
غزہ میں اسرائیلی جارحیت!!
ہفتہ 26 جولائی 2014

حافظ محمد فیصل خالد
(جاری ہے)
1917میں برطانیہ اور اسکے اتحادیوں کی جانب سے اعلان کیاگیاکہ فلسطین یہودیوں کو ملنا چاہئیے۔
چناچہ یہیں سے قیام اسرائیل کی کاوشوں کابا قاعدہ آغاز کر دیا گیا۔1948میں ایک امریکی ریاست کے جج نے خیانت کے علمبردار کے نام سیایک کتاب لکھی جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ1897میں ہونے والی پہلی عالمی صہونی کانفرنس میں لیگ آف نیشنز کا تصور ایک با قاعدہ طور پر زمانی ترتیب کے ساتھ پیش کیا گیاتھاکہ بالترتیب چند طے شدہ اقدامات کے بعد عالمی ادارہ وجود میں لایا جائے گا۔
چناچہ ایسا ہی ہوا۔اقوام متحدہ کے قیام کے کچھ ہی دیر بعد 1947میں فلسطین کو یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنے کی قرارداد پیش کی گئی۔ اس سارے عمل میں دو باتیں بڑ ی دلچسپ تھیں۔نمبر ایک تو یہ کہ رائے شماری کے اس عمل میں چند مخصوص ممالک کو ووٹ کا حق دیا گیا۔مگر اس ساری حکمت عملی کے باوجود یہ قرارداد اتنی بے رحمانہ تھی کہ اسکے حق میں تین جبکہ اس کے مخالف پانچ ووٹ پڑے۔چناچہ تاریخ کی بد ترین دھاندلی کرتے ہوئے اوراس رائے شماری کے طے شدہ قواعد و ضوابط کو نظرانداز کرتے ہوئے اس رائے شماری میں فلپائن، ہنگری جیسے غریب مما لک کو شامل کیا گیا اور ان پر اسرائیل کے حق میں ووٹ دینے کیلئے دباؤ ڈالا گیا جسکے عوض ان ممالک کی حکومتوں کو مالی امداد سے بھی نوازہ گیا اور اس طرح قیام اسرائیل کی قرارداد کو منظور کیا گیا۔
دوسری دلچسپ بات یہ تھی کہ اس وقت فلسطین میں مقامی مسلمانوں کی تعداد 94ویں فیصد تھی جبکہ صرف 6فیصد یہودی آباد تھے۔مگر قرارداد کے بعد جب تقسیم کا اعلان کیا گیا تو اس کے مطابق فلسطین میں آباد یہودیوں کواس ملک کا 55 فیصد حصہ دیا گیااور واضع اکثریت میں موجود مسلمانوں کو 45فیصد حصہ دیا گیا۔
اوراس طرح 4مئی 1948کو باقاعدہ طور پہ اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا گیاجسکے دس منٹ بعد امریکہ نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔1948میں جب فلسطین کی جگہ اسرائیل قائم ہوا تو اس کا کل رقبہ 7993مر بع میل تھا مگر یہودیوں نے اس پر اکتفاء نہ کیا اور ارد گرد کی مسلمان ریاستوں پر حملہ آور ہوتے رہے جسکے نتیجہ میں انہوں نے شام کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا۔اس کے علاوہ 5 جون 1968کو اسرائیل نے مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقس پر بھی قبضہ کر لیا۔
قیام اسرائیل سے لے کر آج تک مسلمانان فلسطین کے ساتھ جو ظلم و بربریت ہو رہا ہے وہ کسی سے ڈھکہ چھپہ نہیں۔اور اسرائیل کی جانب سے حالیہ دہشتگردی اور غزہ میں مسلمانوں کاقتل عام اسی سلسلہ کا تسلسل ہے جوقیام اسرائیل کے ساتھ ہی مغربی اور مسلمان دشمن قوتوں کی سر پرستی میں شروع کر دیا گیا جو کہ آج تک جاری ہے۔اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حالیہ حملے اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہیں۔ او ر اب تک ایک محدود اندازے کیمطابق اسرائیل کی جانب سے ا ان حالیہ حملوں میں600سے زائد فلسطینی شہید جبکہ 3600سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں جن میں مرد و زن،بچے اور بووڑہے بلا تمیز سب شامل ہیں۔اس کے علاوہ کئی مساجد اور تفریح گاہوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔سرکاری املاک اور ہسپتالوں کو بھی بری طرح نشانہ بنایا گیا۔غرض کہ اسرائیل نے مسلمانان غزہ پر ظلم و بر بریت کی جو امثال قائم کی ہیں انکی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔انسانیت کو جس انداز میں روندہ جا رہا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔انسانی حقوق کو جس انداز میں پامال کیا جا رہا ہے وہ کسی سے ڈھکہ چھپا نہیں۔
آج فلسطین کی گلی گلی میں ماوئں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کو پامال کیا جا رہا ہے معصوم بچوں کو اس طرح مارا جا رہا ہے کہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔نوجوانوں کو اس طراح سر عام قتل کیا جارہا ہے جیسے ان کاکوئی وارث ہی نہ ہو۔میں پوچھتا ہوں آج انسانی حقوق کے تحفظ کے علمبرداراس درندہ گی پہ خاموش کیوں ہیں؟فلسطین میں حوہ کی بیٹی کی بے حرمتی پر عاملی ادارے برائے تحفظ حقوق نسواں سراپہء احتجاج کیوں نہیں؟ غزہ میں شہید ہونے والے ہر نوجوان کا بوڑھا باپ آج اس بات کا منتطر ہے کہ کیاکبھی کوئی اس کے لخت جگر کے قتل عام کے خلاف بھی کوئی آواز اٹھا ئے گا؟
آج ہر آدمی کے دل میں یہ سوال کانٹے کی طراح چبھ رہا ہے کہ کیا اسرائیل جو کچھ فلسطین میں کر رہا ہے وہ دہشتگردی نہیں؟کیا انسانوں کے ساتھ جانوروں جیسا برتاؤ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ؟کیا کبھی کسی نے ان نہتے،بے یار و مددگار انسانوں کا بھی سو چے گا کسی جو یہودیوں کی درندہ گی کا شکار ہو رہے ہیں؟آج عالمی برادری اس اسرائلی جار حیت پر چپ کیوں ہے؟دنیا میں قیام امن کیلئے کام کرنے الے ادارے آج اکہاں سو گئے ہیں؟
انسانی حقوق کے تحفظ کا رونہ رونے والو!آج فلسطین میں انسانی حقوق کو سر عام پامال کیا جا رہا ہے،آج تمھاری زبانوں کو تالے کیوں لگ گئے ہیں؟چائلڈ رائٹس کی آڑ میں اپنے مفاداد حاصل کرنے والو!آج فلسطین کا ہر بچہ تم سے سوال گو ہے کہ فلسطین میں معصوم بچوں کے قتل عام پر تم سراپہ احتجاج کیوں نہیں؟حقوق نسواں کا شور مچانے والو!آج فلسطین میں حوہ کی بیٹی کودرندوں کی طرح کاٹا جا رہا ہے، آج اس ظلم پر تمھاری آواز پست کیوں ہے؟
آج اسلامی ممالک کے سربراہان کہاں کھو گئے ہیں؟کیا کسی مسلمان لیڈر کو بھی کبھی توفیق ہو گی کہ وہ فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام پر کوئی سنجیدہ عملی اقدامات کرے ؟کیا کبھی عیاشی میں مگن عرب ممالک کے سربراہان بھی فلسطین میں مسلمانوں کیقتل عام خلاف آواز اٹھائیں گے؟ شایدنہیں۔ ایسا کوئی نہیں کرے گا۔ کیونکہ ان لوگوں کی مجرمانہ خاموشی انکی سوچ اور انکے ارادوں کی عکاس ہے۔ اور اس ساری صورت حال کے پیش ِ نظر آخر میں انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ فلسطین کے اشو پر عالمی برادری اور عالمی اداروں کی خاموشی ان کے ارادوں کی مظہرہے۔اور یہ سب لوگ بشمول اسلامی مما لک اس میں برابر کے شریک ہیں ۔او ر شرمناک بات یہ ہے کہ اب اگر اس برے وقت میں اسرائیلی ظلم و بر بریت کے جواب میں اگر کسی مسلمان قوت نے مسلمانان فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونے اور اسرائلی دہشتگردی کا جواب دینے کا اعلان کیا تو ہمیشہ کی طرح ا سکو ایک ہی لقب سے نوازہ جائے گا اور وہ لقب ہے دہشتگرد۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
حافظ محمد فیصل خالد کے کالمز
-
حزب اختلاف سے حزب اقتدار تک
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
ریاستِ مدینہ سے سانحہ ساہیوال تک
پیر 21 جنوری 2019
-
مذہب کارڈ!
پیر 19 نومبر 2018
-
اے قائد ہم شرمندہ ہیں!
بدھ 27 دسمبر 2017
-
وزیرِ اعظم کا استعفی
اتوار 28 مئی 2017
-
اِک زرداری سب پہ بھاری!
پیر 26 دسمبر 2016
-
آخر مذہبی جماعتیں کیوں نہیں؟
منگل 1 نومبر 2016
-
جمہوری حکومت اور سائبر کرائم بِل2016
اتوار 21 اگست 2016
حافظ محمد فیصل خالد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.