وہ سایہ دار شجر جس نے مجھے پھل بھی دیا

ہفتہ 9 مئی 2020

Hafiz Mudassar Rehman

حافظ مدثر رحمان

جہاں کوئی استاد نہ بننا چاہے وہاں حقیقتاً پڑھے لکھے لیکن جاہل راج کرتے ہیں۔"ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان ملکہ برطانیہ اور ان کے شوہر کو پاکستان دورے کے دوران برن ہال سکول ایبٹ آباد لے گئے۔ملکہ تو ایوب خان کے ساتھ بچّوں سے ہاتھ ملاتی آگے بڑھ گیئں، اُن کے شوہر بچّوں سے باتیں کرنے لگے، پُوچھا کہ بڑے ہو کے کیا بننا ہے؟ بچّوں نے کہا ڈاکٹر، انجینئر، آرمی آفیسر، پائلٹ، وغیرہ وغیرہ۔

وہ کچھ خاموش ہو گئے پھرلنچ پر ایوب خان سے کہا کہ آپ کو اپنے ملک کے مستقبل کا کچھ سوچنا چاہیے، میں نے بیس بچّوں سے بات کی۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ اسے ٹیچر بننا ہے اور یہ بہت خطرناک ہے. ایوب خان صرف مسکرا دئے کچھ جواب نہ دے سکے اور یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
*آج تہذیب و تمدن کی یہ جو اتنی بڑی عمارت کھڑی ہے۔

(جاری ہے)

اس کے پیچھے اْسی شفیق و محترم ہستی کا ہاتھ ہے جسے اتالیق یا استاد کہتے ہیں۔

دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ، جن کی گردن ہمہ وقت اکڑی رہتی تھی، اپنے اساتذہ کے سامنے ہمیشہ سر جھکا دیا کرتے تھے۔* ”سکندرِ اعظم“ یونانی جس نے آدھی سے زیادہ دنیا اپنی تلوار کی دھار پر فتح کی، ”ارسطو“جیسے معلم اول کا شاگرد تھا۔
یہ مجلسِ یونان ہو، یا ایوانِ قیصرو کسریٰ، یہ خلافتِ بنو عباس ہو یا محمود غزنوی کا دربار، یہ اندلس کا الحمراء ہو یا ہندوستان کا شہنشاہ ”جلال الدین محمد اکبر", تاریخ شاہد ہے کہ استاد کی عظمت سے اس قدر بلند پایہ حکمران بھی واقف تھے۔

آج اگر اہلِ مغرب ہم سے اس قدر آگے نکل گئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ استاد کا اصل مقام جانتے ہیں۔ اگر پبلک ٹرانسپورٹ میں کوئی سیٹ خالی نہ ہو تو پھر بھی لوگ قوم کے استاد کے لئے سیٹ خالی کردیتے ہیں۔ وہاں عدالت میں استاد کی گواہی کو پادری کی گواہی سے زیادہ مستند سمجھا جاتا ہے۔
 امریکہ میں رواج ہے کہ جب کوئی طالب علم کامیابی حاصل کرتاہے تو وہ اپنے استاد کو سیلوٹ کرتا ہے، بالکل ویسے جیسے ایک سپاہی اپنے افسر کو سلیوٹ کرتے ہیں۔

لیکن ہمارے ہاں صورتحال بلکل بر عکس ہے۔ یہاں اگر استاد کسی طالبعلم کو ڈانٹ دے تو اس کا ہاتھ استاد کی گریبان تک آجاتا ہے۔ ہمارے ہاں بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں آئے روز اساتذہ پر تشدد کیا جاتا ہے۔ ان کا قصور کیا ہے؟ کیا ان کا یہ قصور ہے کہ وہ آپ کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم کے نور سے آراستہ کر رہے ہیں؟ کیا ان کا یہ قصور ہے کہ وہ آپ کو ایک مہذب شہری بنانے کی کوشش کر رہے ہیں؟کوئی بھی قوم، کوئی بھی معاشرہ تب تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا جب تک وہ استاد کی عزت نہیں کرتا۔

ہمارے ایک پروفیسر صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میرے استاد بننے کا صرف اور صرف مقصد یہ ہے کہ کل جب میں بوڑھا ہو جاؤں اور میری آنکھیں چہروں کو پہچاننے سے قاصر ہو جائیں اور میں کسی دفتر میں کسی کام کی غرض سے جاؤں اوروہاں بیٹھا شخص میرا شاگرد ہو اور مجھے پہچان لے اور عزت سے بٹھائے تو میرا مقصد اس دن پورا ہو گا۔
کوئی بھی کچھ جانتا ہے تو معلم کے طفیل
کوئی بھی کچھ مانتا ہے تو معلم کے طفیل
گر معلم ہی نہ ہوتا دہر میں تو خاک تھی
صرف ادراکِ جنوں تھا اور قبا ناچاک تھی 
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب ہندوستان کی انگریز حکومت نے حضرت علامہ اقبال کو سر کا خطاب دینے کا ارادہ کیاتو اقبال کو وقت کے گورنر نے اپنے دفتر آنے کی دعوت دی۔

اقبال نے یہ خطاب لینے سے انکار کردیا۔ جس پر گورنر بے حد حیران ہوا۔ وجہ دریافت کی تو اقبال نے فرمایا؛
 ”میں صرف ایک صورت میں یہ خطاب وصول کرسکتا ہوں کہ پہلے میرے استاد مولوی میرحسن کو ”شمس العلماء“ کا خطاب دیا جائے۔یہ سن کر انگریز گورنر نے کہا؛”ڈاکٹر صاحب! آپ کو تو ”سر“ کا خطاب اس لئے دیا جا رہا ہے کہ آپ بہت بڑے شاعر ہیں۔

آپ نے کتابیں تخلیق کی ہیں، بڑے بڑے مقالات تخلیق کئے ہیں۔ بڑے بڑے نظریات تخلیق کئے ہیں۔ لیکن آپ کے استاد مولوی میر حسن صاحب نے کیا تخلیق کیاہے؟“
یہ سن کر حضرت علامہ اقبال نے جواب دیا کہ
”مولوی میر حسن نے اقبال تخلیق کیا ہے۔“
یہ سن کر انگریز گورنر نے حضرت علامہ اقبال کی بات مان لی اور اْن کے کہنے پر مولوی میر حسن کو ”شمس العلماء“ کا خطاب دینے کا فیصلہ کرلیا۔

جیسے عطار کو عطر کے تعارف کی ضرورت نہیں ہوتی اسی طرح ایک استاد بھی اپنے شاگرد کو پہلی نظر میں بھانپ جاتا ہے۔ مولوی میر حسن کو آج کوئی بھی نہ جانتا اگر وہ علامہ اقبال کے استاد نہ ہوتے۔ لیکن آج وہ شمس العلماء مولوی میر حسن کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھا جائے تو جتنے بھی عظیم لوگ پیدا ہوئے ان کو عظمت کے مقام پر پہنچانے کا سہرا صرف اور صرف استاد کے سر ہے۔

الغرض استاد کا مقام اور عظمت ہر شے سے بُلند ہے۔۔ چنانچہ استاد کی عظمت سے کچھ بھی بڑھ کر نہیں.آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معلم یعنی استاد بنا کر بھیجا گیا ہے۔ا
ستاد ایک بہت بڑا لفظ ہے جو پڑھنے اور لکھنے میں تو بظاہر ایک چھوٹا سا لفظ ہے لیکن اس کے معنی بہت وسیع ہیں۔ لیکن وطنِ عزیز میں چند لوگوں کی وجہ سے یہ پیشہ بدنام ہو کر رہ گیا ہے سب پڑھنا تو چاہتے ہیں لیکن پڑھانا کوئی نہیں چاہتا۔

سب سیکھنا تو چاہتے ہیں لیکن سکھانا کوئی نہیں چاہتا۔ پرانے دور میں استاد کا اک مقام ہوا کرتا تھا لیکن اب نہ وہ استاد رہے نہ شاگرد۔
کانپتے ہوئے ہاتھوں سے، جھکی ہوئی آنکھوں سے اور خمیدہ سر سے یہ الفاظ سلام کے طور پر ان اساتذہ کے نام جنہوں نے مجھے انسان بنایا۔ میرے استاد، میرے معلم، میرے مربی، میرے مدرس۔ آپ کی تعریف و شکریے کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ میری زندگی کا ایک ایک لمحہ آپ نے سنوارا ہے۔ بس یہی حقیر تحفہ ہے میری زندگی کے وہ سارے لمحے میرے استاد آپ کے نام۔ سلام میرے اساتذہ کرام۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :