حزب اختلاف سے حزب اقتدار تک

ہفتہ 15 جنوری 2022

Hafiz Muhammad Faisal Khalid

حافظ محمد فیصل خالد

زیادہ پرانی با ت نہیں ہے کہ جب موجودہ دور کے حکمران اور ماضی کے رکن حز ب اختلاف اسوقت کے حاکموں کے نظام حکومت اور طرز سیاست پر بڑی تنقید کیا کرتے تھے۔یہ وہی وقت اور تحریک تھی جس نے عوام کو ایک امید دلا ئی کہ انکے حالات بہتر ہو سکتے ہیں بشرطیکہ موجودہ حکمران جماعت بر سر اقدار آجائے ۔ اسی امید کے ساتھ پاکسان تحریک انصاف کو موقع نصیب ہوا۔


اب برسراقتدار آنے کے بعد خان صا حب نے سب سے پہلے across the boardاحتساب کا نعرہ لگایا جسکو بھر پور پذی رائی ملی ۔مگر بد قسمتی سے بلا امتیازاحتساب تو نہ ہو سکا البتہ مبینہ طورپر حزب اختلاف کو ٹھیک ٹھاک لتاڑاگیااور حزب اختلاف کا شاید ہی کوئی ایسا راہنما ہو جس نے قومی احتساب کے اداروں کو نہ بھگتا ہو ۔اسکے بعد خان صاحب نے فر مایا کہ میں میڈیاکی آزادی پر بہت سخت یقین رکھتا ہوں مگر اس بیانیہ کے غبارے سے بھی بہت جلد ہوا نکل گئی اور حکومتی پالیسیوں پر تنقید اور ناقدین کو کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

(جاری ہے)


 پھرعوام کو سنا یا گیا کہ جس مافیا نے ادویات کی قیمتوں میں ناقابل یقین حد تک اضا فہ کیا ہے اسکوکسی صورت بھی معاف نہئں کیا جائے گا مگر اس مافیا کے کسی ایک فرد کو بھی احتساب کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا اور آج تک وہ لوگ باالواسط یا بلا واسطہ ایوانانِ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔
یہی عزائم پٹرول مافیا کے خلاف دھرائے گئے مگر وہاں بھی حکومت بے بس نظر آئی اور کچھ بھی قابل ذکر نتائج بر آمد نہ ہو سکے ۔

اس کے بعد چینی مافیا نے سر اٹھایا اوریہاں بھی حکومت مذکو رہ دونوں نوعیت کے دعوے کرتی رہی ، اور چینی مافیا اربوں کھربوں بناتا رہا، اور عوام حسب معمول مہنگائی کی چکی میں پستی رہی ۔
آٹا تقریبا دگنے داموں پر پہنچا تو حکومتی مشینری کے بلندو بالا دعوں نے مہنگائی کی چکی میں پستی عوام کو ایک بہتری کی امید دلائی مگر عوام کی تمام تر امیدیں اسوقت دم توڑ گئی جب حکومت نے اپنی سابقہ روایت کو بر قرار رکھا او ر نتیجتاََ َ عوام کے پاس مہنگائی کی چکی میں پسنے کے علا وہ کوئی چارہ باقی نہ رہا۔


مختصرایہ حکومت نے ہر ایک شعبہ میں خدمت کا صرف دعویٰ کیا جبکہ عوام کے حصے میں صرف اور صرف بے روزگاری،بھوک اور افلاس آیا ۔انہی حکومتی رویوں کی وجہ سے اب عالم یہ ہے کہ ماضی میں سب سے بڑے عوامی جلسے کرنے کی دعویدار جماعت آج عوامی حلقوں میں جانے سے گھبرا رہی ہے اور اس ہوش ربا تنزلی کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے اس حکومت کا بد ترین طرز حکومت ۔

لیکن یہاں کمال کی بات یہ ہے کہ یہ اپنی غلطیوں سے سیکھنے اور کمزرویاں دور کرنے کی بجائے سار ملبہ گزشتہ حکومتوں پر ڈالتی رہی ہے۔ اور اب بھی تقریباََ تین سال کے اقتدار کے بعد انکے پاس اپنے دفاع میں نہ کوئی ترقیاتی منصوبے ہیں اور نہ ہی کوئی عوامی، فلاحی کام۔
اور یہ رویہ عوام میں اس حکومت کی بچی کچی ساکھ کو بھی مزید خراب کرتا جارہا ہے مگر حکمران ہیں کہ اقتدار کے نشے میں اہم ترین موضوعات کو بھی نظر اندا ز کرتے جا رہے ہیں ۔ اور اگر یہی روش جا ری رہی تو وہ دن دور نہیں کہ جب موجو دہ حکمرانوں کے لیے عوامی حلقوں کے دروازے بند ہو جائیں اور دوبارہ حصول اقتدار صرف ایک خواب ہی بن کر رہ جائیگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :