
جمہوری حکومت اور سائبر کرائم بِل2016
اتوار 21 اگست 2016

حافظ محمد فیصل خالد
(جاری ہے)
الغرض کہ اس بِل کے تحت ذاتی طور پر استعمال ہونے والے اکاؤنٹس کی بھی رکھوالی کی جائے گی اور ضرورت پیش ٓانے پر بغیر کسی تحریری شکایت کے متعلقہ بندے کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی۔یہ بِل چند دنوں میں پاس کیا گیا اور جلد ہی نافذ العمل بھی ہوگا۔
اب اس ساری سورتِ حال میں دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بِل انہیں معزز سیاست دانوں نے پیش چند دنوں میں پاس کیا ہے جنہیں جب سیاست دانوں کی بد عنوانیوں کے خلاف بِل منظور کرنے کو کہا جاتا ہے تو ان سیاست دانوں کی جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے جبکہ اس قسم کے قوانین عوامی آراء پر قدغن لگانے کیلئے منطور کرنے ہوتے ہے تو وہ چند دنوں میں منظور و مقبول بھی ہو جاتے ہیں۔
اب مذکورہ بالا صورتِ حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسی جمہوری حکومت ہے جسمیں عوام کے ہی حقِ رائے دہی پر قد غن لگایا جاتا ہیاور حکمران طبقے کے خلاف بات کرنا بھی قابلِ گرفت عمل ٹھرایا جاتا ہےَ؟یہ کہاں کی جمہوریت ہے جس میں عوام کو بنیادی سہولیاتِ زندگی فراہم کرنے کی بجائے انکے چند حاصل شدہ حقوق بھی چھینے جا رہے ہیں؟یہ کیسا جمہوری نظام ہے جس میں عوام پر تو ہر قسم کے قوانین مسلط کر دئیے جاتے ہیں مگر جب سیاست دانوں کے احتساب کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو انکی جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے؟ یہ کیسا منصفانہ نظام ہے جس میں ایک محنت کش کی تنخواہ میں دس سے پندرہ فیصد اضافہ کیا گیا جبکہ سیاست دان طبقے کی تنخواہوں میں تین سو سے چار سو فیصد تک اضافہ کیا گیا؟یہ کہاں کی عوامی حکومت ہے جس میں حکمران طبقے کے ٹی۔اے۔ ڈی۔ اے تک میں دو سو فیصد اضافہ کیا گیا اور دوسری جانب عام ادمی پر اتنی ہی ٹیکسز لگا دئیے گئے؟
کیا اس جمہوری حکومت کے پاس اور کوئی کام نہیں رہ گیا ما سوائے سیاست دانوں کی بد عوانیاں چھپانے اور غریب عوام کی کمر توڑنے کے؟
یہ کیسی قانون ساز اسمبلی ہے جسمیں عام آدمی کے خلاف قانون سازی تو چند ہی دنوں میں منظوری ہو جاتی ہے جبکہ بد عنوان سیاست دان طبقے کے احتساب کیلئے آج تک کوئی ایک قانون سازی نہ ہو سکی؟ یہ کیسا طرزِ جمہوریت ہے جسمیں سرِ عام قتلِ عال کرنے والے اور آئین شکن آمرکو با عزت طریقے سے ملک سے باہر بھیج دیا جاتا ہے جبکہ عام آدمی کے خلاف یہاں کا اندھا قانون فوراََ حرکت میں آجاتا ہے؟
یہ وہ چند بنیادی سوالات ہیں جو راقم الحروف کے ذہن اس لئے نہیں نکل پا رہے کیونکہ ان کا ابھی تک کسی بھی فورم سے مئوثر جواب نہیں ملا۔ او ر اب تو اس بات کا یقین ہوتا جا رہا ہے کہ اگر میاں صاحب اور انکی کابینہ نے اپنا یہ آمرانہ طرزِ حکمرانی نہ بدلا تو انکو آئندہ انتخابات میں اپنی ان حرکات کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ کیونکہ یہ بات تو مثلِ خورشید عیاں ہے کہ ایک دن انکو تختِ بادشاہت سے اتر کر عوامی عدالت میں بھی پیش ہونا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حافظ محمد فیصل خالد کے کالمز
-
حزب اختلاف سے حزب اقتدار تک
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
ریاستِ مدینہ سے سانحہ ساہیوال تک
پیر 21 جنوری 2019
-
مذہب کارڈ!
پیر 19 نومبر 2018
-
اے قائد ہم شرمندہ ہیں!
بدھ 27 دسمبر 2017
-
وزیرِ اعظم کا استعفی
اتوار 28 مئی 2017
-
اِک زرداری سب پہ بھاری!
پیر 26 دسمبر 2016
-
آخر مذہبی جماعتیں کیوں نہیں؟
منگل 1 نومبر 2016
-
جمہوری حکومت اور سائبر کرائم بِل2016
اتوار 21 اگست 2016
حافظ محمد فیصل خالد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.