تیسری دنیا میں کورونا کی تیسری لہر

بدھ 31 مارچ 2021

Hafiz Mudassar Rehman

حافظ مدثر رحمان

کورونا وائرس ایک عالمی وباء ڈکلئیر ہونے کے بعد بھی چین سے نہیں بیٹھ رہا۔ جب بھی دنیا معمول کی طرف رخ موڑتی ہے اس کے وار شروع ہو جاتے ہیں اور پھر نا چاہتے ہوئے بھی لوگوں کو محصور ہونا پڑتا ہے۔ مغربی ممالک میں ویکسین کا عمل شروع ہو چکا تھا اور کچھ خوراکیں پاکستان کو بھی موصول ہوئیں لیکن کورونا نے پانسہ پلٹا اور ایک نئے انداز میں دھواں دار انٹری کی ۔

مغربی ممالک اور ایشیائی ممالک میں کورونا کے حوالے سے لوگوں کے مختلف نظریات ہیں ۔ مغربی لوگ اسے ایک خطرناک بیماری قرار دیتے ہیں جبکہ ہم تیسری دنیا والے اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔
جب پاکستان میں کورونا کے کیسز آنا شروع ہوئے تو لوگوں میں کھلبلی مچ گئی۔ حکومت متحرک ہو گئی اور پابندیاں لگانا شروع کر دیں ۔

(جاری ہے)

زندگی کا پہیہ جام ہو گیا ۔ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ جان لیوا وائرس ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور جلدی ہی واپس اپنے وطن لوٹ جائے گا۔

پہلے پہل عوام نے بہت احتیاط کی جب مریضوں کی تعداد کم تھی ۔ ماسک لگانا معمول بن گیا تھا۔ حکومت کی پالیسیوں میں خامیاں آنے لگیں۔ کورونا کے پے در پے واروں سے حکومت بولھلاہٹ کا شکار ہو گئی ۔ ایک لادین ریاست سے جنم لینے والا وائرس پاکستان آتے ہی مذہب کی نذر ہو گیا۔ کچھ لوگ اسے تفتان سے آئے زائرین سے منسلک کر رہے تھے جبکہ بہت سوں کا خیال تھا کہ اس کے پھیلاؤ کا سبب تبلیغی جماعت والے بن رہے ہیں لہذا پاکستان میں مساجد پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔


جب کورونا شدت اختیار کرنے لگا ایک بے لگام گھوڑے کی طرح قابو سے باہر ہو گیا تو حکومت اور بھی بوکھلانے لگی۔ کوئی جامع پالیسی ہی نہیں تھی کہ کس طرح کورونا سے ڈیل کیا جائے۔ عوامی سطح پر بھی کورونا کو ریجیکٹ کیا جا چکا تھا اور لوگ حکومتی پابندیوں سے تنگ آ چکے تھے۔ تب سمارٹ لاک ڈاؤن کا تصور پیش کیا گیا ۔ اس وقت وزیر اعظم نے وہ فیصلہ کیا جو غیر دانشمندانہ تھا ۔

جب کورونا کے کیسز کم تھے تب پابندیاں سخت تھیں لیکن جب اس میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا تھا اور لوگ لقمۂ اجل بن رہے تھے تب بازار کھولے جا رہے تھے ۔ انور شعور نے اس کی بہت خوب عکاسی بھی کی ہے
عوام الناس کو کھل کھیلنے کا مل گیا موقع
ضروری احتیاطیں سب نہیں کیں، چند کر لی ہیں
کورنا کے دنوں میں شاید ارباب حکومت نے
دکانیں کھول دی ہیں اور آنکھیں بند کر لی ہیں
اب جب پھر تعلیمی ادارے کھل رہے تھے، دنیا معمول کی طرف لوٹ رہی تھی ، لوگ کاروبان نئے سرے سے کر رہے تھے تب پھر اس بن بلائے مہمان نے دروازے پہ دستک دی۔

عالمی ادارہ صحت نے پہلے سے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ اس کی تیسری لہر سے ایشیاء زیادہ متاثر ہو گا۔ لیکن ہماری حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے سے انتقامی سیاست کر رہے تھے۔ عوام کا تحفظ یا عوام کے مفادات کی کسی کو غرض نہیں تھی۔ تمام اپوزیشن ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھی تھی جن کا مجموعی مطالبہ تھا کہ خان صاحب استعفی دیں اور نئے سرے سے انتخابات کروائے جائیں۔


ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اور اپوزیشن ایک ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرتے اور اس وباء سے مل کر لڑتے ۔ ایوان کی کرسی کی لڑائی بعد میں بھی جاری رکھی جا سکتی تھی لیکن شاید یہ بات ہمارے سیاسی پنڈتوں کی سمجھ میں نہیں آئی اور انتقامی سیاست کو ہی روش بنائے رکھا۔
اب کورونا کی تیسری لہر شدت اختیار کر رہی ہے اور آنے والے چند دنوں میں بے قابو ہو جائے گی۔

حکومت کی طرف سے اعلان کیا جا رہا ہے کہ ماسک پہنیں ، سماجی فاصلہ برقرار رکھیں اور ہجوم والی جگہوں پر جانے سے گریز کریں۔ لیکن عوامی سطح پر اس بات کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی جگہ پر کورونا ایس او پیز پر عمل در آمد ہوتا نظر نہیں آ رہا ۔ سمارٹ لوک ڈاؤن کا تصور بری طرح ناکام ہو چکا ہے ۔ حکومت نے بھی اعلان کیا ہے کہ لوگوں سے ان کے کاروبار نہیں چھینے جائیں گے ۔

پاکستان کی معیشت کی کشتی پہلے ہی ہچکولے کھا رہی ہے تو اگر حکومت کہہ رہی ہے کہ آپ ماسک پہنیں تو آپ پہن لیں ۔ اگر حکومت کہہ رہی ہے کہ سماجی فاصلہ برقرار رکھیں تو آپ رکھ لیں ۔ اس میں ہمارا اپنا ہی فائدہ ہے ۔ تیسری دنیا کے ممالک سے متاثر ہوں گے جن میں پاکستان ااور بھارت سر فہرست ہیں ۔ لیکن ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ جب کسی سے کہیں کہ ماسک پہنیں تو وہ آگے سے کہہ دیتے ہیں کہ اگر مرنا ہے تو مر جائیں گے ۔

آخر موت ہے اس طرح کے جوابات سن کر خود ناصح اپنی سوچ پر لعن طعن کرتا ہے۔
مصطفی صادق مرحوم صاحب فرماتے ہیں
اے موت میں تجھ سے ڈرتا ہوں
جانے تو کہاں کب آجائے
اس دنیا سے اے ہم نفسو! اک روز ہمیں بھی جانا ہے
اس وقت سے بچنا ناممکن ، یہ وقت تو آخر آنا ہے
اس زیست کے اک اک لمحہ کا، عقبیٰ میں بدلہ پانا ہے
جانے تو کہاں کب آ جائے
اے موت میں تجھ سے ڈرتا ہوں
پیارے ہم وطنو اس مشکل گھڑی سے اگر نجات حاصل کرنی ہے تو احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا پڑے گا ورنہ اس کا انجام بہت بھیانک اور ڈراؤنا ہو گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :