دورِ حاضرہ کا ذرائع ابلاغ، اسلام

بدھ 9 دسمبر 2020

Hafiz Abdul Basit

حافظ عبدالباسط

دورِ جدید کو انسانی تاریخ میں جن خصائص سے ممتاز کیا جا سکتا ہے ان میں سر فہرست ذرائع ابلاغ (Media) کی سرعت اور اثرانگیزی ہے. میڈیا کی اس برق رفتاری نے ہی دنیا کو عالمی گاؤں(Global Village) کا درجہ دیا ہے. اب دنیا کی تمام وسعتیں ایک چھوٹی سی سکرین پر سمٹ آئی ہیں اور اکناف عالم کا کوئی بھی واقعہ آپ اپنے گھر میں بیٹھ کر دیکھ اور سن سکتے ہیں.

بہرحال میڈیا کا یہ دورہ اپنے جلو میں بے شمار  خوبیاں اور بہت سی قباحتیں سمیٹے اِنسانی معاشرے میں نت نئے انقلابات کا پیش خیمہ بن رہا ہے. یہ ایک مسلمہ حقیقت بن چُکی ہے کہ کرہ ارضی کا سماجی، سیاسی، اور اقتصادی نظام اس زرائع ابلاغ کے زیرِ اثر آچکا ہے. وہ جنگیں جو کبھی تلواروں اور نیزوں کے ساتھ وسیع و عریض میدانوں میں لڑی جاتی تھیں اب وہ بھی میڈیا کے پلیٹ فارم سے چھوٹی سی سکرین پر برپا ہو رہی ہیں.

کمپیوٹر کے انٹرنیٹ سسٹم نے یہ فاصلے اور بھی سکیڑ دیۓ ہیں آپ چند لمحوں میں اس کے ذریعے اپنا موقف پُوری دنیا تک پہنچا بھی سکتے ہیں اور ایک بٹن دبا کر اگلے لمحے اس کا ردعمل بھی اس سکرین پر ملاحظہ کر سکتے ہیں.
 ذرائع ابلاغ کی یہ ترقی یوں تو کرہ ارضی پر بسنے والے ہر انسان کے کام آسکتی ہے اور آ بھی رہی ہے لیکن اس وقت کی عالمی استعماری طاقتیں عملاً اس انسانی ایجاد کو بھی اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کر رہی ہیں.

اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت اسلام مخالف باطل طاغوتی قوتوں کا یہ طاقتور اور موثر ہتھیار ہمارے خلاف استعمال ہو رہا ہے. دنیا بھر میں کسی نہ کسی شکل میں کام کرنے والی اسلامی تحریکیں، ادارے اور تنظیمیں دعوت دین کا جو کام بھی کر رہی ہیں اس کے اثرات و نتائج اس لئے جزوی اور انفرادی دائروں میں محدود ہیں. ان کاوشوں کا مجموعی تاثر عالمی یکجہتی کی صورت میں اُس وقت تک سامنے نہیں آسکتا جب تک میڈیا اس کی صحیح صورتِ حال پیش نہیں کرتا.


اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پُوری دنیا میں کفر اور اسلام کی کھلی جنگ جاری ہے. تمام غیر مسلم سیاسی قوتیں، اقتصادی معاہدے اور ثقافتی سرگرمیاں جس سے نۓ عالمی نظام ( New World Order) کے زیر اثر آگے بڑھ رہی ہیں اس کا پہلا اور آخری ہدف عام اسلام کی ابھرتی ہوئی قوت کو دبانے اور اسے قمع و برباد کر دینے کے علاوہ اور کوئی نہیں. اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ عالم اسلام بھی میڈیا کے اس عالمی اور موثر ہتھیار کو اپنے استعمال میں لاۓ.

اس لئے کہ دشمن کا مقابلہ اگر برابر کی سطح پر ممکن نہ ہو تو اپنی بقاء کیلئے کم از کم اتنا ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کی سازشوں کے سامنے بند باندھ دیا جائے تاکہ اس کی یلغار کا کا اثر کسی حد تک کم کیا جا سکے. ورنہ دشمن کے ہاتھوں نیست و نابود ہونے سے بچنے کے کوئی امکانات باقی نہیں رہتے. یہی وجہ ہے کہ اس وقت قوم و ملت کا درد رکھنے والے باشعور مسلمان جس طرح سیاسی استحکام کیلئے اسلامی دولت مشترکہ کا قیام اور معاشی استحکام کیلئے عالمی اسلامی منڈی اور عالمی اسلامی بنک کو ضروری سمجھتے ہیں اسی طرح موجودہ ذرائع ابلاغ کے ہمہ جہتی اثرات کا مقابلہ کرنے کیلئے بین الاقوامی اسلامی میڈیا سروس کی شدید ضرورت محسوس کرتے ہیں.

ورنہ دنیا بھر کے دین اور مذہب پسند مسلمانوں کو مغربی میڈیا بنیاد پرست اور دہشت گرد کہ کر عالمی رائے عامہ کو اسلام کے خلاف رکھنے کی موجودہ روش پر ڈٹا رہے گا.
اسلامی ممالک میں موجو ذرائع ابلاغ(الا ماشاءاللہ) اسلامی نظریاتی اور دینی تشخیص کیلئے کام کرنے کے بجائے بد قسمتی سے اسی کفریہ ثقافت و سیاست کا پرچار کرنے میں مصروف ہیں. اسلام جن معاشرتی و سماجی رویوں اور مذہبی اقدار سے دنیا میں زندہ ہے ہمارا میڈیا انہی روایات و اقدار کی بنیادیں کھوکھلی کرنے پر تلا ہوا ہے.

باقی اسلامی ممالک کی بات چھوڑیں ہمارے وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دیکھ لیں صاف واضح ہو جائے گا کہ ہم قومی مقاصد کی طرف بڑھ رہے ہیں یا دینی اور نظریاتی تشخیص برباد کرنے پر بضد ہیں.
ہمارے ملک کی صحافت بھی سیاست کی طرح اتنی گرد آلود ہو چکی ہے کہ استطاعت و قدرت باوجود قومی تعمیر میں کوئی فعال کردار ادا نہیں کر رہی. بلکہ زرد صحافت کی کارستانیاں ہمارے معاشرے کا ایک المیہ بن چکا ہے.

اس وقت صحافت میں ملو٘یت کا عنصر غائب آچکا ہے. معمولی مالی مفاد کیلئے بے دریغ شرفاء کی پگڑیاں اچھال دی جاتی ہیں. لوگوں کی عزت و ناموس اور غیرت و حمیت کے صدیوں پرانے بھر محض خبریت کی زد میں ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں. آج پولیس جیسے بدنام شعبے سے عزتوں کو پامال ہونے کا اتنا خدشہ نہیں جتنا نام نہاد صحافیوں کی خبریت پسندی سے دینی صحافت کو دیکھا جائے تو سوائے ان فرقہ پرست تنظیموں کے نمائندہ اخبار و جرائد کے جو اپنی بقاء ہی مخالفت و مزاحمت میں سمجھتی ہیں. اکثر و بیشتر مثبت شعور و آگہی کا فریضہ سر انجام دینے میں مصروف ہیں. لیکن اس کے باوجود مغربی میڈیا کے سیلاب کے مقابلے میں ان کی حیثیت بہت ہی کم ہے�

(جاری ہے)


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :