مذہب کارڈ!

پیر 19 نومبر 2018

Hafiz Muhammad Faisal Khalid

حافظ محمد فیصل خالد

زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں مبینہ طور پر حلف نامے میں ختم نبوت سے متعلق شق سے چھیر چھاڑی گئی۔جس کو بنیاد بناء کر حزب اختلاف نے بالاعموم اور تحریک انصاف نے با الخسوص اپنی سیاست اور خاص طور پر اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا۔جس کے نتیجے میں عوام سڑکوں پر نکلے، بھر پور احتجاج کیا اور بالآخر میں تحریک لبیک نامی مذہبی جماعت ملکی سطح پر سیاسی جماعت بن کر ابھر ی۔

یہ احتجاج اتنی شدت اختیار کر گیاکہ حکومت وقت کو اپنے سروائیوال کیلئے ان کے تمام تر مطالبات ماننے پڑے۔ اس سب کے باوجود تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے عوام نے اس اہم ایمانی مسلے پر بلا تفریق اور غیر مشروط طور پر حزب اختلاف کا جس انداز میں ساتھ دیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔

(جاری ہے)

جسکا نتیجہ عام انتخابات میں انکی بھر پور کامیابی کی صورت میں سامنے آیا۔

(اس کا یہ مطلب نہیں کہ حکمران جماعت بر سر اقتدار ہی اس بنیاد پر آئی ، ہاں یہ ضرور کہ سکتے ہیں کہ اس مذہب کارڈ کے استعمال نے ابکو ناقابل یقین حد تک فائدہ پہنچایا)۔
اب صورت حال تھوڑی مختلف ہے ۔حالیہ صورت حال میں جب پاکستان تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے اور آسیہ مسیح کیس میں عوام سڑکوں پر ہیں لیکن اس بار تحریک انصاف یا خاموش ہے اور یا اس فیصلے کا دفاع کر رہی ہے جبکہ ماضی میں اسی مسلے کو لیکر اپنی سیاست کرتی رہی ہے۔

شاید اب انکی پوزیشن بدل گئی ہے یا پھر وہ کسی سیاسی مصلحت کا شکار ہیں۔
بہر حال مذکورہ بالا صورت حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ختم نبوت جیسا اہم مسلہ صرف سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے ہی رہ گیا ہے؟ کیا ہمارے سیاستدانوں کو اقتدار اس قدر عزیز ہے کہ وہ اس کے حصول کیلئے ختم نبوت جیسے معاملے کا استعمال بھی کر لیتے ہیں؟کیا ہماری سیاسی اقدار اس قدر گر چکی ہیں کہ ہم اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں؟کیا ختم نبوت جیسا اہم ترین ایمانی جز صرف اس لئے رہ گیا ہے کہ جب ہماری سیاست کو اسکی ضرورت ہو تب استعمال کریں اور جب ہماری سیاست متاثر ہو رہی ہو تب اپنی پالیسی بدل لیں؟یہ وہ چند بنیادی سوالات ہیں جو زبان زدِ عام ہیں اور ہر ذی شعور انسان اس بات کا متقاضی ہے کہ حکومت وقت اپنی اس پالیسی کی سنجیدگی کے ساتھ وضاحت کرے۔


اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو باقی تو کچھ نہیں کہ سکتا البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ کم از کم ہمیں تاریخ یاد رکھنی چاہئے کہ جب گزشتہ حکومت نے اس مسلے کو چھیڑا اور شاید اس سے کم درجے کی ہڈ دھرمی کسے کام لیا تھا(جس میں میڈیا پر جزوی پابندی، دھرنوں کی کووریج پر ہر قسم کی پابندی، انٹرنیٹ سروس بند،اور جئی شہروں میں موبائل سروس تک بند کردی گئی) لیکن نتیجہ شاید انکی توقعات سے بھی زیادہ ماثر کن تھاجوعام انتخابات میں سب کے سامنے آگیا۔


آخر میں مالک ارض و سماء سے دل و جان سے دعا گو ہوں کہ میرے اس ملک کو شاد و آباد رکھنا اور اسکو امن کا گہواڑہ بنا کر اس کے باسیوں کو کم از کم اتنا شعور عطاء فرمادے کہ یہ مذہب اور خاص طور پر اہم عقائد کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والوں سے سے دوررہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :