنانا ہے۔
انسان کا کمال گرتے کو اٹھانا ہے ،انسان کا کمال محبت کا بانٹنا ہے ،انسان کا کمال ایک دوسرے کو عزت سے نوازنا ہے، انسان کا کمال اللّه کے احکام پر چلنا ہے، انسان کا کمال لوگوں کو سہی راہ دکھانا ہے۔


انسان چاہے تو لا محدود وسائل ہے اچھے کام کرنے کی لیکن ہم انسان گمراہ ہے۔
آج ہمارے نوجوان اگر مایوس ہے تو وجہ ان میں رہنمائی کی کمی ہے ۔نوجوان کسی بھی ممالک کی ریڈ کی ہڈڈی  کا درجہ رکھتی ہے۔ نوجوان نسل کسی بھی ملک کی ترقی کا ضامن ہے۔ اس لئے نوجوانوں کی فلاح و بہبود ہر ملک کے لئے ضروری ہے ۔
مهاتما گاندھی کہتے ہیں " اپنی شناخت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ خود کو دوسروں کی خدمت میں لگا دو "
جس معاشرے میں خدمت کی جارہی ہو اللّه اس جگہ پہ سکون کی قلب بڑاھتا ہے ۔

خدمت کا تعلق مال سے نہیں، خدمت کا تعلق دل ہے۔
اچھی نیت خدمت ہے، اچھی باتیں خدمت ہے، اچھے لوگوں سے تعلقات خدمت ہے،کسی کو سہارا دینا خدمت ہے، کسی کو راہ دیکھنا خدمت ہے، کسی کے حق میں دعا کرنا خدمت ہے، خدمت کا شرف صرف نیک لوگوں کے حق میں آتا ہے اور لوگوں کی خدمات کرنا یعنی جنّت کو حاصل کرنا۔
انسان کو یہ سمجھ آجانا چاہئے کہ اللّه کی ذات کتنی مہربان ہے انسانوں پر ،اللّه نے بےشمار وسائل سے لے کر بےشمار نعمتیں انسانوں کے لئے پیدا فرمایا ہے ۔انسان کو ہمیشہ اللّه تعالیٰ کی ذات پر شکر ادا کرتے رہنا چاہئے تاکہ انسان کے جو نیک کام ہے وہ بھی اللّه کی بارگاہ میں قبول ہوجائیں اور قلب سکون کی طرف گامزن ہوسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :